Quran Hadith Islam mein samaaji tahfiz ki ahmiyat By Maulana Fazal Ur Raheem Ashrafi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اسلام میں سماجی تحفظ کی اہمیت
تحریر : مولانا فضل الرحیم اشرفی

{عن النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺمثل المؤمنین فی توادہم و تراحمہم و تعا طفہم مثل الجسد اذاشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمی۔} (متفق علیہ)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا’’ مسلمانوں کی مثال باہم محبت کرنے، آپس میں رحم دل ہونے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کے جب اس کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بھی بیداری اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہونے کو پکاراٹھتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرما کر مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم فرما دیا پھر یہ انسان مل جل کر زندگی گزارنے لگا، یہاں سے سماجی زندگی کا آغاز ہوا۔ یہی سماج معاشرہ اور سوسائٹی کہلاتا ہے، اس میں رہنے والے افراد فطری طور پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے زندگی گزارنے لگے، اب انسان میں جہاں تعاون کے مثبت جذبات ہیں جیسے ہمدردی، محبت، بھائی چارہ، ایثار و قربانی وغیرہ اسی طرح انسان میں منفی جذبات بھی ہیں جیسے نفرت، خود غرضی، لالچ، نفرت، حسد ، کینہ و بغض اور دشمنی وغیرہ ان آپس میں ٹکرانے والے جذبات کے نتیجہ میں انسانوں کو ایسے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس کے نتیجہ میں انسانوں کو سماجی تحفظ یعنی سوشل سیکورٹی حاصل ہو۔
چنانچہ دور جدید میں جہاں اور علوم نے ترقی حاصل کی وہاں عمرانیات یعنی سوشیالوجی بھی ایک مستقل علم اور سائنس بن کر سامنے آچکا ہے اور اس پر جدید ترین تحقیقات سامنے آرہی ہیں لیکن ایک حقیقت بہرحال قابل توجہ ہے کہ خالق کائنات اللہ رب العزت جو انسانوں کا بھی خالق و مالک ہے اس ذات نے اسلامی تعلیمات کے ذریعہ انسانوں کو سماجی تحفظ حاصل کرنے کے جو بنیادی اصول عطا فرمائے وہی اصول آج بھی مکمل طور پر قابل عمل اور مسلم ہیں اور انشاء اللہ قیامت تک رہیں گے۔ سماجی تحفظ سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان کو جان، مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہو۔ا سلامی معاشرہ ایسا معاشرہ کہلائے گا جو خالص اسلامی فکر و عمل کے نظام پر قائم ہو۔چنانچہ رسول اللہ ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں سماجی تحفظ کا اصول امت مسلمہ کو عطا فرمایا۔
{ایہاالناس ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام الی ان تلقوار بکم کحرمۃ یومکم ہذا وکحرمۃ شھر کم ہذا فی بلدکم ہذا}
’’اے لوگو! تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں جیسے اس ذی الحج کے ماہ میں اس حج کے دن کی تمہارے اس شہر میں۔‘‘
اسلام نے سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر انسان پر کچھ ذمہ داریاں لازم کر دی ہیں۔ یہ ذمہ داری جو ایک انسان پر فرض ہے وہی ذمہ داری دوسرے انسان کا حق ہے گویا کہ حقوق و فرائض کی ادائیگی سماجی تحفظ کی ضمانت ہے۔جدید دور میں انسانی زندگی وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی ہے چنانچہ ہر کام کے لیے مستقل ادارے بننے شروع ہو گئے، تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے بن گئے۔ تفریح کے لیے تفریحی ادارے وجود میں آگئے، پھر ایک وقت آیا کہ سماجی تحفظ کے لیے سوشل سیکورٹی کے مستقل ادارے بن گئے۔ یہ سماج اور سوسائٹی کے انسانوں کے لیے یقینا انتہائی مفید ہیں لیکن ایک قابل توجہ پہلو یہ سامنے آنے لگا کہ لوگوں نے اپنے فرائض کی فکر اب ان اداروں کے سپرد کر دی۔ چنانچہ معاشرے کے انسانوں نے سماجی تحفظ کی ذمہ داری بھی اداروں کی ذمہ داری سمجھنی شروع کر دی جس سے سماجی ڈھانچہ متاثر ہونے لگتا ہے اس لیے کہ انسان کے لیے سماجی تحفظ کے آغاز کو دیکھاجائے تو سب سے پہلے بچے کو اپنے ماں باپ سے سماجی تحفظ کا احساس ملتا ہے اور یہیں سے وہ یہ درس بھی لیتا ہے کہ مجھے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے دوسرے کی جان اور اس کے مال اور اس کی عزت کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر بچوں کو ماں باپ سے اور نوجوان کو خاندان سے سماجی تحفظ نہ ملے تو پھر نئی نسل بے راہ روی کا شکار بنتی ہے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کو اگر ایک دوسرے سے ذاتی طور پر اور خاندانی طور پر سماجی تحفظ نہ ملے تو یہی گھرانہ بے شمار مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر بزرگوں کو سماجی تحفظ اہل معاشرہ فراہم نہ کریں تو پھر یہی اہل معاشرہ اپنے بزرگوں کو معاشرت سے کاٹ کر اولڈ ہائوس میں پہنچا دیتے ہیں جیسے یورپ میں ہو رہا ہے۔
لیکن اسلام چونکہ ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے اس لیے رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ’’ تم ایمان والوں کو باہمی شفقت، محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی طرح پائو گے اگر جسم کا ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ‘‘۔ــ
چنانچہ اگر ایک گھر میں ، ایک خاندان میں یا ایک شہر میں کسی فرد کو تکلیف پہنچے اور باقی افراد اس کی تکلیف اور دکھ کو محسوس کر کے ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبات کے ساتھ اس مصیبت اور دکھ کو دور کرنے کا فریضہ انجام دیں تو پھر یقینا وہ معاشرہ ایسا معاشرہ ہو گا جس میں ہر فرد کو سماجی تحفظ حاصل ہو گا۔
اسلام نے افراد معاشرہ کو جو سماجی تحفظ فراہم کیا اس میں خاندان، برادریوں، قبیلوں کو بنیاد نہیں بنایا اور نہ رنگ نسل اور زبان کو بنیاد بنایا۔ جس طرح مسلمان رعایا کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت اور ان کی خوشحالی کو اسلامی حکومت کا فریضہ قرار دیا اسی طرح غیر مسلم اقلیت کا سماجی تحفظ اور ان کی خوشحالی بھی اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ اسلام نے سماجی تحفظ کے بارے میں جو اصول عطا فرمائے ان سے پرسکون اور پاکیزہ معاشرہ نصیب ہوتا ہے۔ اسلام نے بظاہر ان معمولی باتوں پر بھی توجہ رکھنے کی تعلیم دی جن کی وجہ سے کسی کے تحفظ میں خلل آنے کا امکان ہو۔
جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺہے کہ’’ جو شخص تم میں سے ہماری مسجدوں میں آئے یا بازار سے گزرے تو وہ تیروں کے تیز حصے پر ہاتھ رکھ لے تاکہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے‘‘ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:
{لا یشیر احدکم علی اخیہ بالسلاح}
یعنی’’تم میں سے کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کہیں اچانک اس سے کسی کو نقصان نہ پہنچ جائے۔‘‘
اسلام نے سماجی تحفظ کے ضمن میں ماحول کو بھی پاکیزہ بنانے کی تلقین کی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺنے راستہ سے گندگی اور تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا۔اس ضمن میں اسلامی حکومت پر بھی فرائض عائد ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورۂ حج کی اکتالیسویں آیت میں ارشاد فرمایا،’’ وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔اس ارشاد ربانی میں اسلامی مملکت کے چار بنیادی اصول ذکر کیے گئے اس کے نافذ ہونے کے بعد باقی تقاضے سامنے آتے ہیں۔
دراصل اسلامی مملکت سے مراد کسی زمین کا وہ حصہ ہے جہاں اسلامی قوانین نافذ ہوں اور مسلمان ان قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوں لوگوں کو اختیار صرف اسلامی قوانین نافذ کرنے کا ہو ایسی اسلامی مملکت صرف حکومت یا ملک ہی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی نیابت اور خلافت بھی ہوتی ہے اس لیے کہ قانون تو صرف وہاں اللہ ہی کا ہو گا دوسرے الفاظ میں اقتدار اللہ تعالیٰ کا ہو گا اور انسان کا کام صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ کرنا ہے اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ کیسے ہے۔
اس لیے اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرضْ سے اسلامی فلاحی مملکت کے دو بنیادی تقاضے معلوم ہوئے فرمایا ’’اگر ہم ان لوگوں کو اقتدار زمین میں دیں‘‘ لہٰذا اقتدار اعلیٰ تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہوا اوردوسرا بنیادی تقاضا یہ ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے احکام کو نافذ کرنے میں۔پھر اس اسلامی مملکت کا تقاضا یہ ہے کہ عبادات بدنیہ اور عبادات مالیہ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے، اسلامی مملکت میں اسلام کا اپنا قانون نافذ نہ ہو تو اس ریاست کا وجود ہی اپنے ’’اسلامی مملکت‘‘ ہونے کی نفی کرت دیتا ہے کیونکہ اسلام کا اپنا قانون شہادت ہے فوجداری اور دیوانی قانون ہے تعزیرات اور حدود ہیں، خرید و فروخت ، نکاح و طلاق ضمانت و کفالت، ہبہ اور وراثت کے لیے قوانین موجود ہیں تجارت اور کاروباری امور کے لیے اسلام میں تفصیلی قانون موجود ہے زمین اور دیگر جائیداد غیر منقولہ کی خریدو فروخت کے لیے مستقل ضابطے موجود ہیں اگر مسلمان اقتدار ملنے کے باوجود اسلامی مملکت کے اس تقاضے کو پورا نہ کریں تو یقینا اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔
اسی طرح اسلامی فلاحی مملکت کے لیے یہ بھی ایک اہم تقاضا ہے کہ اسلامی مملکت کا دستور اور آئین کتاب و سنت کے نظام کے مطابق ہوں اسلامی مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو کتاب و سنت کے احکام کے خلاف ہو نہ وہ شریعت کا کوئی حکم منسوخ کر سکتی ہے اور نہ کسی حکم میں کمی بیشی کرنے کی جرأت کر سکتی ہے۔
فلاحی مملکت کا ایک اور اہم تقاضا یہ ہے کہ مملکت کے ہر شہری کے حقوق کی حفاظت اور ان کی نگہداشت مملکت کے ذمہ ہے ان حقوق میں عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت بنیادی تقاضا ہے ذمہ داران مملکت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ خود بھی بنیادی حقوق کو سلب نہ کریں اور کوئی دوسرا ان حقوق کو سلب کرے تو اس کے لیے سخت سزائیں دی جائیں تاکہ شہری زندگی میں امن و سکون ہو۔
اسلامی فلاحی مملکت کا ایک اور اہم تقاضا سورۂ انفال کی آیت نمبر ساٹھ میں موجود ہے جس میں مسلمان کو اپنی حفاظت کے لیے اتنی تیاری کا حکم دیا گیا ہے کہ بیرونی دشمن اسلامی مملکت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہ کرے اور اس دفاعی نظام کو مضبوط ترین بنانے کے لیے عمدہ فوجی تربیت اور طاقتور جدید اسلحہ کی فراہمی کا انتظام کرنا بھی اسلامی مملکت کے تقاضوں میں شامل ہے۔ اسلام نے بیرونی اور اندرونی معاملات کے لیے صحابہ کرام کے عمل کو بڑے واضح الفاظ میں بیان فرمایا:
{اشِدَّا ء عَلَی الکُفَارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ}
’’کفار کے لیے انتہائی سخت آپس میں انتہائی مہربان۔‘‘
اس لیے اسلامی مملکت فلاحی مملکت اس وقت کہلائے گی جب وہاں کے شہریوں میں محبت و الفت کی فضا موجود ہو اور ذمہ دارانِ مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ وہ ان تمام امور کی نگرانی کریں جن سے تعصب کی آگ بھڑکتی ہو اور قومی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہو اس لیے کہ قومی وحدت کے بغیر کوئی مملکت فلاحی مملکت نہیں کہلا سکتی۔
جب قومی وحدت موجود ہو تو امن و سکون ہو گا اور پھر مملکت میں معاشی اصلاح کی کوششیں کامیاب ہوں گی، ملک خود کفیل ہو گا اور دوسرے ممالک اسلامی مملکت کی کمزور معیشت کو دیکھ کر اصولوں کی سودے بازی پر مجبور نہ کر سکیں گے اور اس اسلامی مملکت میں معاشرتی اصلاح پر بھی بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے رسم و رواج کا خاتمہ، جہالت کا خاتمہ اور تعلیمی سہولتیں عام کرنا، ایک بہترین معاشرہ قائم کرنے کی ضامن ہوتی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں اسلامی فلاحی مملکت کا ایک یہ تقاضا بھی واضح کیا گیا کہ سرکاری عہدوں پر ان لوگوں کو مقرر کیا جائے جو اس عہدہ کے اہل ہوں، امانت و دیانت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں ورنہ یہی نااہل افراد اسلامی مملکت کو فلاحی مملکت نہیں بننے دیں گے۔ایک اور اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلامی مملکت میں ذمیوں کو مکمل تحفظ ہو، ذمی اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو اسلامی مملکت میں باقاعدہ قوانین پر عمل کرتے ہوئے مملکت کے حقوق ادا کریں اور آجکل کی اصطلاح میں انہیں اقلیت کہتے ہیں ان کے حقوق کی حفاظت کرنا ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور ان کے جان و مال کی حفاظت اسلامی مملکت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اسلامی مملکت صرف مسلمانوں ہی کے لیے فلاحی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی فلاحی مملکت ہوتی ہے اور اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا ایک مستقل تشخص ہوتا ہے۔
ہر شہری کو عدل و انصاف مہیا کرنا اسلامی مملکت کا ایک انتہائی اہم تقاضا ہے اس کے بغیر کسی بھی ملک میں فلاح و بہبود کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، عدل و انصاف قائم کرنے میں وحدت انسانیت اور احترام آدمیت پر نظر رکھی جاتی ہے قانون مساوات کے ذریعہ امیر و غریب، خاص و عام کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ حکومت کا محاسبہ ہوتا ہے عدلیہ اتنی آزاد ہو کہ جیسے خلافت راشدہ کے دور میں خلیفہ وقت کو بھی عدالت میں جواب دینا پڑتا تھا۔عوام کی بنیادی ضروریات کی کفالت بھی فلاحی مملکت کا ایک تقاضا ہے جن کے لیے پہلے زکوٰۃ اور دیگر مالی واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے پھر اس کو بیت المال کے ذریعہ موثر طریقے سے خرچ کیا جائے۔ ضعیف، معذور، اپاہج اور بوڑھے افراد کے وظائف مقرر کر دیئے جائیں۔اس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں معاشرے کا ہر فرد جب اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرے گا اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو جان مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرے گا تو یقینا ایک پرسکون اور مطمئن معاشرہ نصیب ہو گا۔


 

@intelligent086
ماشاءاللہ
اہم موضوعات پر مدلل اور مفصل مضمون
اہم اور مفید دینی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا’’ مسلمانوں کی مثال باہم محبت کرنے، آپس میں رحم دل ہونے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کے جب اس کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بھی بیداری اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہونے کو پکاراٹھتا ہے
ماشاءاللہ
سبحان اللہ
 
Back
Top