Quran Hadith Huqooq Ki Paasdaari By Maulana Rizwanullah Peshawari

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
حقوق کی پاسداری ....... تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری

huqooq.jpg

ایک وقت تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے،معمولی معمولی باتوں پر خون بہایا کرتے تھے،اپنی بچیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے ، ظلم وبربریت کا عالم تھا

حقوق کی پاسداری تو اس وقت سورج کے سامنے شمع دکھانے کے مترادف تھی۔اسی عالم میں اللہ تعالیٰ نے اس امت پر عظیم احسان کیا اور اپنے محبوب کبریاﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا،انہوں نے اس ظلم وبربریت میں پلنے والوں کی ایسی آبیاری کی کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے،وہی لوگ تھے مگر اسلام کے بعد ایک دوسرے پر فدا ہونے لگے۔
حقوقِ انسانی کے معنی: یہ دو کلموں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے : وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یا جماعت کیلئے ) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے ، انسان کی تعریف وہ جاندار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔
حقوق کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے ، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالے کے سلسلے میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے ، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے ،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔
حقیقی انسانی حقوق: انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائیداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٔ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
جامع ترین تصور اسلام نے دیا
مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن حضور اکرمﷺ نے جو مربوط نظام انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں پرظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ''حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے۔‘‘
زکوٰۃ اور حقوقِ انسانی: ایک مخصوص طبقے کے پاس مال ودولت کے منجمد رہنے سے کمزور طبقے بیروزگاری کے شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرے کی ایک بڑی تعداد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ اسلامی قوانین نے زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا اڑھائی فیصد حصہ غریبوں کیلئے خاص کیا کہ دولت ایک ہاتھ میں سمٹ کر نہ رہ جائے ، صدقہ وخیرات کی اہمیت اجاگر کرکے غرباء ومساکین کا بھرپور خیال رکھا، ارشاد ربانی ہے :ترجمہ '' اور ان کے مالوں میں غرباء ومساکین کا حق ہے ۔‘‘
انسانیت کی میزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اعزاز بخشا، اس کے احترام واکرام کی تعلیم دی، اس کو خوبصورت سانچے میں ڈھال کر دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا، ارشاد ربانی ہے : ترجمہ '' ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی ودریا میں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے :ترجمہ'' ہم نے آدمی کو اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ۔‘‘ تیسری جگہ فرمایا: ترجمہ'' اللہ نے تمہارے نفع کیلئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔‘‘ اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت وشرافت کی اتنی پاسداری کی کہ انسان کا احترام پس مرگ تک باقی رکھا، چنانچہ نبی کریم ؐ کے زمانے میں ایک عورت کا جنازہ لے جایا جارہا تھا، اللہ کے رسولﷺ کھڑے ہوگئے ، صحابہؓ نے کہا: یہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا'' کیا وہ انسان نہیں؟ ‘‘اسی طرح نبوت و شریعت کی دولت بھی صرف اور صرف انسان ہی کو عطا کی گئی ، اسلام نے انسانیت کو علوم وعقل اور خرد جیسے گرانقدر انعام سے نوازا، ارشاد ہے : ترجمہ '' اللہ کی تمام پیداکردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے ۔‘‘
اخوت ومساوات: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت، وطنیت اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیا کہ سب انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبے میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں وحدت و مساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ، ارشاد نبویؐ ہے : ''اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے ، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاکباز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا ء پر۔‘‘ اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ فرمایا جو تمام نسلِ آدمؑ کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے : ترجمہ ''لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلادئیے ۔‘‘دوسری جگہ ارشاد ہے : ترجمہ ''لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت
یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے ، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے نبی کریم ؐ نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کا حکم دیا گیا چنانچہ ارشاد باری ہے : ترجمہ ''جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ ‘‘ اسی طرح ارشاد نبویؐ ہے :'' رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔‘‘ دوسری حدیث میں ارشاد ہے : ''اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے ۔ ‘‘ اور مال کے تحفظ کے بارے میں حکم دیا گیا ''اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘ واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کیلئے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے ، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کا معیار زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ چنانچہ ایسے ایسے اصول وقوانین طے کیے جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ غلامی کے طوق سے نکل سکیں ،بہت سے گناہوں اور حکم عدولیوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی اور ان کیساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔ آئیے عہد کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کی فلاح کیلئے جن حقوق کی پاسداری ضروری ہے ہم ان حقوق کی پوری پاسداری کریں گے۔

 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور جواب کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top