Insaniyat par yaqeen rakhye By Vardah Baloch

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
انسانیت پر یقین رکھیے ........ تحریر : وردہ بلوچ

insaniyat.jpg

خبریں پڑھتے ہوئے انسانی فطرت سے بددلی اور مایوسی کا احساس بآسانی ہو جاتا ہے۔ البتہ نفسیات کے شعبے میں حال ہی میں ہونے والی تحقیقات بتاتی ہیں کہ انسان دراصل اتنا خودغرض اور لالچی نہیں جتنا بعض اوقات لگتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری تحقیق یہ ظاہر کر رہی ہے کہ زیادہ تر لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اس مدد کے نتیجے میں دوسروں کی زندگیوں میں بہتری آتی ہے۔ آئیے ان تحقیقات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی احسان کرتا ہے تو ہم دوسروں پر کرتے ہیں:آپ نے سنا ہو گا ’’کر بھلا سو ہو بھلا‘‘۔ یہ ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فرد کسی کی تھوڑی سی مدد کرتا ہے تو جس کی مدد کی جاتی ہے وہ ایسی کوئی مدد کسی اور کی بھی کرتا ہے۔
امریکا کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ لوگ خود کو ملنے والی مدد دوسروں کو فراہم کرنے کے حقیقتاً خواہش مند ہوتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شکرگزار یا احسان مند محسوس کرتے ہیں۔ اس معاملے پر ایک تجربہ کیا گیا جس میں پڑھائی کے دوران شرکا کو کمپیوٹر پر کوئی مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا ان کے کمپیوٹر کے مسئلے کو حل کرتا ہے تو جس کی مدد کی جاتی ہے وہ کسی اور کے کمپیوٹر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے خاطر خواہ وقت صَرف کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب کوئی ہم پر مہربان ہوتا ہے
اور ہم اس کے احسان مند ہوتے ہیں تو اس سے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، ہمیں زیادہ خوشی ہوتی ہے: ماہرنفسیات الزبتھ ڈون اور اس کے ساتھیوں نے ایک تحقیق کی۔ شرکا کو دن میں خرچ کرنے کے لیے تھوڑی سی رقم دی گئی۔ شرکا جہاں چاہتے اسے خرچ کر سکتے تھے۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ نصف شرکا کو رقم اپنے اوپر اور نصف کو دوسروں پر خرچ کرنا تھی۔
دن گزرنے کے بعد محققین کو شرکا سے جو معلوم ہوا وہ شاید آپ کو بھی حیران کر دے۔ اپنے اوپر رقم خرچ کرنے والوں کی نسبت وہ شرکا زیادہ خوش تھے جنہوں نے دوسروں پر رقم خرچ کی۔ دوسروں سے ربط زندگی کو زیادہ بامعنی بناتا ہے: ماہرنفسیات کارول ریف ’’نظریۂ معنویتِ زندگی‘‘ پر تحقیق کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے مراد زندگی میں معنی اور مقصد کا احساس ہے۔ ریف کے مطابق دوسروں سے ہمارا تعلق زندگی میں معنویت اور مقصدیت کے کلیدی اجزا میں سے ہے۔
ایک تحقیق سے اس کے حق میں شواہد ملے ہیں۔ اس تحقیق میں وہ شرکا جنہوں نے دوسروں کی مدد کرنے میں زیادہ وقت گزارا ان میں مقصدیت اور معنویت کا احساس زیادہ تھا۔ اسی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ کسی کو شکریہ ادا کرنے کا خط لکھنے والے شرکا میں معنویت کا احساس زیادہ تھا۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسروں کی مددکے لیے وقت نکالنا یا ان سے شکریے کا اظہار کرنا دراصل زندگی کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے زندگی لمبی ہوتی ہے:
ماہر نفسیات سٹیفنی براؤن اور ان کے ساتھیوں نے یہ پتا چلانے کی کوشش کی کہ کیا دوسروں کی مدد کرنے سے عمر بڑھتی ہے؟ انہوں نے شرکا سے پوچھا کہ وہ دوسروں کی مدد کے لیے کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔
پانچ برسوں کے دوران براؤن کو معلوم ہوا کہ وہ شرکا جو زیادہ تر وقت دوسروں کی مدد کرنے میں گزارے ہیں ان میں موت کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی مدد کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سے لوگ دوسروں کی مدد کرکے اپنی لمبی عمر کی امید رکھ سکتے ہیں۔ زیادہ ہمدرد بننا ممکن ہے: سٹین فورڈ یونیورسٹی، امریکا کے کارول ڈویک نے ’’مائنڈ سیٹ‘‘ (سوچ اور رویوں) پر ایک وسیع تحقیق کی۔ ایک طرف ’’لچکدار مائنڈ سیٹ‘‘ والے لوگ ہوتے ہیں، جن کا خیال ہوتا ہے کہ کوشش کرنے پر وہ بہتر ہو سکتے ہیں۔
جبکہ ’’جامد مائنڈ سیٹ‘‘ والوں کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی اہلیت میں زیادہ تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ڈویک کو معلوم ہوا کہ جب لوگ یہ یقین کرتے ہیں کہ وہ بہتر ہو سکتے ہیں، تو وقت کے ساتھ ان میں بہتری آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ہمدردانہ رویے میں اضافے کا تعلق بھی مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والی تحقیقات سے پتا چلا کہ ’’لچکدار مائنڈ سیٹ‘‘ اور ہمدردی کی حوصلہ افزائی کرنے سے ہمدردانہ رویہ بڑھتا ہے۔
ایک مؤقر اخبار نے لکھا تھا کہ ’’ہمدردی ایک انتخاب ہے۔‘‘ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمدردی کوئی ایسی شے نہیں جو چند افراد میں ہوتی ہے، اسے کوئی بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس میں اضافہ بھی کر سکتا ہے۔ اگر ہم تلاش کرنا چاہیں تو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی جن سے انسانیت پر یقین ڈگمگا جائے۔ یقینا اس دنیا میں جرائم بہت زیادہ ہیں۔ پھر انسانی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ انسانوں نے ان جنگوں میں ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر ہلاک کیا۔ اس دوران مخالفین کو ایسی اذیتیں بھی دی گئیں جن کا تصور کرنا محال ہے
۔ لیکن اس کا دوسرا رکھ بھی ہے۔ بنی نوع انسان زیادہ عرصہ پُرامن رہی۔ جنگیں کبھی کبھار ہی ہوئیں۔ اس لیے جنگوں اور جرائم سے انسانی نفسیات اور فطرت کی پوری تشریح نہیں کی جا سکتی۔ مذکورہ تحقیقات ہمیں انسانی نفسیات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کی مدد کا جذبہ کتنا اہم ہے۔ جب کسی ایک کی مدد کی جاتی ہے تو وہ دوسرے کی مدد کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ انسان لڑائی اور جنگ و جدل سے خوشی نہیں پاتا بلکہ دوسروں کی مدد اسے مسرت سے ہمکنار کرتی ہے۔
اس سے اسے دلی سکون میسر آتا ہے۔ انسانی معاشرے میں بھی اس عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دوسروں کا سہارا بننے والے محترم اور باعزت سمجھے جاتے ہیں۔ انسان معاشرے میں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے انسانوں سے رابطہ اور تعلق قائم رکھیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ یہ امر بھی خوشگوار ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے ملنے والا اطمینان ہماری عمر کو طوالت دیتا ہے۔

 

Back
Top