Quran Hadith Ikhlaq Ki Ehamiyat By Nighat Hashimi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اخلاق کی اہمیت .... تحریر : نگہت ہاشمی

ikhlaq.jpg

ہم اسے فلسفے کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ ’’نضرۃ النعیم‘‘، کا کیا مطلب ہے ؟ نعمتوں کی تازگی، رونق۔ قرآنِ حکیم سے آیت آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، اس سے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ رب العزت نے سورۃ المطففین آیت 22-24 میں فرمایا:
اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْن تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْم
’’یقینا نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے۔ اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے نظارے کر رہے ہوں گے۔ ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔‘‘
’’تَعْرِف‘‘ کی جڑ کیا ہے؟ (ع ر ف) اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ پہچان، معرفت کو کہتے ہیں۔ جنتی لوگوں کی پہچان کس چیز سے ہو گی؟ تَعْرِف ’’آپ پہچانو گے‘‘۔ کوئی بھی جنتی کو پہچانے گا تو کس چیز سے؟ نہ آنکھ سے، نہ ناک سے، نہ ہونٹوں سے، نہ چہرے کی بناوٹ سے، نہ قد بت سے، نہ رنگت سے، کوئی چیز نہیں۔

خَلق اللہ تعالیٰ کی ہے اور خُلق انسان کا، خَلق کی وجہ سے دنیا ملی اور خُلق کی وجہ سے جنت ملی

تَعْرِف ’’آپ کو پہچانو گے‘‘۔
جنت تو ایسی جگہ ہے جہاں پیمانے مختلف ہوں گے۔
تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ
’’آپ پہچانو گے اُن کے چہروں میں‘‘۔
جیسے آج ہمارا ایک چہرہ ہے ایسے ہی آخرت میں ہم سب کا ایک چہرہ ہو گا۔ وہ چہرہ کیسا ہو گا؟ ہم مٹی سے بنے ہیں، مادے سے، ہمارے ذہن میں ہمیشہ ایک مادی شکل ہی رہتی ہے اور یہ شکل اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بنا کر بھیجی ہے۔ خَلق اللہ تعالیٰ کی ہے اور خُلق انسان کا۔ خَلق کی وجہ سے دنیا ملی اور خُلق کی وجہ سے جنت ملی۔ سورۃ المؤمنون کے حوالے سے ایک بات انسان کی پیدائش کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے آگے چلوں گی:
’’ہم نے انسان کو مٹی کے سَِت سے بنایا، پھر اُسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اِس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر اِس لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنادیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اُس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پھر بڑا ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ اِس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے۔ پھر قیامت کے دن یقینا تم کو اٹھایا جائے گا۔‘‘[سورۃ المؤمنون : 12-16]
ہم پہلے خَلق کے درجات دیکھیں گے، پھر خُلق کے درجات دیکھیں گے۔
خَلق رب کی جانب سے اور خُلق انسان کی جانب سے۔ خَلق کے لیے جو کچھ کیا رب نے اِس دنیا میں رہنے کے لیے، مٹی پہلی چیز ہے۔ سورۃ المؤمنون کی آیات میں نے آپ کے سامنے رکھیں۔ آپ اس کو فَلو چارٹ کی شکل میں دیکھیں گے، پھر ہم باری باری خُلق کی بات کو دیکھیں گے، پھر مائنڈسیٹنگ ہو گی۔
خَلق کے مراحل: ۔1۔ مٹی، 2۔ نطفہ، 3۔ علقہ (علقہ کہتے ہیں جمے ہوئے خون کو)، 4۔ گوشت کی بوٹیاں (اس بوٹی کی کوئی شکل نہیں تھی)، 5۔ ہڈیاں، 6۔ ہڈیوں پر گوشت، 7۔ موجودہ شکل، یہ وجود۔
یہ انسان کی تخلیق ہے۔ کیسے انسان بنا؟ بنیادی مادہ پتہ لگ گیا ناں کیا ہے؟
اس آیت میں دنیا میں رہنے کا تذکرہ نہیں ملتا دنیا سے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ جب آپ نے یہ دیکھ لیا پیدائش انسانی کے مراحل آخر میں دیکھ لیں۔
زندگی کے بعد کے مراحل: ۔1۔ زندگی سے پہلے، 2۔ زندگی، 3۔ موت، 4۔ بعث بعدالموت
کیا اس بات کا ہمیں یقین آتا ہے کہ ہم کبھی نہیں تھے؟ ان میں سے کوئی بات ایسی ہے جس پر یقین نہ آتا ہو؟ اس بات پر یقین ہے کہ کبھی ہم نہیں تھے۔
’’کیا لامتناہی زمانے میں انسان پر کبھی ایسا وقت گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا‘‘(الدھر:1)
کیا تھا پھر؟ مٹی۔ اس کے بعد پھر اگلی سٹیجز شروع ہوئیں اور اب وجود بن گیا۔ پھر یہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی نہیں ہے۔ مٹی کو موت آئے گی لیکن روح کو موت نہیں آئے گی۔ یعنی جسم کو موت آئے گی، جب بعث ہو گا تو اس وقت اسی مٹی یعنی جسم کو دوبارہ اٹھایا جائے گا لیکن روح کو کبھی موت نہیں آنی، پھر روح کا کیا ہونا ہے؟ روح کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؟ روح موت کے وقت کہاں جائے گی؟ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں۔
پہلا پوائنٹ جواب تک ہم نے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روح کو قبض کر لیں گے اور صرف اسی کی جان کو آزاد کیا جائے گا، ہمیشہ کی خوشیاں اسے دی جائیں گی جو کامیاب ہے ورنہ یہ روح ہمیشہ کے لیے قبض ہو جائے گی۔
دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس روح کو پیدا کیا اس نے کبھی ختم نہیں ہونا۔ اس کا ایک لباس دنیا کے لیے اور ایک لباس آخرت کے لیے، خَلق اور خُلق۔ ایک لباس دنیا کا اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہمیں اس میں کوئی محنت نہیں کرنی پڑی، نہ تو کسی کی ماں کی محنت ہے نہ باپ کی، نہ کسی ڈاکٹر کی اور نہ کسی اور کی۔ خَلق میں کسی کا کوئی حصہ نیہں ہے۔ روح کا پہلا لباس خَلق ہے۔ روح کا ایک دوسرا لباس ہے جس کے ساتھ ہمیں آخرت میں اٹھایا جائے گا۔ وہ لباس ہے خُلق۔ پہناوے ہے ناں روح کا۔ جیسا خود کو بنایا ہو گا ویسا ہی اللہ تعالیٰ اسے اٹھائیں گے، اسی شکل میں۔ آپ کو یاد ہوگی وہ حدیث آپﷺ نے فرمایا:
’’طعنے دینے والے، پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے والے قیامت والے دن کتوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔‘‘ کتے کا پہناوا اور امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ جو اخلاقی برائیاں ہیں، غلطیاں، یہ جانوروں کی طرح ہیں اور امام غزالیؒ نے اس کو بھی کتے سے تشبیہ دی ہے۔ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ جس گھر میں کتے ہوتے ہیں وہاں فرشتے نہیں آتے، روشنی نہیں آتی اور جس دل کے اندر برائیاں ہوں، جس انسان کے اَخلاق خراب ہوں، جو آلودگیوں میں مبتلا ہو، اس دل کے اندر نہ تو اللہ تعالیٰ کا نور آتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایت جگہ پاتی ہے۔ (احیاء العلوم105/1)
اس سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟ کہ انسان اس دنیا میں اپنی روح کے لباس کے لیے خود کوشش کرتا ہے۔ خُلق کہتے ہیں عادت کو۔ یہ رویے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں صورت ملے گی۔ اب ہم قرآن کے ذریعے اسے اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ رب العزت نے قرآن میں جنتیوں کے چہرے کی شناخت اور علامت بتائی ہے:
تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْم(المطففین:24)
اب آپ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔
تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ
’’آپ پہچانو گے ان کے چہروں میں‘‘۔
ان کے چہرے کیسے ہوں گے؟ یہ وجود تو مٹی کا لباس ہے۔ مٹی کا لباس ختم ہونے والا۔ جنت والوں کے چہروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
نَضْرَۃَ النَّعِیْم
’’نعمتوں کی بارش ہو گی‘‘۔
یہ نعمتیں کیا ہیں؟ کون سی چیز ہو گی جس کی وجہ سے جنتیوں کو خوبصورت چمکے ہوئے چہرے ملیں گے؟ یہ خُلق ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے انسانوں کو دنیا میں محنت کرنا ہے۔ ہم جیسا چہرہ چاہتے ہیں ویسا ہی چہرہ مل جائے گا۔ بس اس چہرے کے لیے ہم کو ویسی ہی عادات اپنانی پڑیں گی، کل جو کچھ ہمیں ملنے والا ہے وہ ہمارے اخلاق، ہماری عادات، ہمارے رویوں کی وجہ سے۔ جو نَضْرَۃَ النَّعِیْم ہے نعمتوں کی تازگی، اس کو ہم کہاں سے دیکھیں؟ کیسے پتہ چلے کون کون سی نعمتیں ہیں؟ اس کو دیکھنا ہے رسول اللہﷺ کے اخلاق سے۔ اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے تو
’’رسولِ کریمﷺ کے اَخلاق میں دیکھ سکتا ہے‘‘۔
جو چیزیں آپ نے اپنائیں، جیسی شخصیت آپ کی بنی ویسی شخصیت بنانی ہے۔ دیکھیں دنیا کی زندگی میں آپ شخصیت کے تصور (کانسپٹ) کو سمجھیں کسے کہتے ہیں؟
شخصیت، پرسنالٹی، انسان کی پہچان ہوتی ہے ناں! شخص کسے کہتے ہیں؟ انسان کو۔
انسان جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرلے وہی اس کی شخصیت ہے، وہی اس کی پہچان ہے۔ شناختی کارڈ پر ہمارے کیا پہچان ہوتی ہے؟ مثلاً دائیں گال پر تل کا نشان یا بائیں پاؤں پر کٹ کا نشان وغیرہ۔ دنیا میں پہچان کی نشانیاں کتنی معمولی قسم کی ہوتی ہیں! کے لیے کوئی نہ کوئی نشان تو ہوتا ہی ہے اور مومن کی تو اس کے اوصاف ہوں گے، اس کے اَخلاق ہوں گے اور اَخلاق کی وجہ سے ہی مومن کو شخصیت ملے گی اور جنت میں اس کا چہرہ پہچانا جائے گا۔
ہمیں پہچان چاہیے۔
ہماری روح کو لباس چاہیے۔
ہمیں اپنا ایک چہرہ چاہیے۔
اس چہرے کی رونقیں چاہئیں۔
اس چہرے کی تازگی چاہیے۔
تو یہ نعمتوں کی تازگی ہے، یہ اَخلاق ہیں، ان کے بغیر چہرہ نہیں بنے گا۔ آپ کبھی ماں کے پیٹ کے اندر علقہ سے بننے والی بوٹی کو دیکھیں، اس کی تو کوئی شکل نہیں ہوتی۔ انسان کو مٹی سے بنایا گیا، ایسے ہی انسان کے خُلق کے لیے بھی کچھ بنیادی مواد ہے جس سے اَخلاق بنتے ہیں۔ اس کے بغیر اَخلاق وجود میں نہیں آ سکتا۔
امام غزالیؒ کہتے ہیں اَخلاق کا بیج ایمان ہے۔ یہ بیج نہیں بوؤ گے تو خُلق نہیں بنے گا۔ کیا کبھی کوئی پھل بغیر بیج کے پیدا ہوا یا کوئی سبزی یا اجناس میں سے کوئی جنس بغیر بیج کے پیدا ہوئی؟ جب کوئی چیز بغیر بیج کے پیدا نہیں ہوئی تو خُلق کے لیے بھی بیج چاہیے۔ یہ بیج کس کا ہے؟ ایمان کا، یقین کا۔ اس کے لیے کچھ حقائق کو سمجھنا پڑے گا اور کچھ چیزوں کو ذہن میں بٹھانا ہوگا تب ہی اَخلاق کا معاملہ درست ہو سکتا ہے۔



اللہ خالق ہے

ہمارا خالق کون ہے ؟جس نے ہمیں اس جسم کا پہناوا دیا۔ وہ کون ہے ، وہ کیسا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ ہے، ایک ہے ۔ اس جیسی صفات کسی کی نہیں۔ اس نے مجھے پیدا کیا ، ساری مخلوقات کو پیدا کیا ، زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ وہ کیسا ہے ، وہ نور ہے ۔
سور نور کی آیت نمبر35 میں آیا ہے کہ
’’اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے ‘‘
ہم مخلوق ہیں ، وہ ہمارا خالق ہے ۔ ہم مٹی سے بنیں ہیں اور وہ خالق نور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے اخلاق کیلئے خود کوشش کریں۔ایک اللہ تعالی کو کہاں سے پہچانیں؟ایٹم سے پہچان لیں؟ایٹم سے کیسے پہچانیں گے؟ اس کا سسٹم بتاتا ہے، بیچ میں ایک نیوکلئس ، اردگرد الیکٹرانز۔ اس مثال کو دوسرے انداز میں دیکھیں، عبادت ہورہی ہے اور ہمیں سکھایا جارہا ہے ، گھومو گھوموگھومو۔ پھر بیت اللہ میں دیکھ لیں کیا ہوتا ہے ؟بیت اللہ میں کیا ایٹم کی کہانی نہیں ہے؟گھومو گھومو گھومو۔ ہم طواف کو ایک چھوٹے سے ذرے میں دیکھ سکتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کس طرح ہوتا ہے ؟ جس کی چاہت نہ ہو وہاں پہنچ نہیں سکتا۔ چاہت کے بغیر اللہ تعالیٰ قبول بھی نہیں کرتا، چاہت کے ساتھ وہاں پہنچتے ہیں اور دل اس گھر والے کے ساتھ اٹک جاتا ہے ۔ اپنی ساری خرابیاں ، خامیاں اپنے سارے گناہ یاد آجاتے ہیں اور دل کے اندر ایک شگاف سا ہوجاتا ہے ۔ پھر وہاں سے اتنا پانی نکلتا ہے جو آنکھوں سے بہتا چلا جاتا ہے ۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ خوف پیدا ہوتا ہے ۔ یہ دل کی روشنی ہے ۔ اب دل روشن ہوگیا ناں، اسے خرابیاں ، خامیاں سب نظر آنے لگ گئیں۔ یہ ایک ٹوٹا ہوادل ہے جس سے رب کا تعلق پھوٹ رہا ہے ۔ ایٹم میں دیکھیں، ایٹم کو جب توڑا گیا تو کیا نکلا؟قوت، توانائی، قوت کیا ہے ، روشنی، نور۔ اقبال کہتے ہیں ۔
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
سورج کے اندر بھی یہی کام جاری وساری ہے ۔ سورج میں کیا ہورہا ہے؟ایٹم ٹوٹ رہے ہیں ۔ اٹامک انرجی ، اس کی روشنی ہم تک پہنچتی ہے ۔ ساری دنیا کی ایک ایک چیز پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہمیں جس نے پیدا کیا بامقصد پیدا کیا۔دنیا میں ہر چیز کے اندر ایک رب کا تصور ملتا ہے ۔ اللہ تعالی کی کس قدر صفات اور اختیارات ہیں ۔ وہ تو کامل ذات ہے لیکن اس ذات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے دل روشن ہوتا ہے ۔ جیسے دیے سے دیا جلتا ہے ناں تو اللہ تعالیٰ کے نور کی وجہ سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے ۔یہ انسان کا اپنے رب سے تعلق ہے ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان مخلوق ہے ۔​
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top