Quran Hadith Islam Mein Aman Aur Salamati ka Mafhoom By Allama Mufti Abu Umair Saif Allah Saeedi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اسلام میں امن وسلامتی کا مفہوم

qurana.jpg

تحریر : علامہ مفتی ابو عمیر سیف اﷲ سعیدی
اسلام میں امن وسلامتی کا مفہوم دولحاظ سے شامل ہے ۔(۱)لازم (۲)متعدی ، لفظ اسلام اپنے معنی لازم کے اعتبار سے امن وعافیت کو پالینے اور ہر قسم کے خوف وخطرے سے محفوظ ہوجانے سے عبارت ہے ،لہٰذا مسلم وہ شخص ہے جو اسلام کے باعث دنیا او رآخرت میں امن وعافیت پالے ’’لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون ‘‘کا مصداق بن کر ہر خوف وغم سے محفوظ ہوجائے،کیونکہ اسلام اپنے پیروکاروں کے مصائب ومشکلا ت سے حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتاہے ۔
اس لئے امن وعافیت کا یہ مفہوم دین اسلام کے تمام پہلوؤں اور علمی وعملی گوشوں میں پوری طرح جاری وساری ہے اس لئے اسلام ہی حقیقت میں راہ فلاح ونجا ت ہے ،اسلام کادوسرامعنی متعدی کے اعتبار سے اسلام دوسروں کو امن وسلامتی اور حفاظت وعافیت مہیاکرنے سے عبارت ہے۔ اس لحاظ سے مسلم وہ شخص ہے جو دوسروں کیلئے باعث ِامن وعافیت ہو ۔جس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو سلامتی اور حفاظت کا احساس میسر آئے جیسا کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا ترجمہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کی جان مال اور عزت وآبرومحفوظ ہو‘‘(بخاری)
قرآن کریم میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جب تک دنیائے انسانیت کفر کے تغلب اور ظالمانہ تسلط کے خاتمہ کے ذریعے امن وعافیت کی دولت سے ہمکنا ر نہ ہوئی تھی اس وقت تک ’’دین کی تکمیل ‘‘کا اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ تکمیل اسلام کا اعلان دنیا کو امن وسلامتی مہیا کرنے کی ضما نت دئیے بغیر ممکن نہ تھا اس لئے ارشادفرمایا ’’آج کے دن کافر تمہا رے دین (کی تکمیل )سے مایوس ہو گئے ، بس تم ان سے نہ ڈرو،مجھ سے ڈرو،آج کے دن میں نے تمہا را دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطو ر ابدی دین کے منتخب کرلیا ۔ (سورہ المائدہ )اور مسلم کی تعریف کرتے ہوئے ،باربا ر یہ ارشاد فرمایا ،ترجمہ ’’پس نہ کوئی خوف ہوگا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے ،(سورہ ا لبقرہ ) اﷲتعالیٰ کے خاص بندوں کی عظمت وشان کا تذکرہ بھی ان الفاظ میں فرمایا گیا ۔ ترجمہ ’’یا د رکھو اﷲکے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہو تا ہے اور نہ ہی غم والم (سورہ یونس )گویا بندے کے دل سے جب خد اتعالیٰ کے سوا ہر چیز کا اندیشہ وخوف نکل جائے اور وہ دنیا کے رنج والم سے بے نیا ز ہوجائے تواسی کیفیت کانام اسلام کی حقیقت کا اس کے باطن پر وارد ہو نا ہے۔
سلام ایک ایسی عظیم چیز ہے جو جھگڑوں کو ختم کردیتی ہے ۔ آدمی سلام نہ کرے تو برا سمجھاجاتا ہے اور اگر سلام کرلے تو جاہل بھی جھک جائیں گے کہ یہ بڑا اچھا آدمی ہے سلام کر رہا ہے ۔ اس واسطے فرمایا گیا اگر باہم دشمنیاں بھی ہوں ، عداوتیں بھی ہوں ، اگر دشمن کو آپ سلام کریں گے تو دشمنیاں کمزور پڑ جائیں گی۔ وہ وَعَلَیْکُمْ السَّلَامُ کہنے پر مجبور ہوگا۔ جس کا مطلب ہے کہ تمہارے لیے بھی سلامتی ہو ۔ جب سلامتی کی دعادے گا تو جھگڑا اُٹھائے گا کیوں؟ خود کہہ رہا ہے کہ اللہ تمہیں صحیح سلامت رکھے تو دعا بھی دے اور اوپر سے جھگڑا بھی اُٹھائے؟ اس سلام نے ساری دشمنی ختم کردی ۔ اس واسطے حدیث میں فرمایا گیاکہ:
’’ تُقْرِیُٔ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفْ‘‘ (بخاری ، مسلم)
ترجمہ:’’ سلام کرنے کی عادت ڈالو، خواہ تعارف ہو یا نہ ہو۔‘‘
یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر مسلمان سے ملاقات کے وقت سلام کرنا سنت ہے لیکن کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔ عام طور پر معاشرہ میں یہ عادت نظر آتی ہے کہ جب ہم کسی کو سلام کریں السلام علیکم، تو جواب میں دوسرا شخص بھی یہی کہتا ہے السلام علیکم، اس طرح کرنے سے دوسرے شخص کے ذمہ سے واجب ادا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس نے بھی پہلے شخص کے انداز میں سلام کر دیا حالانکہ اسے سلام کا جواب اس طرح دینا چاہیے تھا وعلیکم السلام۔
ارشاد بار ی ہے:
{وَاِذَاحُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَا اَوْرُُدُّوْہَا}
یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس کا اس سے اچھا جواب دو یا کم ازکم اس کا جواب ہی دے دو اچھا جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہلا شخص صرف السلام علیکم کہے تو آپ جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کہہ دیجیے۔
آج کے زمانہ کا تمدن یہ ہے کہ جب تک تیسرا آدمی تعارف نہ کرائے ،نہ بول ،، نہ چال ، نہ سلام ، نہ کلام ، یہ متکبرانہ تمدن ہے ۔ یہ اسلام کا تمدن نہیں ہے ۔ اسلام کا تمدن یہ ہے کہ جب ہم میں اور تم میں اسلام کا رشتہ مشترک ، اسلامی اخوت اور بھائی بندی پھیلی ہوئی ہے تو کیا ضرورت ہے کہ کوئی تیسرا تعارف کرائے ۔ پہلے سے ہی تعارف حاصل ہے ۔ یہ ہمارا بھائی مسلمان ہے ۔ اس میں اسلام بھرا ہوا ہے ۔ ملیں تو یہ انتظار نہ کریں کہ دوسرا مجھے سلام کہے ۔ بلکہ سلام کرنے میں پہل کیجئے اس میں زیادہ ثواب ہے۔
حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ یہودیوں کا سلام انگلیوں سے ہے ، نصاریٰ کا سلام ہتھیلی سے ہے اور مسلمانوں کا سلام اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ ہے۔ یعنی یہود و نصاریٰ کا سلام صرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کا سلام ایک مستقل دعا ہے کہ تم پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں ، برکتیں تم پر نازل ہوں ۔ ہر مسلمان دوسرے کو دعادے ۔ اس سے اس کی خیر خواہی اور محبت ظاہر ہوگی ۔ تعلق بھی مضبوط ہوجائے گا۔ قصہ مشہور ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جن آگیا ۔ تو اسے خطرہ لاحق ہوگیا کہ یہ تو کھاجائے گا ۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا ماموں جان !سلام ۔ علامہ اقبال اسلام کی حقیقت کا ذکر فرماتے ہیں ۔
ہر کہ رمزلاالہ فہمیدہ است
شرک رادرخوف مضمر دیدہ است
جب اہل اسلام نے نبی کریم ﷺکی زیر قیادت مکہ معظمہ کو فتح کیا ،تو اس وقت آپ علیہ السلام نے کفار ومشرکین کو عام معافی کی ،نوید سناتے ہوئے اور انہیں خونریزی سے پناہ دیتے ہوئے ،یہ اعلان فرمایا !’’جو کوئی اسلام قبول کرے گا یابیت اﷲشریف میں داخل ہوگا یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گا وہ امن وعافیت میں ہوگا‘‘(سنن ترمذی )ابو سفیان کے گھر کو ’’خانہ امن ‘‘بنادینے کا پس منظر یہ تھا کہ ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا تھا اور یوں اس نے خود بھی امن وعافیت کی دولت پالی تھی اور دوسروں کیلئے بھی اپنی ذات اور اپنے گھر کو حفاظت وپناہ خواہی کا مرکز بنالیا تھا ۔حضور سرکار دوعالم ﷺنے اپنے متعددارشادات میں اسلام کے معنی ومفہوم کوواضح کیا ۔ایک موقع پر فرمایا’’ وہ ایماندار نہیں جو صاحب امانت نہیں اور جو اپنے عہد پورے نہ کرے اسکا کوئی دین نہیں ‘‘(مشکوٰۃ شریف )ایک موقع پر ارشادفرمایامسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ اس پر ظلم کر تا ہے اور نہ ا س کو کسی (ظالم)کے سپرد کرتا ہے ۔(بخاری ومسلم )
گویا کہ کوئی شخص دوسروں کیلئے کسی اذیت ،کسی غم ،پریشانی اور ذلت ورسوائی کاباعث نہ بنے وہی مسلمان ہے ۔ارشاد نبوی ﷺہے کہ مومن مومن کا آئینہ ہے نیزمومن مومن کابھائی ہے وہ اس سے ایسی چیزیں دور کرتا ہے جس میں اسکی ہلاکت ہے اور غائبانہ اسکی حفاظت کرتا ہے ۔(ترمذی )
گویا مسلمان وہی ہوگا جو مندرجہ بالااحاد یث کے مضمون کے مطابق دوسروں کیلئے مجسمہ امن وعافیت اور سرچشمہ ٔ حفاظت وسلامتی ہواور اگر کوئی شخص موقع ملنے پر اپنے مسلمان بھائی کا گلا کاٹنے سے گریز نہ کرے اس کے جائز مسائل بھی رشوت لئے بغیر حل نہ کرے اسکی ضرورت اوراحتیاج سے غلط فائدہ اُٹھائے ،غلط ونارواہتھکنڈوں سے معاشرے اور سماج کا استحصال کرے تو ایسا شخص مسلمان کہلانے کا ہرگز حق دار نہیں ہے ،اس کے سیاہ اور بھدے چہرے پر یہ تاج سروری زیب نہیں دیتا ،مسلمان وہی شخص ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے ہر مسلمان اسکی ماں ،بیٹی اور بہن اور ہمسایہ پور ی طرح محفوظ ہو ۔اسی لئے اس موقع پر حضورؐ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا ،’’خد اکی قسم وہ مومن نہیں‘‘ جب آپؐ نے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے تو صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲکون مومن نہیں آپؐ نے فرمایا وہ شخص جس کے شر سے ہمسائے محفوظ نہ ہوں(مشکوٰۃ )۔حق تعالیٰ نے امت محمدیہ پر کتنا بڑا انعام فرمایا یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا صدقہ ہے۔
اس سورہ کا نام سورۂ قدر ہے اس میں شب قدر کی چار خصوصیتیں ذکر کی گئی ہیں۔ (۱) نزول قرآن ہوا (۲) ملائکہ کا نزول ہوتا ہے (۳) ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت ہے (۴) صبح صادق تک خیر و برکت امن و سلامتی کی بارش ہوتی رہتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر میں جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں (یعنی زمین پر) اور ہر اس شخص کے لیے جو (اس رات میں) کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہا ہو اور عبادت میں مشغول ہو دعائے رحمت کرتے ہیں۔
اور تفسیر خازن میں یہ بھی ہے کہ ایسے آدمی کے لیے جو اس رات میں مصروفِ عبادت ہو سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ شب قدر کی بڑی فضیلت ہے اسی وجہ سے اس کو تلاش کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ نے دس دنوں کا اعتکاف فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی جگہ میں سے اپنا سر باہر نکال کر فرمایا میں نے پہلے دہائے میں اعتکاف کیا، پھر دوسرے دہائے میں اعتکاف کیا اس کے بعد مجھے شب قدر عطا کی گئی اور بتلایا گیا کہ وہ (شب قدر) آخری دہائے میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے:
’’جس شخص نے شب قدر میں قیام کیا ایمان اور طلب ثواب کے لیے‘ بخش دیئے جاتے ہیں اس کے گذشتہ گناہ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے فتنہ وفساد کے ظہور ،خون خرابہ اورا کثریت سے قتل وغارتگری سے لوگوں کوخبردارکرتے ہوئے ارشادفرمایا!زمانہ قریب ہوتاجائے گا ،عمل گھٹتا جائے گا،بخل پید اہوجائیگا ،فتنے ظاہرہونگے اور ہرج کی کثرت ہوجائے گی۔لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲﷺ!ہرج کیاہے؟فرمایا کہ قتل (یعنی کثرت سے قتل عام)جب ایک مرتبہ پرامن اوربے گناہ شہریوں کوظلم وستم ،جبروتشدداور وحشت وبربریت کانشانہ بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی وسیاسی شخصیات کی محض فکری ونظریاتی اختلاف کی بناء پرٹارگٹ کلنگ کی جائے تو اس دہشت گردی کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج ،افراتفری،نفسانفسی،بدامنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے ۔انہی گھمبیر اورخطرناک حالات کی طرف امام ابوداؤد سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے ۔حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہا بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲﷺکی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺنے فتنو ں کاذکر فرمایا ۔پس کثرت سے ان کاذکر کرتے ہوئے فتنہ احلا س کاذکر فرمایا ۔ کسی نے پوچھا کہ یارسول اﷲ ﷺ!فتنہ احلا س کیاہے؟آپ ﷺنے فرمایا کہ وہ افراتفری ،فسادانگیزی اور قتل وغارتگری ہے۔(ابوداؤد)
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبا دت بھی قبول نہیں ہو گی ۔حضرت عبد اﷲبن صامت رضی اﷲتعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا جس شخص نے کسی مومن کوظلم سے (بے گناہ)قتل کیا تواﷲتعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا ۔(ابوداؤد)دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی،مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کے لئے حضور نبی کریم ﷺنے ان کی ہرقسم کی مددواعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا ،جوشخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا وہ رحمت الٰہی سے محروم ہوجائے گا۔فرمان رسول ؐہے ’’جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اﷲتعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا ۔(یہ)اﷲکی رحمت سے مایوس شخص ہے۔(ابن ماجہ )
اسلام اپنے ماننے والوں کونہ صرف امن وآشتی ،تحمل وبرداشت اورایک دوسرے سے محبت کی تعلیم دیتا ہے،بلکہ ایک دوسرے کے عقائد ونظریات اور مکتب ومشرب کااحترام بھی سکھاتاہے۔اعتقادی ،فکری یاسیاسی اختلافات کی بنیا دپر مخالفین کی جان ومال یامقدس مقامات پرحملے کرنا صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔خودکش حملوں اوربم دھماکو ں کے ذریعہ اﷲکے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور معصوم وبے گناہ لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام وہ دین ہے جو بندے کا خد اکی ذات سے اطاعت وانقیادکا ایسا مستحکم تعلق استوار کردے کہ پھر اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی اور سے نہ کوئی غرض ہو ،نہ کوئی فکر ،خد اکی ذات سے یہ تعلق اسے امن وسکون ،راحت وآرام کی دولت سے مالا مال کردے لہٰذا اگر خدا کی ذات پر اسے کامل بھروسہ (توکل )ہو۔اس کی ذات سے والہانہ محبت وشگفتگی پیداہوجائے اور اس کے جذبات احکامِ خداوندی کی تعمیل وتکمیل سے مملو رہنے لگیں تو اس صورت میں وہ صحیح معنو ں میں مسلم کہلانے کا مستحق ہو گا ۔
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
اہم اور مفید دینی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top