Ilm e Najoom ka Waba Se Anokha Rishta By Rizwan Atta

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
علمِ نجوم سے وبا کا انوکھا رشتہ ۔۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا

ilm.jpg

کووڈ 19 نے دنیا کو جب سے لپیٹ میں لیا ہے، عہدوسطیٰ میں آنے والی خطرناک وبا خیارکی طاعون سے اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ طاعون کی وبا کے دوران جعلی خبروں اور جھوٹی معلومات کا بازار گرم رہا۔ حالیہ وبا میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ طاعون کے دنوں میں یہ سوال پوری شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ یہ کب ختم ہو گا اور آج کووڈ 19 کے اختتام بارے جاننے کے لیے لوگ بے تاب ہیں۔
ان مماثلتوں کے باوجود ایک فرق بہت واضح ہے۔ وبائی مرض کے پھیلاؤ اور نتائج کے بارے میں آج ماہرین وبائیات یا ایپی ڈیمالوجسٹس سے پوچھا جاتا ہے اور شماریات سے مدد لی جاتی ہے لیکن یورپ میں خیارکی طاعون کے دنوں میں ایسے سوالات کے لیے لوگ نجومیوں یاجوتشیوںسے رجوع کرتے تھے۔
آج اگرچہ علم نجوم کو بہت سے لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ماضی میں ادویات اور صحت عامہ سے اس کا گہرا تعلق رہا ہے۔
نزلے کا پتا اجرام فلکی سے چلتا تھا: جراثیم سے متعلق نظریات، سائنسی انقلاب اور روشن خیالی کی آمد سے قبل ماہرین طب اپنے روزمرہ پیشہ ورانہ امور میں علم نجوم سے مدد لیتے تھے۔
آج ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، لیکن ماضی میں علم نجوم کے پیچیدہ زائچوں اور حساب کتاب سے پتا چلایا جاتا تھا۔ یورپ بھر میں صحت کے معاملے پر نجومیوں کی باتوں پر یقین کیا جاتا تھا اور وہ بہترین یونیورسٹیوں میں بطور استاد خدمات انجام دیتے تھے۔
نجومی ماہرین طب کو مرض کی ابتدا اور روش کی وضاحت کرتے تھے۔ اجرام فلکی کی حرکت اور ان کے ایک دوسرے سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات پر ان کا یقین تھا۔ مرض کی شروعات، شدت اور عرصے کا احوال جاننے کے لیے نجومیوں کے زائچے ماہرین طب کے رہنما ہوا کرتے تھے۔
علم نجوم نے طب کی تاریخ پر کتنا اثر ڈالا ہے، اس پر بہت تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ نزلے کے لیے انگریزی اصطلاح ''انفلوئنز‘‘ ہی کو دیکھ لیجیے، یہ اس خیال کے ساتھ وجود میں آئی کہ نظام تنفس کی یہ بیماری ستاروں کے اثر (انفلوئنس آف سٹارز) کی پیداوار ہے۔
وبا اور صحت عامہ کی پیش گوئی نجومی کرتے تھے: انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی صحت پر نجومیوں کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ صحت عامہ کے مشورے سالانہ جنتریوں میں دیے جاتے تھے، جو دورِجدید سے قبل سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر ہوا کرتی تھیں۔
جنتریوں میں قارئین کو نقشوں کی مدد سے آئندہ برسوں کے واقعات کے علاوہ کاشت کاری، سیاسی تبدیلی اور موسم کے بارے میں جان کاریاں اور مشورے دیے جاتے۔
علم طب کے لیے بھی یہ تحریریں اہمیت رکھتی تھیں۔ ان میں طب کے بنیادی اصول اور تریاق بتائے جاتے تھے۔ آئندہ وباؤں کی پیش گوئی بھی کی جاتی۔
ان پیش گوئیوں کا انحصار عموماً علم نجوم کے نظریہ اتصال پر ہوتا تھا۔ اس نظریے کے مطابق آسمانوں میں سیاروں کی مخصوص حرکت و ترتیب سے کرۂ ارض پر عظیم سماجی، ثقافتی اور دیگر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
۔1348ء میں جب فرانس خیارکی طاعون کی لپیٹ میں آیا تو بادشاہ نے یونیورسٹی آف پیرس کے ماہرین طب سے اس کا سبب پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ طاعون زحل، مریخ اور مشتری کے مخصوص اتصال و ترتیب کے باعث آیا ہے۔
علم نجوم کو سائنس کا تڑکالگایا گیا: سترہویں صدی تک طاعون پر نجومیوں کی وضاحتیں بہت مقبول رہیں۔ لیکن اسی دور میں علم نجوم کو رد کرنے کی کوششیں بڑھنے لگیں۔ اس لیے نجومی اپنے علم میں سائنس کو جگہ دینے لگے۔
وباؤں سے متعلق علم نجوم کو زیادہ سائنسی بنانے کی اولین کاوشوں میں سے ایک انگریز ماہرنجوم جان گیڈبری کی تھی۔ اپنی کتاب ''لندن ڈیلیورنس پریڈکٹڈ‘‘ (1655ء) میں اس نے مانا کہ اس کے ہم عصر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ طاعون کب آئے گا یا کتنا عرصہ رہے گا۔
گیڈبری نے کہا کہ اگر سیارے طاعون کا باعث ہیں تو اس کا خاتمہ بھی انہوں ہی نے کرنا ہے۔ اس لیے اجرام فلکی کے واقعات سے وبا کی روش کے بارے میں پیش گوئی کی جانی چاہیے۔
اس نے ماضی میں لندن میں آنے والی طاعون کی چار بڑی وباؤں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ یہ 1593ء، 1603ء، 1625ء اور 1636ء میں آئی تھیں، اس نے اموات کے اعدادوشمار جو ''بل آف مورٹیلٹی‘‘ کے عنوان سے جاری ہوتے تھے، سے طاعون کی ہفتہ وار شرح اموات کا جائزہ لیا اور وبا کے اتار چڑھاؤ کا ایک جدول تیار کیا۔ اس نے وبا کے دوران سیاروں کے مقام کا جائزہ لیا اور اس کا وبا سے تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔
گیڈبری کو طاعون کی شدت اور مریخ اور زہرہ کی پوزیشن میں تعلق نظر آیا۔ طاعون سے اموات جولائی 1593ء میں بہت بڑھ گئیں، اس وقت علم نجوم کے لحاظ سے مریخ ایک اہم مقام پر تھا۔
اس کے بعد ستمبر میں اموات کم ہوئیں جب زہرہ کی پوزیشن زیادہ نمایاں ہو گئی۔ گیڈبری نے نتیجہ نکالا کہ روشن سیارے مریخ کی حرکت خیارکی طاعون کی ابتدا اور پھیلاؤ کی وجہ بنی جبکہ زہرہ کے اثر نے اسے کم کیا۔ گیڈبری نے اس کے بعد ان نتائج کو لندن میں طاعون پر لاگو کیا۔ اس نے 1664ء کے اواخر میں طاعون کے شروع ہونے اور جون 1665ء میں شدت اختیار کرنے کی پیش گوئی اجرام فلکی کی حرکات کی بنیاد پر کی۔
اس نے اگست میں زہرہ کی آئندہ حرکت اور طاعون کی شدت میں کمی کی پیش گوئی کی۔ اس کے بعد ستمبر میں مریخ کی حرکت کے باعث طاعون نے زیادہ مہلک ہونا تھا لیکن اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں زہرہ کی حرکت نے شرح اموات کو کم کرنا تھا۔
وبا کے اتار چڑھاؤ پر نجومی نے تحقیق کی: اس کی بدقسمتی کہ اگست میں طاعون سے اموات میں اضافہ ہو گیا۔ البتہ ستمبر میں شدت اور سال کے آخر میں تیزی سے کمی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اگر گیڈبری نے دیگر عوامل، جیسا کہ سرما کی آمد کو بھی مدنظر رکھا ہوتا تو اس کی تحقیق کو غالباً زیادہ سراہا جاتا۔ گیڈبری نے اپنی کتاب میں جو طبی مشورے دیے آج کے زمانے میں انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے کہا کہ طاعون متعدی نہیں اور گھر میں خودساختہ علیحدگی (آئسولیشن) موت کا امکان بڑھاتی ہے۔ تاہم اموات کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے اسباب تلاش کرنے کی جو کوشش اس نے کی آج ہم اسے علم وبائیات کا نام دیتے ہیں۔
آج اگرچہ علم نجوم پر مبنی گیڈبری کے مفروضوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن ایسی مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ طب کی تاریخ میں قوانین فطرت کی بنیاد پر متعدی امراض کی وضاحت میں علم نجوم نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
(ماخذ: ''دی کنورسیشن‘‘)
نوٹ
دین اسلام کا اس بد اعتقادی سے کوئی تعلق نہیں ، غیر مسلموں کے عقائد کے بارے میں آپ کو معلومات دی جا رہی ہیں

 

@intelligent086
😂😂😂😂😂
اگر مجھے نوٹ نظر نا آتا تو یہ فتویٰ تیار ،معلومات میں اضافے کے لئیے حاضر خدمت ہے

علم نجوم یا ستارہ شناسی کوئی باقاعدہ علم نہیں ہے۔ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہے۔ علمِ نجوم کے ایسے کوئی اصول و قوانین نہیں کہ جن کے استعمال اور ستاروں براہ راست مشاہدے سے آئندہ ہونے والے واقعات کی یقینی خبر دی جاسکے۔

قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں مستقبل کی خبریں دینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی و کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ ’گرتے کو تنکے کا سہارا‘ کے مصداق پریشان حال لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پراُمید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا:

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَيْبَ اِلاَّ اﷲُط

’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے‘‘

النمل، 27 : 65

احادیث مبارکہ میں بھی علم نجوم کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے:

أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اﷲِ عَنِ الْکُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اﷲِلَيْسُوا بِشَيْئٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْئِ يَکُونُ حَقًّا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ تِلْکَ الْکَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَهِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَکْثَرَ مِنْ مِائَهِ کَذْبَةٍ.

’’حضرت یحییٰ بن عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بعض لوگوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ایسی بات بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہے۔ تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ درست بات جنات کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے دل میں ڈالتے ہیں۔ جیسے ایک مرغ دوسرے مرغ کے کان میں آواز پہنچا دیتا ہے اور پھر کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیا کرتا ہے۔ ‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2294، رقم: 5859، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 4: 1750، رقم: 2228، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّی لَنَا رَسُولُ اﷲِ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوا: اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِهِ فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.

’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر بارش والی رات کو ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی۔ وہ میرا منکر اور ستاروں پر یقین رکھنے والا ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 351، رقم: 991
  2. مسلم، الصحيح، 1: 83، رقم: 71
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ أُمُورًا کُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَةِ کُنَّا نَأْتِي الْکُهَانَ قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْکُهَانَ قَالَ، قُلْتُ: کُنَّا نَتَطَيَرُ قَالَ: ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُهُ أَحَدُکُمْ فِي نَفْسِهِ فَلَا يَصُدَّنَّکُمْ.

’’حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم زمانہ جاہلیت میں کچھ کام کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جاؤ، میں نے عرض کیا ہم بدشگونی لیتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (یعنی بدشگونی) محض تمہارے دل کا ایک خیال ہے تم اس کے در پے نہ ہو۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1748، رقم: 537
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 447، رقم: 23814، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. عبد الرزاق، المصنف، 10: 402، رقم: 19500، بيروت: المکتب الاسلامي
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.

’’حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کاہن کے پاس جاکر کوئی بات پوچھی اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1751، رقم: 2230
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 380، رقم: 23270
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور سوچ دی ہے۔ اسے ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ نجومیوں، جادوگروں، عاملوں، طوطے والوں اور کاہنوں کی خبروں پر یقین رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ قدرت پر یقین کامل ہو تو پھر اس قسم کی توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

جب ستارہ شناسی باقاعدہ علم ہی نہیں اور آیات و روایات میں بھی اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو اس کا سیکھنا ایمان اور وسائل ضائع کرنے کے مترادف ہے۔



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 
@intelligent086
😂😂😂😂😂
اگر مجھے نوٹ نظر نا آتا تو یہ فتویٰ تیار ،معلومات میں اضافے کے لئیے حاضر خدمت ہے

علم نجوم یا ستارہ شناسی کوئی باقاعدہ علم نہیں ہے۔ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہے۔ علمِ نجوم کے ایسے کوئی اصول و قوانین نہیں کہ جن کے استعمال اور ستاروں براہ راست مشاہدے سے آئندہ ہونے والے واقعات کی یقینی خبر دی جاسکے۔

قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں مستقبل کی خبریں دینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی و کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ ’گرتے کو تنکے کا سہارا‘ کے مصداق پریشان حال لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پراُمید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا:

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَيْبَ اِلاَّ اﷲُط

’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے‘‘

النمل، 27 : 65

احادیث مبارکہ میں بھی علم نجوم کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے:

أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اﷲِ عَنِ الْکُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اﷲِلَيْسُوا بِشَيْئٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْئِ يَکُونُ حَقًّا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ تِلْکَ الْکَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَهِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَکْثَرَ مِنْ مِائَهِ کَذْبَةٍ.

’’حضرت یحییٰ بن عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بعض لوگوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ایسی بات بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہے۔ تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ درست بات جنات کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے دل میں ڈالتے ہیں۔ جیسے ایک مرغ دوسرے مرغ کے کان میں آواز پہنچا دیتا ہے اور پھر کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیا کرتا ہے۔ ‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2294، رقم: 5859، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 4: 1750، رقم: 2228، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّی لَنَا رَسُولُ اﷲِ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوا: اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِهِ فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.

’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر بارش والی رات کو ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی۔ وہ میرا منکر اور ستاروں پر یقین رکھنے والا ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 351، رقم: 991
  2. مسلم، الصحيح، 1: 83، رقم: 71
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ أُمُورًا کُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَةِ کُنَّا نَأْتِي الْکُهَانَ قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْکُهَانَ قَالَ، قُلْتُ: کُنَّا نَتَطَيَرُ قَالَ: ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُهُ أَحَدُکُمْ فِي نَفْسِهِ فَلَا يَصُدَّنَّکُمْ.

’’حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم زمانہ جاہلیت میں کچھ کام کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جاؤ، میں نے عرض کیا ہم بدشگونی لیتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (یعنی بدشگونی) محض تمہارے دل کا ایک خیال ہے تم اس کے در پے نہ ہو۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1748، رقم: 537
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 447، رقم: 23814، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. عبد الرزاق، المصنف، 10: 402، رقم: 19500، بيروت: المکتب الاسلامي
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.

’’حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کاہن کے پاس جاکر کوئی بات پوچھی اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1751، رقم: 2230
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 380، رقم: 23270
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور سوچ دی ہے۔ اسے ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ نجومیوں، جادوگروں، عاملوں، طوطے والوں اور کاہنوں کی خبروں پر یقین رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ قدرت پر یقین کامل ہو تو پھر اس قسم کی توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

جب ستارہ شناسی باقاعدہ علم ہی نہیں اور آیات و روایات میں بھی اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو اس کا سیکھنا ایمان اور وسائل ضائع کرنے کے مترادف ہے۔



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ماشاءاللہ
بہت عمدہ
 
علمِ نجوم سے وبا کا انوکھا رشتہ ۔۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا

View attachment 53179
کووڈ 19 نے دنیا کو جب سے لپیٹ میں لیا ہے، عہدوسطیٰ میں آنے والی خطرناک وبا خیارکی طاعون سے اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ طاعون کی وبا کے دوران جعلی خبروں اور جھوٹی معلومات کا بازار گرم رہا۔ حالیہ وبا میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ طاعون کے دنوں میں یہ سوال پوری شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ یہ کب ختم ہو گا اور آج کووڈ 19 کے اختتام بارے جاننے کے لیے لوگ بے تاب ہیں۔
ان مماثلتوں کے باوجود ایک فرق بہت واضح ہے۔ وبائی مرض کے پھیلاؤ اور نتائج کے بارے میں آج ماہرین وبائیات یا ایپی ڈیمالوجسٹس سے پوچھا جاتا ہے اور شماریات سے مدد لی جاتی ہے لیکن یورپ میں خیارکی طاعون کے دنوں میں ایسے سوالات کے لیے لوگ نجومیوں یاجوتشیوںسے رجوع کرتے تھے۔
آج اگرچہ علم نجوم کو بہت سے لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ماضی میں ادویات اور صحت عامہ سے اس کا گہرا تعلق رہا ہے۔
نزلے کا پتا اجرام فلکی سے چلتا تھا: جراثیم سے متعلق نظریات، سائنسی انقلاب اور روشن خیالی کی آمد سے قبل ماہرین طب اپنے روزمرہ پیشہ ورانہ امور میں علم نجوم سے مدد لیتے تھے۔
آج ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، لیکن ماضی میں علم نجوم کے پیچیدہ زائچوں اور حساب کتاب سے پتا چلایا جاتا تھا۔ یورپ بھر میں صحت کے معاملے پر نجومیوں کی باتوں پر یقین کیا جاتا تھا اور وہ بہترین یونیورسٹیوں میں بطور استاد خدمات انجام دیتے تھے۔
نجومی ماہرین طب کو مرض کی ابتدا اور روش کی وضاحت کرتے تھے۔ اجرام فلکی کی حرکت اور ان کے ایک دوسرے سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات پر ان کا یقین تھا۔ مرض کی شروعات، شدت اور عرصے کا احوال جاننے کے لیے نجومیوں کے زائچے ماہرین طب کے رہنما ہوا کرتے تھے۔
علم نجوم نے طب کی تاریخ پر کتنا اثر ڈالا ہے، اس پر بہت تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ نزلے کے لیے انگریزی اصطلاح ''انفلوئنز‘‘ ہی کو دیکھ لیجیے، یہ اس خیال کے ساتھ وجود میں آئی کہ نظام تنفس کی یہ بیماری ستاروں کے اثر (انفلوئنس آف سٹارز) کی پیداوار ہے۔
وبا اور صحت عامہ کی پیش گوئی نجومی کرتے تھے: انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی صحت پر نجومیوں کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ صحت عامہ کے مشورے سالانہ جنتریوں میں دیے جاتے تھے، جو دورِجدید سے قبل سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر ہوا کرتی تھیں۔
جنتریوں میں قارئین کو نقشوں کی مدد سے آئندہ برسوں کے واقعات کے علاوہ کاشت کاری، سیاسی تبدیلی اور موسم کے بارے میں جان کاریاں اور مشورے دیے جاتے۔
علم طب کے لیے بھی یہ تحریریں اہمیت رکھتی تھیں۔ ان میں طب کے بنیادی اصول اور تریاق بتائے جاتے تھے۔ آئندہ وباؤں کی پیش گوئی بھی کی جاتی۔
ان پیش گوئیوں کا انحصار عموماً علم نجوم کے نظریہ اتصال پر ہوتا تھا۔ اس نظریے کے مطابق آسمانوں میں سیاروں کی مخصوص حرکت و ترتیب سے کرۂ ارض پر عظیم سماجی، ثقافتی اور دیگر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
۔1348ء میں جب فرانس خیارکی طاعون کی لپیٹ میں آیا تو بادشاہ نے یونیورسٹی آف پیرس کے ماہرین طب سے اس کا سبب پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ طاعون زحل، مریخ اور مشتری کے مخصوص اتصال و ترتیب کے باعث آیا ہے۔
علم نجوم کو سائنس کا تڑکالگایا گیا: سترہویں صدی تک طاعون پر نجومیوں کی وضاحتیں بہت مقبول رہیں۔ لیکن اسی دور میں علم نجوم کو رد کرنے کی کوششیں بڑھنے لگیں۔ اس لیے نجومی اپنے علم میں سائنس کو جگہ دینے لگے۔
وباؤں سے متعلق علم نجوم کو زیادہ سائنسی بنانے کی اولین کاوشوں میں سے ایک انگریز ماہرنجوم جان گیڈبری کی تھی۔ اپنی کتاب ''لندن ڈیلیورنس پریڈکٹڈ‘‘ (1655ء) میں اس نے مانا کہ اس کے ہم عصر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ طاعون کب آئے گا یا کتنا عرصہ رہے گا۔
گیڈبری نے کہا کہ اگر سیارے طاعون کا باعث ہیں تو اس کا خاتمہ بھی انہوں ہی نے کرنا ہے۔ اس لیے اجرام فلکی کے واقعات سے وبا کی روش کے بارے میں پیش گوئی کی جانی چاہیے۔
اس نے ماضی میں لندن میں آنے والی طاعون کی چار بڑی وباؤں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ یہ 1593ء، 1603ء، 1625ء اور 1636ء میں آئی تھیں، اس نے اموات کے اعدادوشمار جو ''بل آف مورٹیلٹی‘‘ کے عنوان سے جاری ہوتے تھے، سے طاعون کی ہفتہ وار شرح اموات کا جائزہ لیا اور وبا کے اتار چڑھاؤ کا ایک جدول تیار کیا۔ اس نے وبا کے دوران سیاروں کے مقام کا جائزہ لیا اور اس کا وبا سے تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔
گیڈبری کو طاعون کی شدت اور مریخ اور زہرہ کی پوزیشن میں تعلق نظر آیا۔ طاعون سے اموات جولائی 1593ء میں بہت بڑھ گئیں، اس وقت علم نجوم کے لحاظ سے مریخ ایک اہم مقام پر تھا۔
اس کے بعد ستمبر میں اموات کم ہوئیں جب زہرہ کی پوزیشن زیادہ نمایاں ہو گئی۔ گیڈبری نے نتیجہ نکالا کہ روشن سیارے مریخ کی حرکت خیارکی طاعون کی ابتدا اور پھیلاؤ کی وجہ بنی جبکہ زہرہ کے اثر نے اسے کم کیا۔ گیڈبری نے اس کے بعد ان نتائج کو لندن میں طاعون پر لاگو کیا۔ اس نے 1664ء کے اواخر میں طاعون کے شروع ہونے اور جون 1665ء میں شدت اختیار کرنے کی پیش گوئی اجرام فلکی کی حرکات کی بنیاد پر کی۔
اس نے اگست میں زہرہ کی آئندہ حرکت اور طاعون کی شدت میں کمی کی پیش گوئی کی۔ اس کے بعد ستمبر میں مریخ کی حرکت کے باعث طاعون نے زیادہ مہلک ہونا تھا لیکن اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں زہرہ کی حرکت نے شرح اموات کو کم کرنا تھا۔
وبا کے اتار چڑھاؤ پر نجومی نے تحقیق کی: اس کی بدقسمتی کہ اگست میں طاعون سے اموات میں اضافہ ہو گیا۔ البتہ ستمبر میں شدت اور سال کے آخر میں تیزی سے کمی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اگر گیڈبری نے دیگر عوامل، جیسا کہ سرما کی آمد کو بھی مدنظر رکھا ہوتا تو اس کی تحقیق کو غالباً زیادہ سراہا جاتا۔ گیڈبری نے اپنی کتاب میں جو طبی مشورے دیے آج کے زمانے میں انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے کہا کہ طاعون متعدی نہیں اور گھر میں خودساختہ علیحدگی (آئسولیشن) موت کا امکان بڑھاتی ہے۔ تاہم اموات کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے اسباب تلاش کرنے کی جو کوشش اس نے کی آج ہم اسے علم وبائیات کا نام دیتے ہیں۔
آج اگرچہ علم نجوم پر مبنی گیڈبری کے مفروضوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن ایسی مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ طب کی تاریخ میں قوانین فطرت کی بنیاد پر متعدی امراض کی وضاحت میں علم نجوم نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
(ماخذ: ''دی کنورسیشن‘‘)
نوٹ
دین اسلام کا اس بد اعتقادی سے کوئی تعلق نہیں ، غیر مسلموں کے عقائد کے بارے میں آپ کو معلومات دی جا رہی ہیں

جواب تو بٹیا نے دے دیا ہے
 
@intelligent086
😂😂😂😂😂
اگر مجھے نوٹ نظر نا آتا تو یہ فتویٰ تیار ،معلومات میں اضافے کے لئیے حاضر خدمت ہے

علم نجوم یا ستارہ شناسی کوئی باقاعدہ علم نہیں ہے۔ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہے۔ علمِ نجوم کے ایسے کوئی اصول و قوانین نہیں کہ جن کے استعمال اور ستاروں براہ راست مشاہدے سے آئندہ ہونے والے واقعات کی یقینی خبر دی جاسکے۔

قدیم زمانے سے نجومی، رمال، جفار، جادوگر، طوطے والا، کاہن، نام نہاد درویش اور جنوں والے ہر دور میں مستقبل کی خبریں دینے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری، بے روزگاری، معلومات شادی و کاروبار وغیرہ کے سلسلہ میں پریشان رہتے ہیں۔ ’گرتے کو تنکے کا سہارا‘ کے مصداق پریشان حال لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں۔ جو ان سے نذرانے وصول کر کے الٹے سیدھے جواب دیتے ہیں اور پراُمید رکھتے ہیں۔ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کو ان چالاک شعبدہ بازوں سے بچانے کے لئے قرآن کریم میں فرمایا:

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَيْبَ اِلاَّ اﷲُط

’’فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے‘‘

النمل، 27 : 65

احادیث مبارکہ میں بھی علم نجوم کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے:

أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اﷲِ عَنِ الْکُهَّانِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اﷲِلَيْسُوا بِشَيْئٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَانًا بِالشَّيْئِ يَکُونُ حَقًّا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ تِلْکَ الْکَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَهِ فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَکْثَرَ مِنْ مِائَهِ کَذْبَةٍ.

’’حضرت یحییٰ بن عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بعض لوگوں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: وہ کوئی چیز نہیں ہیں۔ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! بعض اوقات وہ ایسی بات بتاتے ہیں جو درست ثابت ہو جاتی ہے۔ تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ درست بات جنات کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ کاہن کے دل میں ڈالتے ہیں۔ جیسے ایک مرغ دوسرے مرغ کے کان میں آواز پہنچا دیتا ہے اور پھر کاہن اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملا لیا کرتا ہے۔ ‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 5: 2294، رقم: 5859، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، 4: 1750، رقم: 2228، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّی لَنَا رَسُولُ اﷲِ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَی إِثْرِ سَمَاءٍ کَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوا: اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَکَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِهِ فَذٰلِکَ مُؤْمِنٌ بِي کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْئِ کَذَا وَکَذَا فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْکَوْکَبِ.

’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر بارش والی رات کو ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا کہ میرے بندوں نے صبح کی تو مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کے منکر تھے اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے نے بارش برسائی۔ وہ میرا منکر اور ستاروں پر یقین رکھنے والا ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، 1: 351، رقم: 991
  2. مسلم، الصحيح، 1: 83، رقم: 71
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ أُمُورًا کُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَةِ کُنَّا نَأْتِي الْکُهَانَ قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْکُهَانَ قَالَ، قُلْتُ: کُنَّا نَتَطَيَرُ قَالَ: ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُهُ أَحَدُکُمْ فِي نَفْسِهِ فَلَا يَصُدَّنَّکُمْ.

’’حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم زمانہ جاہلیت میں کچھ کام کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کاہنوں کے پاس نہ جاؤ، میں نے عرض کیا ہم بدشگونی لیتے تھے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (یعنی بدشگونی) محض تمہارے دل کا ایک خیال ہے تم اس کے در پے نہ ہو۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1748، رقم: 537
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 447، رقم: 23814، مصر: مؤسسة قرطبة
  3. عبد الرزاق، المصنف، 10: 402، رقم: 19500، بيروت: المکتب الاسلامي
عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ: مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.

’’حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کاہن کے پاس جاکر کوئی بات پوچھی اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔‘‘

  1. مسلم، الصحيح، 4: 1751، رقم: 2230
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 380، رقم: 23270
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور سوچ دی ہے۔ اسے ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ نجومیوں، جادوگروں، عاملوں، طوطے والوں اور کاہنوں کی خبروں پر یقین رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ قدرت پر یقین کامل ہو تو پھر اس قسم کی توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

جب ستارہ شناسی باقاعدہ علم ہی نہیں اور آیات و روایات میں بھی اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تو اس کا سیکھنا ایمان اور وسائل ضائع کرنے کے مترادف ہے۔



واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ماشاءاللہ
اچھا اضافہ
اسلیئے میں نے نوٹ لکھ دیا تھا تاکہ آپ کے فتووں کی زد میں نا آؤں۔۔۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top