Imaan, Ittehad, Tanzeem. Talat Shabbir column

پاکستان کا ریاستی علامتی نشان بہت جاذبِ نظر ہے اور اس پر تین بہت خوبصورت الفاظ :"ایمان، اتحاد، تنظیم" کندہ ہیں۔ یہ تین لفظی ماٹو یا نصب العین بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی قوم کو وقتا فوقتا دی گئی تعلیمات کا خلاصہ یا لب لبا ب ہے۔ جب بھی قائد اعظمؒ نے تقاریر کے دوران ان تین الفاظ پر زور دیا تو اُنہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ اگر قوم صیح معنوں میں ان تین لفظوں پر مشتمل نصب العین کواپنائے اور اس کو قومی کردار میں ڈھا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اقوام ِ عالم میں باوقار انداز میں کھڑی نہ ہو۔ اگر حقیقت پسندانہ نظر سے "ایمان، اتحاد، تنظیم " کے ہماری قومی زندگی پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان تین اہداف کو حاصل کرنے میں نا صرف ناکام ہوئے ہیں، بلکہ مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نہیں کہ ہم ان کے حصول کی جانب یکسو ہو سکیں۔
"ایمان، اتحاد، تنظیم" کا ماٹو یا نصب العین ایک نہایت ہی جامع منشورہے اور ہمارے قائدؒ کی دُور اندیشی، فکر اور تدبر کا عکاس ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے 28دسمبر 1947ء کو اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ ہم " ایمان، اتحاد، تنظیم" کو اپنی زندگیوں کا مقصد بنا لیں تو ہم دنیا کی کسی بھی بڑی اور طاقت ور قوم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان الفاظ کو اپنے23 مارچ1947ء کے خطاب اور گیارہ ستمبر1948ء کواپنی وفات سے قبل بھی کچھ طالب علموں کیلئے جاری کئے گئے پیغام میں دُہرایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ نئی قائم ہونے والی ریاست کی بنیاد کون سے زریں اُصولوں پر رکھنا چاہتے تھے؟ اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ یہ پیغام با ر با ر کیوں دُہراتے رہے۔
ایمان سے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی کیا مراد تھی؟ قائد اعظمؒ نے ایک سے زائد مرتبہ اپنی تقریروں میں ایمان کی طاقت پر زور دیا۔ اُن کے فرمودات کی روشنی میں ایمان (faith) کے دوزاویے سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ مسلمان کا اللہ پر ایمان ِکامل ہوناانتہائی ضروری ہے۔ قائد اعظمؒ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی وجہ اُن کا اللہ پر کامل یقین تھا۔ یہ یقین ِکامل تھا، جس کی وجہ سے مسلمانوں نے دُنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قائد اعظمؒ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی شاندار روایات اور قابل ِ فخر ماضی اُن کے کامل ایمان کی بدولت تھا اور اسی وجہ مسلمانوں نے اپنے علم و حرب کی طاقت سے دُنیا بھر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور جب اُن کی قوت ِ ایمانی کمزور پڑی، اُن کے کردار پر سوالیہ نشان اُٹھنے لگے اور وہ اپنی شاندار روایات اور علم ودانش سے کنارہ کش ہوئے تو وہ اقوام کی صف میں پیچھے چلے گئے۔ ایمان کا دوسرا پہلو قائد اعظم ؒکا اپنی قوم کے ہر فرد پریقین تھا۔ وہ سمجھتے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ اُنہیں اپنی قوم مکمل بھروسہ ہے اور اُن کی قوم بلاشبہ ایسی صلاحیتوں کی مالک ہے، جس کی بدولت وہ اقوامِ عالم میں شاندارمقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ قائد اعظمؒ نے جس دوسرے اُصول پر زور دیا وہ اتحاد ہے۔ قوم کے اتحاد کی زندہ مثال پاکستان کا قیام تھا۔ پوری قوم اپنے قائدؒ کے ساتھ، جس اعتماد اور بھروسے کے ساتھ متحد کھڑ ی ہو ئی، اُس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
تحریک ِآزادی کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ تمام قوم قائد اعظمؒ کی رہنمائی میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی۔ جدوجہد آزادی میں قائداعظم کی شخصیت کا خاصا یہ تھا کہ مسلمان قوم اُ ن کی قیادت میں متحد ہوئی اور ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے کو شاں ہو گئی۔ آپ ؒنے جدوجہد کیلئے قوم کو متحد کیا اور اُن کے سامنے جدوجہد کے مقاصد رکھے، یہ اور بات ہے کہ آپ کو پاکستان کی جدوجہد کے دوران مخالفین کی تنقید کا سامناکرنا پڑا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آپ ؒکا فہم و ادراک، سو صد فیصد درست تھا۔ نصب العین کا تیسرا نکتہ نظم و ضبط ہے۔ قائد اعظم نظم و تنظیم کو کسی بھی قوم کی کامیابی میں اہم عنصر سمجھتے تھے اور انہوں نے روز مرہ کے معاملات میں نظم وضبط کی کئی روشن مثالیں بھی چھوڑی ہیں، اگر قائد اعظمؒ کی سیاسی جدوجہد کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اُن کی ساری زندگی "ایمان، اتحاد اورتنظیم" جیسے اُصولوں سے عبارت تھی اوروہ مسلسل انہی اُصولوں پر کاربند رہے۔ قائد اعظمؒ کا شمار پچھلی صدی کی عظیم سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے اور بلا شبہ برصغیر میں اُن کے پائے کا رہنما نہیں تھا۔ اُن کو جو صفت دوسرے رہنماؤں میں ممتاز کرتی تھی، وہ اُن کا کردار تھا اور" ایمان، اتحاد اورتنظیم "اُن کے کردار کے پرتو تھے۔
موجودہ حالات میں قائد اعظمؒ کے دئیے گئے اُصولوں کی بات کرنا، اس لئے بھی ضروری ہے کہ شاید ہمیں اُن سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ قومیں مشکلات اور آفات میں اپنے کردار کی اصلاح کرتی ہیں اور ہمارے لئے ایک نادر موقع ہے کہ ہم بحیثیت ِفرد اور بحیثیت ِقوم اپنے کردار کا عمیق جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کہا ں کون کون سی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور کیسے اُن غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اور اپنی سمت درست کی جا سکتی ہے۔ گیارہ ستمبر1948ء کو جب قائد اعظم محمد علی جناحؒ اس جہان ِفانی سے رخصت ہوئے، تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ قائد اعظمؒ ملک میں آخری مدبر اور صاحب ِ تدبیر سیاستدان تھے۔ قائد ؒکی رحلت کے بعد تمام بڑے فیصلوں کے نتیجے میں عمومی طور پر قومی اتحاد کو ٹھیس پہنچی اور ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے۔ پہلا دھچکا ملک کی تقسیم کی صورت میں لگا، پھر سیاسی، گروہی اور لسانی تقسیم کا عفریت در آیا۔ اُس کے بعد فرقہ واریت اور مذہبی منافرت نے قوم کو مزید تقسیم کیا۔ اور اب، یہ صورت ِ حال ہے کہ ہم سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ایک قوم نہ بن سکے۔ ہم آج تک اپنی اپنی ذات کے خول میں بند اور اپنی انا کے قیدی ہیں۔ تنظیم، جس کا یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار سے لے کر ایک ادنیٰ اہل کار تک کوئی شخص خود کو کسی نظم و نسق کا پابند نہیں سمجھتا۔ بہت سے اہل ِرائے کا خیال ہے کہ ہم قوم نہیں، ہجوم ہیں اور انسانوں کے ہجوم کو قوم تک کا فاصلہ طے کرنے کیلئے خود کو ضابطوں میں ڈھالنا ہوتا ہے۔
اس وقت ملک کے طول وعرض میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ایک خوف وہراس کی کیفیت ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس وبا سے نبرد آزما ہیں، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بحران کو حل کرنے کیلئے اپنے اپنے تئیں اپنے اپنے طریقہ کار سے کام کر رہی ہیں اور کوئی متفقہ پلان یا متفقہ ردِعمل نہیں ہے۔ ابھی تک اطراف سے ایسے بیانات سننے کو آرہے ہیں، جو اس با ت کی غمازی کرتے ہیں کہ بہت سے ذمہ دار لوگ ابھی تک سیاسی و گروہی مفادات اور مخصوص مقاصد سے نہیں نکل سکے۔ پاکستان کو اس وقت مدبر اور صاحب ِبصیرت رہنماؤں کی ضرورت ہے، جو اناؤں کی دیوار سے پرے اور اُونچا دیکھنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہوں۔ ہمیں اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جو انسانوں کے اس ہجوم کو قوم میں بدل دینے کی صلاحیت کی حامل ہو۔ کورونا وائرس جیسی آفت سے نمٹنے کیلئے ہمیں ایسا رہنما چاہیے، جو ہمیں قائد اعظمؒ کے دئیے گئے زریں اُصولوں "ایمان، اتحاد اور تنظیم" ایک بار پھر سے جوڑ دے۔ ہمیں بحیثیت ِقوم یہ سمجھنا ہو گا کہ کامیابی کی سمت کیلئے دستورِ عمل موجود ہے۔ اب صرف عمل کی ضرورت ہے۔
 
Back
Top