Health Article Indigestion of milk 5 billion poeples in world By Rizwan Ata (urdu)

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
پانچ ارب انسانوں کو دودھ ہضم نہیں ہوتا

milk.jpg

تحریر : رضوان عطا

ایک ہم ہیں کہ بھینس کا دودھ پیے بغیر رہ نہیں پاتے اور دوسرے ملائیشیا والے ہیں کہ یہ دودھ پی نہیں پاتے۔ دراصل ملائیشیا کی 85 سے 90 فیصد بالغ آبادی گائے، بھینس، بھیڑ اور بکری جیسے پالتو جانوروں کا خالص دودھ ہضم نہیں کر پاتی۔ اس کے برعکس دُور پرے، برطانیہ کی 85 سے 95 فیصد آبادی بغیر کی مسئلے کے دودھ پی لیتی ہے۔ فلاحی ریاستوں کے حوالے سے مشہور شمالی یورپ کے ممالک سویڈن اور فن لینڈ میں بالترتیب 74 فیصد اور 82 فیصد آبادی دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ مجموعی طور پر دنیا کی 65 فیصد آبادی اگر دودھ پی لے تو اسے ابھارا، اسہال، متلی اور پیٹ درد میں سے ایک یا زائد علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق یہ تعداد 75 فیصد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو دودھ پینے کے بعد مذکورہ علامات شیرخواری کے دور میں نہیں بلکہ بلوغت یا نوعمری میں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ آخر کیوں؟اس کی بنیادی وجہ ان میں بلوغت یا نوعمری میں لیکٹوز ہضم کرنے کی صلاحیت کا ختم ہونا ہے۔ لیکٹوز ایک شکر ہے جو دودھ اور اس سے بنی اشیا میں پائی جاتی ہے۔ اس مسئلے کو لیکٹوز سے عدم موافقت (لیکٹوز اِن ٹالیرنس) کہتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ فرد کا نظامِ انہضام گائے، بھینس، بھیڑ اور بکری وغیرہ کے دودھ میں پائی جانے والی شکر، لیکٹوز کو تحلیل کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔اس کا علاج نہیں ہوتا اور حل یہ ہے کہ احتراز کیا جائے یا لیکٹوز سے پاک دودھ پیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دودھ سے کوئی ایسی چیز بنا لی جائے جس سے اس میں لیکٹوز کی مقدار کم ہو جائے۔ دورِ قدیم کاا نسان ایسی چیزیں بناتا رہا، جس کا ذکرآگے چل کر ہوگا۔ چونکہ ہضم کرنے استعداد کی عدم موجودگی جینیاتی اور پیدائشی ہوتی ہے۔ لہٰذا جنہیں یہ مسئلہ درپیش ہو انہیں اس بات کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ انہیں کیا کھانا ہے اور کیا نہیں۔ انہیں لیکٹوز والی اشیا سے پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ البتہ غذائی اجزا اور توانائی سے بھرپور دودھ جیسی شے ترک کرنے پر اس کا متبادل استعمال کرنا لازم ہے تاکہ جسم میں بعض ضروری غذائی اجزا کی کمی واقع نہ ہو۔ لیکٹوز کی عدم موافقت میں دودھ ہضم نہ ہونے کا سبب لیکٹیز کہلانے والا خامرہ ہے۔ اسے ہماری چھوٹی آنت کے خلیے بناتے ہیں۔ جب دودھ چھوٹی آنت کے ابتدائی حصے میں داخل ہوتا ہے تو لیکٹیز کی کمی یا غیرموجودگی کی صورت میں لیکٹوز جذب ہو کر خون کا حصہ نہیں بنتا اور آگے چلا جاتا ہے۔ بڑی آنت کے بیکٹیریا اس لیکٹوز کی شکست و ریخت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والی تخمیر سے بہت زیادہ مقدار میں گیس پیدا ہوتی ہے۔ یہ گیس ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا مرکب ہوتی ہے اور اس سے پریشان کن اور ناگوار علامات پیدا ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کے پسِ پردہ انسانی جینیات کارفرما ہے۔ ہمارے جسم میں ’’ایل سی ٹی‘‘ جین لیکٹیز بنانے کا حکم جاری کرتا ہے۔ ’’ایم سی ایم6‘‘ جین میں ڈی این اے کی ایک خاص ترتیب اس امر کو کنٹرول کرتی ہے کہ آیا نوعمری یا بلوغت پر ’’ایل سی ٹی‘‘ کام جاری رکھے گا یا اسے ٹھپ کر دے گا۔ یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ مختلف خطوں کی انسانی آبادیوں میں جین کا یہ کام جاری رکھنے اور روکنے کا معاملہ مختلف کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ علاقوں کے لوگ دودھ کو بآسانی ہضم کر جاتے ہیں جبکہ دوسروں کے لیے یہ کسی مصیبت سے کم نہیں۔ یہ گتھی ابھی تک پوری طرح تو نہیں سلجھائی جا سکی کہ دودھ ہضم کرنے کے لیے انسان میں جینیاتی تبدیلی کیوں اورکب ہوئی، اور کیسے پھیلی۔ لیکن اس بارے میں بہت کچھ معلوم بھی کیا جا چکا جس کی مدد سے ایک عمومی نقشہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں برس قبل بعض انسانوں کے ’’ایم سی ایم6‘‘ جین میں تبدیلی وقوع پذیر ہوئی جس کے باعث ماں کا دودھ پینے کی عمر کے بعد بھی یہ جین کام کرنے لگا اور بالغوں کے جسم میں لیکٹیز کی پیداوار جاری رہنے لگی۔ یہ صلاحیت نسل در نسل منتقل ہونے لگی۔ دنیا کی وہ آبادی جس میں لیکٹوز کی موافقت نہیں پائی جاتی ان میں یہ تغیر نہیں ہوا یا وراثت میں نہیں ملا۔ شواہد یہ عندیہ دیتے ہیں کہ اس جینیاتی تبدیلی میں خوراک کے حصول کے ذرائع میں تبدیلی کا عمل دخل ہے۔خوراک میں تبدیلی کے دباؤ نے جینیات پر اثر ڈالا۔ یورپ کے علاوہ یہ جینیاتی تغیر برصغیر، جزیرہ نما عرب اور افریقہ میں بھی ہوا، کہیں لیکٹوز سے موافقت رکھنے والے لوگوں سے شادیوں وغیرہ کے ذریعے اور کہیں بیرونی آبادی سے تعامل کے بغیر آزادانہ طور پر۔ ان خطوں میں ایک امر مشترکہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ تمام وہ ہیں جہاں مال مویشی پالنے کارواج پہلے پڑا یا مویشی پالنے والوں نے وہاں ہجرت کی۔ اس جینیاتی تبدیلی کو بہت زیادہ عرصہ نہیںہوا۔آخری برفانی دور کے دوران (26 لاکھ سے 11,700 برس قبل)بالغ انسانوں کے لیے دودھ کسی ہلکے پھلکے زہر کی مانند ہوتا تھاکیونکہ اس دور کے انسان کے بچوں میں لیکٹوز کو تحلیل کرنے والے لیکٹیزبلوغت میں ناپید ہو جاتے تھے۔ اس دور کا انسان زیادہ تر جانوروں کا شکار کر کے انہیں کھاتا تھا یا جنگل و بیابان میں پھل اور پھلیوںوغیرہ کی صورت کھانے کی مختلف چیزیں اکٹھی کر کے پیٹ بھرتا تھا۔مشرقِ وسطیٰ کا ایک خطہ بہت زرخیز ہے اور اگر فضا سے دیکھا جائے تو کسی خمیدہ چاند کی مانند ہے، اسی لیے انگریزی میں ’’فرٹائل کریسنٹ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس زرخیز سرزمین میں موجودہ عراق اور جنوب مشرقی ترکی کے علاوہ ایران، شام، لبنان، فلسطین، اردن اور مصر کے علاقے شامل ہیں۔ یہ خطہ تہذیبوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ یہیں سب سے پہلے شہر بسائے گئے اور باقاعدہ زراعت پھلی پھولی۔ نسلِ انسانی کو نظامِ آب پاشی، تحریر، پہیہ اور شیشہ اسی خطے کی دین ہیں۔ اندازاً 11 ہزار برس قبل اس خطے میں کھیتی باڑی اور جانور پالنا عام ہوئے جس سے ایک تبدیلی یہ آئی کہ دودھ کی پیداوار بڑھ گئی۔مثال کے طور پراگر کسی کے پاس 30 بکریاں ہوتیں تو بہت زیادہ گوشت، چمڑا اوردودھ اس کے ہاتھ میں ہوتا۔ یہ ذاتی ضرورت سے بھی زیادہ ہوتا۔ ان میں دودھ ایسی شے تھی جو صبح شام دستیاب تو ہے لیکن جسے پینے پر اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا، لہٰذا شروع میں انسان نے دودھ میں سے لیکٹوز کم کرنے کے طریقے ڈھونڈے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انسان کو اکثر اوقات بہت کم وسائل میں گزارا کرنا پڑتا تھا اور اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ قدرتی آفات، بیماریاں اور جنگیں سروں پر منڈلاتے رہتے۔ ایسے میں اصولی طور پر گلہ بانی اور جانورپالنے کے عمل سے غذائیت کا ایک شاندار ذریعہ ان کے ہاتھ آچکا تھا۔ عام رائے کے برخلاف دودھ مکمل غذا ہرگز نہیں لیکن غذائیت سے بھرپور ضرور ہے۔ اس میں پروٹین اور وٹامن ہوتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی 12اور ڈی شامل ہیں۔ لیکٹوز جسم کو بہت سی معدنیات جذب کرنے میں مدد دیتا ہے جن میں میگنیزیم اور زنک شامل ہیں۔ یہ کیلشیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ انسان اسے پوری طرح ہضم نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا شروع میں اس نے اس میں سے لیکٹوز کم کرنے کے طریقے ڈھونڈے ۔ ایک طریقہ دودھ کی تخمیر ہے۔ اس سے دہی اور پنیر بن سکتے ہیں جن میں لیکٹوز کی مقدار کم ہوتی ہے اور یہ ان جسموں کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں جن میں لیکٹیز پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو۔ زمانہ قبل از تاریخ کے یورپ میں اسے برتن ملے ہیں جنہیں ان مقاصد کے لیے برتا جاتا تھا۔ پس جن میں یہ صلاحیت نہیں تھی…اور شروع میں یہ زیادہ تر لوگوں میں نہیں تھی… وہ دودھ کم مقدار میں پیتے تھے یا پنیر اور دہی بنا کر اس میں لیکٹوز کی مقدار کو کم کرکے استعمال کرتے تھے۔ پھر ایک جینیاتی انقلاب آیا۔ ایک جینیاتی تغیر یامیوٹیشن پورے یورپ میں پھیل گئی جس سے وہاں کے رہنے والوں میں لیکٹیزز پیدا کرنے اور نتیجتاً دودھ پینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ سیاسی تبدیلی کے برخلاف اس نے لوگوں کی حقیقی زندگی کو بدل دیا۔ اب جب قدرتی آفات یا بیماری لگنے سے فصلیں خراب ہوتیں تو ان کے پاس ایک متبادل دودھ کی شکل میں موجود ہوتا جس پران کا گزارہ ہو جاتا۔ اس جینیاتی تبدیلی کی ابتدا زیادہ سے زیادہ20 ہزار برس قبل ہوئی اور اس بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ یورپ میں یہ جینیاتی تغیر مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کا مرہون منت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے وہ لوگ جن میں دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی تھی، ہجرت کر کے یورپ گئے۔ یہ کاشت کاری، جانور پالنے اور گلہ بانی سے خوب واقف تھے۔ اس وقت یورپ کے قدیم باسی زیادہ تر شکار اور کھانے کی چیزیں اکٹھی کر کے گزارا کرتے تھے اور ان کا بودوباش مشرقِ وسطی کی نسبت قدیم تھا۔ نئے آنے والوں نے وہاں کی ثقافت اور طرزِزندگی کو بدل دیا کیونکہ انہیں اس دور کے لحاظ سے خوراک کی پیداوار کے جدید طریقوں کا علم تھا۔ یہ اسی ہجرت کا ثمر ہے کہ دنیا کے بیشتر دوسرے خطوں کی نسبت یورپیوں میں دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ البتہ یورپ میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ وہاں کے پہلے یا مقامی باشندوں نے کھیتی باڑی اور گلہ بانی شروع کر دی یا کھیتی باڑی کرنے والے مہاجرین نے ان کی جگہ لے لی۔ محققین کی عمومی رائے یہی ہے کہ یورپ جا کر بسنے والے یہ کسان گندم اور جَو جیسی فصلیں ساتھ لائے اور انہیں نئی سرزمین پر رائج کیا۔ آج زیادہ تر لوگ جن میں دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ان کے آباؤاجداد کا تعلق یورپ سے ہے، اس کے علاوہ مغربی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بھی زیادہ تر لوگ جینیاتی تبدیلیوں کے باعث دودھ ہضم کرنے کے قابل ہوئے۔ دوسری طرف افریقہ اور ایشیا میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لیکٹوز سے عدم موافقت 95 فیصد تک ہے۔ ان علاقوں میں دودھ سے لیکٹوز کو نکال لیا جاتا ہے اور اسی لیے وہاں لیکٹوز فری دودھ عام بکتا ہے۔​
 

Back
Top