intelligent086
Star Pakistani
20
- Messages
- 17,578
- Reaction score
- 26,649
- Points
- 2,231
علمِ نجوم سے وبا کا انوکھا رشتہ ۔۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا
کووڈ 19 نے دنیا کو جب سے لپیٹ میں لیا ہے، عہدوسطیٰ میں آنے والی خطرناک وبا خیارکی طاعون سے اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ طاعون کی وبا کے دوران جعلی خبروں اور جھوٹی معلومات کا بازار گرم رہا۔ حالیہ وبا میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ طاعون کے دنوں میں یہ سوال پوری شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ یہ کب ختم ہو گا اور آج کووڈ 19 کے اختتام بارے جاننے کے لیے لوگ بے تاب ہیں۔
ان مماثلتوں کے باوجود ایک فرق بہت واضح ہے۔ وبائی مرض کے پھیلاؤ اور نتائج کے بارے میں آج ماہرین وبائیات یا ایپی ڈیمالوجسٹس سے پوچھا جاتا ہے اور شماریات سے مدد لی جاتی ہے لیکن یورپ میں خیارکی طاعون کے دنوں میں ایسے سوالات کے لیے لوگ نجومیوں یاجوتشیوںسے رجوع کرتے تھے۔
آج اگرچہ علم نجوم کو بہت سے لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ماضی میں ادویات اور صحت عامہ سے اس کا گہرا تعلق رہا ہے۔
نزلے کا پتا اجرام فلکی سے چلتا تھا: جراثیم سے متعلق نظریات، سائنسی انقلاب اور روشن خیالی کی آمد سے قبل ماہرین طب اپنے روزمرہ پیشہ ورانہ امور میں علم نجوم سے مدد لیتے تھے۔
آج ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، لیکن ماضی میں علم نجوم کے پیچیدہ زائچوں اور حساب کتاب سے پتا چلایا جاتا تھا۔ یورپ بھر میں صحت کے معاملے پر نجومیوں کی باتوں پر یقین کیا جاتا تھا اور وہ بہترین یونیورسٹیوں میں بطور استاد خدمات انجام دیتے تھے۔
نجومی ماہرین طب کو مرض کی ابتدا اور روش کی وضاحت کرتے تھے۔ اجرام فلکی کی حرکت اور ان کے ایک دوسرے سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات پر ان کا یقین تھا۔ مرض کی شروعات، شدت اور عرصے کا احوال جاننے کے لیے نجومیوں کے زائچے ماہرین طب کے رہنما ہوا کرتے تھے۔
علم نجوم نے طب کی تاریخ پر کتنا اثر ڈالا ہے، اس پر بہت تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ نزلے کے لیے انگریزی اصطلاح ''انفلوئنز‘‘ ہی کو دیکھ لیجیے، یہ اس خیال کے ساتھ وجود میں آئی کہ نظام تنفس کی یہ بیماری ستاروں کے اثر (انفلوئنس آف سٹارز) کی پیداوار ہے۔
وبا اور صحت عامہ کی پیش گوئی نجومی کرتے تھے: انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی صحت پر نجومیوں کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ صحت عامہ کے مشورے سالانہ جنتریوں میں دیے جاتے تھے، جو دورِجدید سے قبل سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر ہوا کرتی تھیں۔
جنتریوں میں قارئین کو نقشوں کی مدد سے آئندہ برسوں کے واقعات کے علاوہ کاشت کاری، سیاسی تبدیلی اور موسم کے بارے میں جان کاریاں اور مشورے دیے جاتے۔
علم طب کے لیے بھی یہ تحریریں اہمیت رکھتی تھیں۔ ان میں طب کے بنیادی اصول اور تریاق بتائے جاتے تھے۔ آئندہ وباؤں کی پیش گوئی بھی کی جاتی۔
ان پیش گوئیوں کا انحصار عموماً علم نجوم کے نظریہ اتصال پر ہوتا تھا۔ اس نظریے کے مطابق آسمانوں میں سیاروں کی مخصوص حرکت و ترتیب سے کرۂ ارض پر عظیم سماجی، ثقافتی اور دیگر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
۔1348ء میں جب فرانس خیارکی طاعون کی لپیٹ میں آیا تو بادشاہ نے یونیورسٹی آف پیرس کے ماہرین طب سے اس کا سبب پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ طاعون زحل، مریخ اور مشتری کے مخصوص اتصال و ترتیب کے باعث آیا ہے۔
علم نجوم کو سائنس کا تڑکالگایا گیا: سترہویں صدی تک طاعون پر نجومیوں کی وضاحتیں بہت مقبول رہیں۔ لیکن اسی دور میں علم نجوم کو رد کرنے کی کوششیں بڑھنے لگیں۔ اس لیے نجومی اپنے علم میں سائنس کو جگہ دینے لگے۔
وباؤں سے متعلق علم نجوم کو زیادہ سائنسی بنانے کی اولین کاوشوں میں سے ایک انگریز ماہرنجوم جان گیڈبری کی تھی۔ اپنی کتاب ''لندن ڈیلیورنس پریڈکٹڈ‘‘ (1655ء) میں اس نے مانا کہ اس کے ہم عصر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ طاعون کب آئے گا یا کتنا عرصہ رہے گا۔
گیڈبری نے کہا کہ اگر سیارے طاعون کا باعث ہیں تو اس کا خاتمہ بھی انہوں ہی نے کرنا ہے۔ اس لیے اجرام فلکی کے واقعات سے وبا کی روش کے بارے میں پیش گوئی کی جانی چاہیے۔
اس نے ماضی میں لندن میں آنے والی طاعون کی چار بڑی وباؤں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ یہ 1593ء، 1603ء، 1625ء اور 1636ء میں آئی تھیں، اس نے اموات کے اعدادوشمار جو ''بل آف مورٹیلٹی‘‘ کے عنوان سے جاری ہوتے تھے، سے طاعون کی ہفتہ وار شرح اموات کا جائزہ لیا اور وبا کے اتار چڑھاؤ کا ایک جدول تیار کیا۔ اس نے وبا کے دوران سیاروں کے مقام کا جائزہ لیا اور اس کا وبا سے تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔
گیڈبری کو طاعون کی شدت اور مریخ اور زہرہ کی پوزیشن میں تعلق نظر آیا۔ طاعون سے اموات جولائی 1593ء میں بہت بڑھ گئیں، اس وقت علم نجوم کے لحاظ سے مریخ ایک اہم مقام پر تھا۔
اس کے بعد ستمبر میں اموات کم ہوئیں جب زہرہ کی پوزیشن زیادہ نمایاں ہو گئی۔ گیڈبری نے نتیجہ نکالا کہ روشن سیارے مریخ کی حرکت خیارکی طاعون کی ابتدا اور پھیلاؤ کی وجہ بنی جبکہ زہرہ کے اثر نے اسے کم کیا۔ گیڈبری نے اس کے بعد ان نتائج کو لندن میں طاعون پر لاگو کیا۔ اس نے 1664ء کے اواخر میں طاعون کے شروع ہونے اور جون 1665ء میں شدت اختیار کرنے کی پیش گوئی اجرام فلکی کی حرکات کی بنیاد پر کی۔
اس نے اگست میں زہرہ کی آئندہ حرکت اور طاعون کی شدت میں کمی کی پیش گوئی کی۔ اس کے بعد ستمبر میں مریخ کی حرکت کے باعث طاعون نے زیادہ مہلک ہونا تھا لیکن اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں زہرہ کی حرکت نے شرح اموات کو کم کرنا تھا۔
وبا کے اتار چڑھاؤ پر نجومی نے تحقیق کی: اس کی بدقسمتی کہ اگست میں طاعون سے اموات میں اضافہ ہو گیا۔ البتہ ستمبر میں شدت اور سال کے آخر میں تیزی سے کمی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اگر گیڈبری نے دیگر عوامل، جیسا کہ سرما کی آمد کو بھی مدنظر رکھا ہوتا تو اس کی تحقیق کو غالباً زیادہ سراہا جاتا۔ گیڈبری نے اپنی کتاب میں جو طبی مشورے دیے آج کے زمانے میں انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے کہا کہ طاعون متعدی نہیں اور گھر میں خودساختہ علیحدگی (آئسولیشن) موت کا امکان بڑھاتی ہے۔ تاہم اموات کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے اسباب تلاش کرنے کی جو کوشش اس نے کی آج ہم اسے علم وبائیات کا نام دیتے ہیں۔
آج اگرچہ علم نجوم پر مبنی گیڈبری کے مفروضوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن ایسی مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ طب کی تاریخ میں قوانین فطرت کی بنیاد پر متعدی امراض کی وضاحت میں علم نجوم نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
(ماخذ: ''دی کنورسیشن‘‘)
نوٹ
دین اسلام کا اس بد اعتقادی سے کوئی تعلق نہیں ، غیر مسلموں کے عقائد کے بارے میں آپ کو معلومات دی جا رہی ہیں
کووڈ 19 نے دنیا کو جب سے لپیٹ میں لیا ہے، عہدوسطیٰ میں آنے والی خطرناک وبا خیارکی طاعون سے اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ طاعون کی وبا کے دوران جعلی خبروں اور جھوٹی معلومات کا بازار گرم رہا۔ حالیہ وبا میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ طاعون کے دنوں میں یہ سوال پوری شدومد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ یہ کب ختم ہو گا اور آج کووڈ 19 کے اختتام بارے جاننے کے لیے لوگ بے تاب ہیں۔
ان مماثلتوں کے باوجود ایک فرق بہت واضح ہے۔ وبائی مرض کے پھیلاؤ اور نتائج کے بارے میں آج ماہرین وبائیات یا ایپی ڈیمالوجسٹس سے پوچھا جاتا ہے اور شماریات سے مدد لی جاتی ہے لیکن یورپ میں خیارکی طاعون کے دنوں میں ایسے سوالات کے لیے لوگ نجومیوں یاجوتشیوںسے رجوع کرتے تھے۔
آج اگرچہ علم نجوم کو بہت سے لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ماضی میں ادویات اور صحت عامہ سے اس کا گہرا تعلق رہا ہے۔
نزلے کا پتا اجرام فلکی سے چلتا تھا: جراثیم سے متعلق نظریات، سائنسی انقلاب اور روشن خیالی کی آمد سے قبل ماہرین طب اپنے روزمرہ پیشہ ورانہ امور میں علم نجوم سے مدد لیتے تھے۔
آج ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، لیکن ماضی میں علم نجوم کے پیچیدہ زائچوں اور حساب کتاب سے پتا چلایا جاتا تھا۔ یورپ بھر میں صحت کے معاملے پر نجومیوں کی باتوں پر یقین کیا جاتا تھا اور وہ بہترین یونیورسٹیوں میں بطور استاد خدمات انجام دیتے تھے۔
نجومی ماہرین طب کو مرض کی ابتدا اور روش کی وضاحت کرتے تھے۔ اجرام فلکی کی حرکت اور ان کے ایک دوسرے سے تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات پر ان کا یقین تھا۔ مرض کی شروعات، شدت اور عرصے کا احوال جاننے کے لیے نجومیوں کے زائچے ماہرین طب کے رہنما ہوا کرتے تھے۔
علم نجوم نے طب کی تاریخ پر کتنا اثر ڈالا ہے، اس پر بہت تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ نزلے کے لیے انگریزی اصطلاح ''انفلوئنز‘‘ ہی کو دیکھ لیجیے، یہ اس خیال کے ساتھ وجود میں آئی کہ نظام تنفس کی یہ بیماری ستاروں کے اثر (انفلوئنس آف سٹارز) کی پیداوار ہے۔
وبا اور صحت عامہ کی پیش گوئی نجومی کرتے تھے: انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی صحت پر نجومیوں کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ صحت عامہ کے مشورے سالانہ جنتریوں میں دیے جاتے تھے، جو دورِجدید سے قبل سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر ہوا کرتی تھیں۔
جنتریوں میں قارئین کو نقشوں کی مدد سے آئندہ برسوں کے واقعات کے علاوہ کاشت کاری، سیاسی تبدیلی اور موسم کے بارے میں جان کاریاں اور مشورے دیے جاتے۔
علم طب کے لیے بھی یہ تحریریں اہمیت رکھتی تھیں۔ ان میں طب کے بنیادی اصول اور تریاق بتائے جاتے تھے۔ آئندہ وباؤں کی پیش گوئی بھی کی جاتی۔
ان پیش گوئیوں کا انحصار عموماً علم نجوم کے نظریہ اتصال پر ہوتا تھا۔ اس نظریے کے مطابق آسمانوں میں سیاروں کی مخصوص حرکت و ترتیب سے کرۂ ارض پر عظیم سماجی، ثقافتی اور دیگر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
۔1348ء میں جب فرانس خیارکی طاعون کی لپیٹ میں آیا تو بادشاہ نے یونیورسٹی آف پیرس کے ماہرین طب سے اس کا سبب پوچھا۔ ان کا جواب تھا کہ طاعون زحل، مریخ اور مشتری کے مخصوص اتصال و ترتیب کے باعث آیا ہے۔
علم نجوم کو سائنس کا تڑکالگایا گیا: سترہویں صدی تک طاعون پر نجومیوں کی وضاحتیں بہت مقبول رہیں۔ لیکن اسی دور میں علم نجوم کو رد کرنے کی کوششیں بڑھنے لگیں۔ اس لیے نجومی اپنے علم میں سائنس کو جگہ دینے لگے۔
وباؤں سے متعلق علم نجوم کو زیادہ سائنسی بنانے کی اولین کاوشوں میں سے ایک انگریز ماہرنجوم جان گیڈبری کی تھی۔ اپنی کتاب ''لندن ڈیلیورنس پریڈکٹڈ‘‘ (1655ء) میں اس نے مانا کہ اس کے ہم عصر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ طاعون کب آئے گا یا کتنا عرصہ رہے گا۔
گیڈبری نے کہا کہ اگر سیارے طاعون کا باعث ہیں تو اس کا خاتمہ بھی انہوں ہی نے کرنا ہے۔ اس لیے اجرام فلکی کے واقعات سے وبا کی روش کے بارے میں پیش گوئی کی جانی چاہیے۔
اس نے ماضی میں لندن میں آنے والی طاعون کی چار بڑی وباؤں کے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ یہ 1593ء، 1603ء، 1625ء اور 1636ء میں آئی تھیں، اس نے اموات کے اعدادوشمار جو ''بل آف مورٹیلٹی‘‘ کے عنوان سے جاری ہوتے تھے، سے طاعون کی ہفتہ وار شرح اموات کا جائزہ لیا اور وبا کے اتار چڑھاؤ کا ایک جدول تیار کیا۔ اس نے وبا کے دوران سیاروں کے مقام کا جائزہ لیا اور اس کا وبا سے تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔
گیڈبری کو طاعون کی شدت اور مریخ اور زہرہ کی پوزیشن میں تعلق نظر آیا۔ طاعون سے اموات جولائی 1593ء میں بہت بڑھ گئیں، اس وقت علم نجوم کے لحاظ سے مریخ ایک اہم مقام پر تھا۔
اس کے بعد ستمبر میں اموات کم ہوئیں جب زہرہ کی پوزیشن زیادہ نمایاں ہو گئی۔ گیڈبری نے نتیجہ نکالا کہ روشن سیارے مریخ کی حرکت خیارکی طاعون کی ابتدا اور پھیلاؤ کی وجہ بنی جبکہ زہرہ کے اثر نے اسے کم کیا۔ گیڈبری نے اس کے بعد ان نتائج کو لندن میں طاعون پر لاگو کیا۔ اس نے 1664ء کے اواخر میں طاعون کے شروع ہونے اور جون 1665ء میں شدت اختیار کرنے کی پیش گوئی اجرام فلکی کی حرکات کی بنیاد پر کی۔
اس نے اگست میں زہرہ کی آئندہ حرکت اور طاعون کی شدت میں کمی کی پیش گوئی کی۔ اس کے بعد ستمبر میں مریخ کی حرکت کے باعث طاعون نے زیادہ مہلک ہونا تھا لیکن اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں زہرہ کی حرکت نے شرح اموات کو کم کرنا تھا۔
وبا کے اتار چڑھاؤ پر نجومی نے تحقیق کی: اس کی بدقسمتی کہ اگست میں طاعون سے اموات میں اضافہ ہو گیا۔ البتہ ستمبر میں شدت اور سال کے آخر میں تیزی سے کمی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ اگر گیڈبری نے دیگر عوامل، جیسا کہ سرما کی آمد کو بھی مدنظر رکھا ہوتا تو اس کی تحقیق کو غالباً زیادہ سراہا جاتا۔ گیڈبری نے اپنی کتاب میں جو طبی مشورے دیے آج کے زمانے میں انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے کہا کہ طاعون متعدی نہیں اور گھر میں خودساختہ علیحدگی (آئسولیشن) موت کا امکان بڑھاتی ہے۔ تاہم اموات کی شرح میں اتار چڑھاؤ کے اسباب تلاش کرنے کی جو کوشش اس نے کی آج ہم اسے علم وبائیات کا نام دیتے ہیں۔
آج اگرچہ علم نجوم پر مبنی گیڈبری کے مفروضوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن ایسی مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ طب کی تاریخ میں قوانین فطرت کی بنیاد پر متعدی امراض کی وضاحت میں علم نجوم نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
(ماخذ: ''دی کنورسیشن‘‘)
نوٹ
دین اسلام کا اس بد اعتقادی سے کوئی تعلق نہیں ، غیر مسلموں کے عقائد کے بارے میں آپ کو معلومات دی جا رہی ہیں