Hadith Islam Main Aadaab E Muaidah Zubani Ya Tahreeri By Maulana Hafiz Zubair Hassan Ashrafi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
آداب معاہدہ زبانی اور تحریری معاہدوں کی بجاآوری ہرمسلمان پر فرض ہے
تحریر : مولانا حافظ زبیر حسن اشرفی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ خبردار! جس شخص نے ظلم کیا اس پر جس سے معاہدہ ہو چکا یا اس کے حق کو نقصان پہنچایا یا اس کو تکلیف دی اس کی طاقت سے زیادہ یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں اس سے قیامت کے دن جھگڑوں گا۔‘‘(ابوداؤد)لفظ عقو د عقد کی جمع ہے۔ عقد کا معنی ہے باندھنا۔ لہٰذا جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اسے عقد کہا جاتا ہے۔ علامہ جصاصؒ فرماتے ہیں کہ کسی معاملہ کو عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ دو فریقوں نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کی پابندی اپنے لیے لازم کر لی ہو اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہو گئے ہوں۔ آج کل ہمارے عرف میں اس کا نام معاہدہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔‘‘ اس ارشاد باری میں ہر طرح کے معاہدے شامل ہیں اس سے مراد وہ معاہدہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے سلسلے میں کیا ہے۔ وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو دو فرد کریں جیسے شادی بیاہ کے معاہدے اور خرید و فروخت کے معاہدے اور وہ معاہدے بھی داخل ہیں جو دو قومیں کرتی ہیں لہٰذا بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی لازم ہو گی۔زمانہ اسلام سے پہلے بھی لوگ معاہدے کرتے تھے لیکن عموماً معاہدات کی پابندی محکومی کی علامت اور معاہدات کو توڑنا جرأت اور برتری کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاہدات فرمائے وہ معاہدات کی تاریخ میں مثالی معاہدے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ان معاہدات میں بنیادی معاہدہ وہ ہے جو صلح نامہ ’’حدیبیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے اس کے ساتھ ایک گائوں آباد تھا اس وجہ سے اس کا نام حدیبیہ ہوا۔ یہ علاقہ مکہ معظمہ سے تقریباً 9 میل کے فاصلہ پر ہے اکثر حصہ حرم میں ہے باقی حرم سے باہر ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ یکم ذی قعدہ 6ھ کو روانہ ہوئے تقریباً پندرہ سو انصار و مہاجرین صحابہؓ آپؐ کے ہمراہ تھے۔ جب آپؐ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش مکہ سمجھے کہ یہ جنگ کرنے آئے ہیں۔ آپؐ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قاصد بنا کر بھیجا تاکہ وہ قریش کو آگاہ کر دیں کہ مسلمان جنگ کے ارادہ سے نہیں آئے‘ کفار نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا‘ مسلمانوں کو یہ افواہ پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے قصاص حضرت عثمانؓ کے لیے موت تک لڑنے کی بیعت کی جو کہ بیعت رضوان کہلاتی ہے۔ قریش کو جب بیعت کی خبر ہوئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو رہا کر دیا اور سہیل بن عمرو کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا۔ طویل گفتگو کے بعد ایک معاہدہ تیار ہوا جو کہ’’صلح نامہ حدیبیہ‘‘ کہلاتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ لکھنے کا حکم دیا اور سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوائی۔ عرب میں قدیم دستور یہ تھا کہ وہ باسمک اللہم لکھا کرتے تھے اسی وجہ سے سہیل نے کہا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتا قدیم دستور کے مطابق باسمک اللہم لکھو چنانچہ یہی لکھا گیا۔ پھر جب آپؐ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ لکھوایا تو پھر سہیل نے کہا ہم تو آپؐ کو رسول اللہ نہیں مانتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم میری تکذیب کرو۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ مٹا دو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں تو ہرگز نہیں مٹائوں گا پھر آپؐ نے خود مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھوایا۔ معاہدہ لکھنے کے آداب میں اسوۂ حسنہ سے یہ مثالیں ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔پھر معاہدہ کی شرائط میں سے ہر شرط خوب توجہ کے مقابل ہے۔

ایک شرط یہ تھی کہ دس سال تک لڑائی نہیں ہو گی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قریش کا جو شخص بغیر سرپرست کی اجازت کے مدینہ جائے گا وہ واپس کیا جائے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو اور جو شخص مسلمانوں میں سے مکہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ اس سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی بغیر حج و عمرہ کیے مدینہ واپس جائیں اور آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کر کے واپس ہو جائیں۔ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ ہو اور تلواریں بھی نیام میں ہوں اور یہ بھی شرط تھی کہ قبائل عرب کو یہ آزادی ہو گی کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کر لیں۔یہ شرائط ہر مسلمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہیں بلکہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا لیکن اس معاہدہ کے بعد پیش آنے والے مفید نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ معاہدہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا اہم واقعہ تھا جو مسلمانوں کی آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ بنا۔

کسی قوم کے حقوق بنیادی طور پر تین چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں جان، مال اور مذہب ان کے علاوہ باقی حقوق ان کے تحت آجاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام منقوحہ قوموں کے ان تینوں بنیادی حقوق کا ذکر کیا‘ اس دستاویز کا آغاز ان کلمات سے ہوتا ہے ’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل ایلیا کو دی یہ امان جاں و مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذہب کے لیے ہے۔‘‘ مستند تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ یہ حسن سلوک صرف چند مقامات کے لیے نہیں تھا بلکہ اہل جرجان کے لیے مراعات کے الفاظ گواہ ہیں۔ آذر بائیجان کا معاہدہ، موقان کا معاہدہ اور پھر خلفائے راشدین کے وہ خطوط موجود ہیں جن میں تمام فاتح جرنیلوں کو اور تمام حکومت کے ذمہ دار افراد کو تاکید کی جاتی تھی کہ اقلیتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمیوں یعنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی تھی اسی لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ عہد رسالت ﷺمیں اقلیتوں کے حقوق متعین ہو چکے تھے ،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ان کو وہی حقوق حاصل رہے اور نئے ذمیوں کو بھی وہی حقوق عطا کیے چنانچہ حیرہ کے عیسائیوں سے ذمہ داری کا معاہدہ کرتے ہوئے طے پایا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ کوئی ایسا محل گرایا جائے گا جو ان کے دشمنوں سے بچائو کے کام آتا ہو، ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکا جائے گا۔لیکن اس پر اسلام کے مخالفین نے عمل نہیں کیا ۔سپین کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں چن چن کر مسلمانوں کاخون بہایا گیاتھا۔غیر مسلمین نے دور جدید میں بھی جہاں جہاںقبضہ کیا اسلام کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی جیسا کہ ان دنوں بھارت میں مساجد کو شہید اور مسلمانوں کو بے وطن کیا جا رہا ہے، آپﷺ نے ایسے کسی بھی معاہدے کی ہمیشہ مذمت کی تھی جس میں دوسروں کے عبادت گاہوں اور بنیادی حقوق پر زد پڑتی ہو۔یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان اقلیتوں میں سے کسی ذمی کو قتل کر دیتا تو خلفائے راشدینؓ اس سے قصاص لیتے۔ چنانچہ الدرایہ فی تخریج الہدایہ میں ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے عیسائی کو قتل کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کر دیا انہوں نے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے اسے قتل کر دیا‘‘ اسی طرح اقلیتوں کی املاک کو کوئی نقصان پہنچتا تو اس کو معاوضہ دلایا جاتا۔ ایک مرتبہ فوج نے شام کے ایک ذمی کے کھیت کو روند ڈالا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بیت المال سے دس ہزار کا معاوضہ دلایا۔‘‘

پھر ذمیوں سے جزیہ کی شکل میں جو ٹیکس لیا جاتا تھا اس کی حیثیت خلفائے راشدینؓ کے معاہدوں میں موجود ہے کہ یہ صرف ذمہ داری اور حفاظت کے لیے ٹیکس تھا۔ اور اس ٹیکس کی وصولی میں انتہائی احتیاط کی جاتی اور اس بات کا بڑا اہتمام کیا جاتا کہ ٹیکس کی کوئی رقم جبراً اور ظلم سے وصول نہ کی جائے۔چنانچہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ سے واپس ہوئے تو راستے میں سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں اس صلح کو فتح مبین کہا گیا۔اس معاہدہ سے بطور اسوۂ حسنہ یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کے سربراہ اگر کافروں سے صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا نفع سمجھیں تو صلح کر لینا جائز ہے اور اگر صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو پھر صلح جائز نہیں کیونکہ یہ فریضہ جہاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدہ سے ایک اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں سے معاہدہ کے وقت بلامعاوضہ اور معاوضہ دے کر اور معاوضہ لے کر تینوں طرح معاہدہ جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد یہود مدینہ سے معاوضہ لیے اور دیئے بغیر معاہدہ فرمایا اسی طرح معاہدہ حدیبیہ میں بھی معاوضہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصارائے نجران سے جو معاہدہ فرمایا اس میں مال لینے کی شرط ٹھہرائی اس معاہدہ میں یہ تھا کہ اہل نجران ہر سال دو ہزار یمنی چادروں کے جوڑے دیں گے ایک ہزار صفر میں اور ایک ہزار رجب میں اور غزوۂ احزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی نصف کھجوریں دے کر صلح کا ارادہ فرمایا معلوم ہوا کہ معاہدہ میں معاوضہ کی تینوں صورتیں جائز ہیں۔

معاہدات کے بارے میں اسوۂ حسنہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ معاہدات کو لکھوا لینا چاہیے۔ جیسا کہ احادیث اور تاریخ کی کتب میں مختلف معاہدات کے لکھنے کا حکم موجود ہے جیسے معاہدہ صلح نامہ ’’حدیبیہ‘‘ اہل نجران سے کیا گیا معاہدہ‘ ثقیف سے کیا گیا معاہدہ، بنو ثقیف کے مسلمانوں سے کیا گیا معاہدہ، دومۃ الجندل کے باشندوں کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ، ہجر کے باشندوں کے لیے معاہدہ، اہل مدینہ اور یہود کے درمیان کیا گیا مشہور معاہدہ۔معاہدات کے بار ے میں اسوۂ حسنہ سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کسی بات پر معاہدہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ جب اہل نجران نے معاہدہ کے وقت خلاف اسلام شرائط پیش کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ماننے سے انکار فرمایا اور معاہدہ نجران میں یہ لکھوایا کہ یہ ان پر پابندی ہو گی کہ یہ سود نہیں لیں گے اور جو سود لے گا وہ معاہدہ سے خارج ہو جائے گا۔

معاہدات کے بارے میں یہ ادب بھی اسوۂ حسنہ سے معلوم ہوا کہ عہد نامہ کی دو نقلیں ہونی چاہئیں تاکہ ہر فریق کے پاس ایک ایک کاپی محفوظ رہے۔ جیسا کہ صلح نامہ حدیبیہ کی ایک کاپی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی اور دوسری کاپی سہیل بن عمرو کے پاس رہی۔معاہدات کے لیے ایک بات یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی کہ جب معاہدہ ہو جائے تو دونوں فریقوں کے ذمہ دار افراد ان دستاویزات پر دستخط کریں۔ جیسا کہ حدیبیہ میں جب عہد نامہ لکھا گیا تو مسلمانوں کی طرف سے حضرت ابوبکرؓ بن ابی قحافہ، حضرت عمرؓ بن الخطاب‘ حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح نے دستخط کیے اور معاہدہ لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی دستخط فرمائے اور مشرکین کی طرف سے بھی کئی افراد نے دستخط کیے ان میں سے ایک حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کے دستخط ہوئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی معاہدے فرمائے ان میں یہ بات بہت نمایاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدات میں انسانی حقوق کا خوب خیال رکھا۔ ہر علاقہ کے شہریوں کو بنیادی حقوق عطا فرمائے‘ مذہبی حقوق بھی دیئے۔ چنانچہ معاہدات میں عقیدوں کی آزادی رکھی جاتی ہے۔ کسی شہری کو اپنا مذہب چھوڑنے اور اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ عبادت کی آزادی دی گئی اور ثابت کیا کہ اسلام کے زیر سایہ رہنے والے غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہتی ہیں۔ چنانچہ معاہدہ نجران میں یہ بات شامل تھی کہ اہل نجران کی جان و مال، مذہب، عبادت گاہیں اور ان کے راہب محفوظ رہیں گے۔

اگر ہم عام زندگی کا جائزہ لیں تو اس میں بھی معاہدے اور زبان کی اہمت بیان فرمائی گئی ہے ۔زبانی اور تحریری معاہدات کی اپسدارئی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ہم روززمرہ کی زندگی میں ان امور کا خیال نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کون دیکھ رہا ہے، ہم سب کو بلا شبہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ،یہ شریعت کی بھی خلاف ورزی ہے۔اس سے بچنے کا حکم ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں سے معاہدہ فرمایا ان کے معاشی اور تجارتی حقوق کا بھی خیال رکھا۔ چنانچہ بنو ثقیف کے معاہدے کی یہ شق بھی تھی اور اس میں اس کی واضح مثال موجود ہے اور پھر معاہدات کی پابندی اور پاسداری کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے ان معاہدات کی پابندی اور پاسداری کا ایک اعلیٰ معیار امت کے سامنے رکھ دیا۔ اس لیے کہ وہ

ذات امین اور صادق ہے جس کے معاہدات بھی دین اسلام کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔اللہ رب العزت ہمیں زندگی کے تمام معاہدات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے آداب کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ دنیا میں یہ معاہدات امن و سکون اور باہمی اعتماد کا ذریعہ بنیں اور آخرت کی فلاح کا سبب بنیں۔
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
ذات امین اور صادق ہے جس کے معاہدات بھی دین اسلام کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔اللہ رب العزت ہمیں زندگی کے تمام معاہدات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے آداب کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ دنیا میں یہ معاہدات امن و سکون اور باہمی اعتماد کا ذریعہ بنیں اور آخرت کی فلاح کا سبب بنیں۔
آمین
بہت عمدہ دینی معلومات
جزاک اللہ
 

@Maria-Noor
پسند اور جواب کا شکریہ

وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top