Insaan ki androonii Gharii By Rizwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
انسان کی اندرونی گھڑی ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا

health.jpg

کم و بیش دو دہائیاں قبل جب کسی فرد سے پوچھا جاتا ’’کیا آپ کے پاس گھڑی ہے؟‘‘ تو وہ سمجھ لیا جاتا کہ وقت معلوم کرنا ہے۔ موبائل فون کی آمد کے بعد کلائیاں گھڑیوں سے محروم ہوچکی ہیں اور سوال ناموزوں سا ہو گیا ہے۔ فیچر فون ہوں یا سمارٹ فون، دونوں نے گھڑی کی آزاد حیثیت ختم کر کے اسے اپنے اندر سمو لیا ہے۔ یہ گھڑیاں تو ہوئیں انسانی ایجادات لیکن ایک ایسی ’’گھڑی‘‘ بھی ہے جو فطرت کی مرہونِ منت ہے۔ راتوں کو جاگنے والے بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں، لیکن بیشتر انسان رات کے اندھیرے میں سوتے اور دن کے اجالے میں کام کاج کرتے ہیں۔ قدرتی طور پر اندھیرا پھیلنے کے بعد آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں اور سورج کی کرنیں بیداری کی نوید ہوتی ہیں۔ فطرت نے انسان کو بنایا ہی کچھ اسی طرح ہے۔دائرے کی صورت 24 گھنٹوں کے سفر میں ایک روانی ہے تاہم جسم اور ذہن میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہم بہت سی ایسی جسمانی، ذہنی اور رویہ جاتی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں جو اردگرد کے ماحول کی تاریکی اور روشنی سے منسلک ہیں۔ اس کی سب سے مثال تو ہمارا رات کو نیند کا آنا اور دن کو جاگ جانا ہے۔ رات کی ملازمت کرنے والے یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ رات کی نیند کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بے زبان جانور بھی شاید یہی کہا کرتے ہوں لیکن ان کا کہا ہم سن نہیں سکتے۔ دراصل بیشتر حیات جس میں انسان، جانور، پودے، یہاں تک کہ چھوٹے جرثومے شامل ہیں، اسی طریق پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کے اندر بہت سی چھوٹی سی ’’گھڑیاں‘‘ ہوتی ہیں جو رات اور دن کے ساتھ جسمانی و ذہنی افعال کو مربوط رکھنے میں معاونت کرتی ہیں۔ انسان کے اندر تو حیاتیاتی گھڑیوں کا گویا انبار لگا ہوتا ہے۔ خصوصی مالیکیولز سے بنی یہ گھڑیاں تقریباً ہر بافت اور عضو میں پائی جاتی ہیں۔ یہ گھڑیاں جن اجزا سے بنتی ہیں ان کے جینز انسانوں، گلے سڑے پھلوں پر بھنبھنانے والی مکھیوں، چوہوں اور دیگر جانداروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر ایک طرح کا گھڑیال ہوتا ہے جسے ہم ’’ناظم گھڑی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ جسم کی چھوٹی چھوٹی حیاتیاتی گھڑیوں کے علاوہ بیرونی ماحول سے ربط قائم کرتی ہے اور مرکزی گھڑی کا کردار ادا کرتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی والے یا فقاری جانوروں میں ناظم گھڑی ہزاروں اعصابی خلیوں یا نیورانز پر مشتمل ہوتی ہے اور ’’سپرا کیاسمیٹک نیوکلس‘‘ یا ’’ایس سی این‘‘ کہلانے والے ایک ڈھانچے کی صورت دماغ کے زیریں عرشہ کی مکین ہوتی ہے۔ اندرونی گھڑی یا گھڑیوں کے زیرِاثر انسانی جسم میں بہت سے قدرتی افعال ایک ترتیب کے ساتھ ازخود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ ماحول سے ملنے والے عندیے اس عمل میں رخنہ ڈالتے ہیں جن میں روشنی سرفہرست ہے۔ اگر زیادہ روشنی میں رہنے کے فوری بعد نیند نہیں آتی تو گڑبڑ کا سبب روشنی کی مداخلت ہے۔ روشنی اور اندھیرا حیاتیاتی گھڑیوں اور 24 گھنٹے کے یومیہ سفر دونوں کو تیز اور سست کرسکتے ہیں اور ازسرنو ترتیب بھی دے سکتے ہیں۔ اس کی قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں جسمانی افعال اور صحت متاثر ہو سکتے ہیں۔ سونے اور جاگنے کا وقت بدل سکتا ہے، ہارمونز کے اخراج میں تبدیلی آ سکتی ہے، کھانے کی عادات، انہضام اور دیگر جسمانی افعال پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔ حیاتیاتی گھڑیوں کی سست یا تیز رفتار روزمرہ کے ہموارجسمانی و ذہنی سفرکو تتربتر یا خراب کر سکتی ہے۔ یہ بے قاعدگی بہت سے دیرینہ امراض جیسا کہ سونے کے خلل، موٹاپا، ذیابیطس، یاسیت اور اختلال دو قطبی (بائی پولر ڈس آرڈر) پیدا کر سکتی ہے۔ موسموں کے ساتھ مزاج میں تبدیلی بھی اس کے باعث ہو سکتی ہے۔ اگر رات گئے آپ نیند کے خمار کی لپیٹ میں آ جائیں تو سمجھ جائیں کہ میلاٹونین نے اپنا کام کر دکھایا۔ جسم کی ناظم گھڑی، یا ’’ایس سی این‘‘ میلاٹونین کی پیداوار کو کنٹرول کرتا ہے۔ آنکھ سے دماغ تک معلومات بصری اعصاب کے توسط سے پہنچتی ہیں۔ رات کو اجالے کی روانگی کے ساتھ ’’ایس سی این‘‘ دماغ کو زیادہ میلاٹونین خارج کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگر مصنوعی روشنی اردگرد ہو تو ناظم گھڑی ’’گمراہ‘‘ ہو سکتی ہے۔ رات کے وقت موبائل کی روشنی میں کام کرنے والوں کا سونے جاگنے کا دائرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے نکلا جا سکتا ہے۔ ہماری قدرتی یا فطری گھڑی جسم کو 24 گھنٹے کے اوقات کی اطلاع دیتی رہتی ہے۔ یعنی یہ اندر ہی اندر از خود کام کرتی ہے۔ سورج کی کرنیں اسے ازسرنوترتیب دینے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر فرد کو سورج سے دور رکھا جائے اور وہ مکمل اندھیرے میں ہو تو بھی یہ گھڑی کام کرتی رہتی ہے لیکن اس کے دائرے کی طوالت تقریباً 25 گھنٹے ہو جاتی ہے، یعنی یہ کچھ آگے چلی جاتی ہے۔ہمارا جسمانی نظام روزمرہ کی بنیاد پر تبدیلی اور ایک توازن کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بھوک اور انہضام کے ذمہ دار ہارمون 24 گھنٹوں میں بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔ قوت مدافعت کے نظام کے ذمہ دار کیمیائی اجزا کے افعال میں بھی اتار چڑھاؤ آتا ہے، سوزش پر ردعمل میں معاون اجزا رات کے وقت زیادہ سرگرم ہوتے ہیں۔ اسی لیے رات کے وقت بخار اکثر زیادہ ہو جاتا ہے۔ قدرت کے نظام میں بھی حکمت پوشیدہ ہے۔ آرام کے اوقات میں جسم انفیکشن سے بہتر لڑ سکتا ہے اور اسی دوران ہی توانائی کا رخ دیگر کے بجائے اس ضروری کام کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح رات کے وقت ذہنی دباؤ کے ہارمون کورٹیسول کا اخراج کم ہو جاتا ہے اور صبح سویرے بڑھ جاتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی اندرونی گھڑی کا خیال رکھیں۔ رات کو زیادہ روشنی سے گریز کریں اور اس کی تاریکی سونے کے لیے برتیں۔ اس طرح ہم اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
 

@intelligent086
قدرت نے جو نظام دیا ہے انسانی ایجادات ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں
بہت عمدہ انتخاب
اہم اور مفید طبی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top