Adabi Mazameen Insaniyat abhi zinda hai By Javeria Siddique

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
insani.jpg


انسانیت ابھی زندہ ہے
تحریر : جویریہ صدیق

میری زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی۔ اچھی نوکری، اپنا چھوٹا سا گھر، پیار کرنے والی بیوی اور اولاد۔ میں ہر پل اللہ کا شکر ادا کرتا تھا۔ میری زندگی کی ترقی اور سکون میں میری شریکِ حیات کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ میرے اٹھنے سے پہلے وہ نماز کے وضو کے لئے پانی گرم کر دیتی۔ میں ہنستے ہوئے کہتا، گیزر کے زمانے میں یہ سب کون کرتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی، آپ کی خدمت کر کے مجھے سکون ملتا ہے۔ گرما گرم ناشتہ بنا کر مجھے اور بچوں کو جگاتی۔ ہمیں تیار کر کے ساتھ گھر کے بنے کھانے کا ٹفن دے کر دعائیں دیتی رخصت کرتی۔موبائل تو اس کو استعمال نہیں کرنا آتا لیکن لینڈ لائن سے میری خیریت معلوم کرتی کہ میں آفس خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔ بچے واپس آتے تو گھر شیشے کی طرح صاف اور تازہ کھانا تیارہوتا۔ بچے کھانے کے بعد آرام کرتے۔ میری واپسی پر چائے تیار ہوتی اور بچے پڑھ رہے ہوتے۔ بیگم کبھی کوئی فرمائش نہ کرتی بلکہ اتنی بچت کرتی کہ میں گاڑی خریدنے کے قابل ہو گیا۔ گاڑی میں سیر کرتے ہوئے اس نے پہلی بار گجرے کی فرمائش کی۔ اس دن سے میں نے اپنا معمول بنا لیا کہ بچوں سے چھپ کر اس کے لئے گجرے ضرور لے کر جاتا۔بچے بڑے ہو گئے تھے، مجھے شرم آتی تھی کہ کیا سوچیں گے۔ اس لئے اخبار میں لپیٹ کر، شاپر میں ڈال کر، چپکے سے بیگم کو دے دیتا۔ وہ بہت مسکراتی تھی کہ 50 سال کی عمر میں مجھ میں کون سا پیار جاگ گیا۔ میں اس کی سعادت مندی اور سلیقہ مندی کا اور قائل ہوگیا جب پلاٹ خریدتے وقت اس نے مجھے پانچ لاکھ روپے دیے۔میں حیران ہوگیا، اس کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ جو خرچہ میں اسے گھر چلانے اور باورچی خانے کے اخراجات کے لئے دیتا ہوں، یہ رقم اس نے میانہ روی سے چلتے ہوئے اسی میں سے جمع کر لی۔ میں حیران رہ گیا۔ میں نے پلاٹ خریدا اور پہلا گلاب جامن بیگم کو کھلایا۔ اب میں پہلے سے زیادہ اپنی بیگم کی سلیقہ مندی کا قائل ہوگیا۔ وہ نماز کی بہت پابند تھی اور صدقہ خیرات بھی خوب کرتی تھی۔کچھ دن سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ایک دن اچانک وہ کچن میں بے ہوش ہوگئی۔ ملازمہ نے کال کی اور بتایا تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں اور بچے اس کو ہسپتال لے کر گئے۔ ڈاکٹر نے بہت سارے ٹیسٹ کئے تو معلوم ہوا کہ اس کو کینسر ہے، جلد آپریشن کرنا ہوگا۔ میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔ ڈاکٹرز نے کہا، آپریشن پر 10 لاکھ خرچہ آئے گا۔اتنی رقم میرے پاس فوری طور پر موجود نہیں تھی۔ سوچا کیا کروں تو خیال آیا کہ پلاٹ بیچ دیتا ہوں۔ پراپرٹی ڈیلر کو فون کیا کہ پلاٹ بیچ دے۔ اس نے کہا ایک گاہک ہے لیکن اس ماہ 10 لاکھ دے گا اور باقی 10 لاکھ اگلے ماہ۔ میں نے کہا، جلدی سودا کرو، مجھے ایک ہفتے میں رقم چاہیے، وہ بھی کیش۔پلاٹ خریدنے والے نے مجھے پانچ ہزار کے نوٹوں کی صورت میں 10 لاکھ اخبار میں لپیٹ کر شاپر میں دیے، میں نے گن کر اس کا شکریہ ادا کیا اور باقی اس نے اگلے ماہ کا چیک دے دیا۔ میں نے پلاٹ کے کاغذ سائن کرکے اس کے حوالے کردیے۔ جلدی سے باہر آیا۔ بیگم کی ادویات خریدیں مگر راستے میں گاڑی بند ہوگئی۔ مجھے سخت پریشانی تھی کہ کل آپریشن ہے اور آج رقم جمع کرانی ہے تو گاڑی کیوں بند ہوگئی۔ اپنے واقف کار میکینک کو فون کیا۔ گاڑی اس کے حوالے کرکے میں نے رقم اور دوائی کا شاپر اٹھایا اور ٹیکسی تلاش کرنے لگا۔ایک پرانی سی ٹیکسی کے ڈرائیور نے گاڑی روکی اور پوچھا، صاحب کہاں چلنا ہے؟ میں نے کہا جلدی ہسپتال چلو، میری بیوی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ اس نے مجھے کہا، آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو جلد صحت یاب کریں گے۔بازار کے آخر میں پھول والا گجرے بیچ رہا تھا۔ میں نے کہا ٹیکسی روکو تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا کہ ابھی تو مجھے اتنی جلدی تھی، اب رک کیوں رہا ہوں۔ میں نے پھولوں کی دکان سے گجرے خریدے، اخبار میں لپیٹ کر شاپر میں پیک کرنے کو کہا۔ بس دل کیا کہ آپریشن پر جانے سے پہلے اس کو یہ اپنے ہاتھوں سے پہناؤں گا۔اسی کشمکش میں ہسپتال آگیا، ٹیکسی والے کو پیسے دیے، اپنے شاپر اٹھائے اور ڈرتے ڈرتے ہسپتال کی طرف چل پڑا کہ کیا ہوگا۔ میری بیوی ٹھیک ہوگی یا نہیں۔ کمرے میں آیا، اس کو خود گجرے پہنائے، تسلی دی کہ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر جب آپریشن کی فیس جمع کرانے کاؤنٹر پر گیا تو ہاتھ میں صرف ایک تھیلی تھی جس میں دوائیاں تھیں۔ بھاگ کر کمرے میں گیا، وہاں صرف گجرے والا شاپر تھا۔ ہر جگہ دیکھا لیکن پیسوں والا شاپر نہیں ملا۔ شاید میں پیسوں کا شاپر ٹیکسی میں بھول گیا تھا۔میں ہسپتال سے باہر بھاگا، ہر طرف ٹیکسی تلاش کی، بہت رش تھا لیکن مجھے وہ ڈرائیور اور ٹیکسی نہیں ملی۔ میں ہسپتال کے لان میں رونے لگا، سجدے میں گر گیا اور روتے ہوئے دعا کرنے لگا، یااللہ میری مدد کر، میری بیوی کو بچا لے۔ جب رو رو کر تھک گیا تو اٹھا، واپس بوجھل قدموں سے ہسپتال جانے لگا۔ پیچھے سے ایک شخص نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ جناب آپ یہ رقم میری ٹیکسی میں بھول گئے تھے، پلیز گن لیں اور مجھے اجازت دیں۔میں اس ٹیکسی ڈرائیور سے لپٹ کر رونے لگا۔ اس کو انعام دینے کی کوشش کی لیکن وہ میری بیوی کے لئے دعا دے کر چلا گیا۔ میں نے رقم ہسپتال میں جمع کروائی، بیگم کا آپریشن کامیاب ہوا، وہ اب کینسر فری ہے۔ جب بھی وہ ٹیکسی ڈرائیور یاد آتا ہے تو دل سے دعا نکلتی ہے اور اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔​
 

Back
Top