Islami Liberalism: Yahi Faisale ki Ghari Hai By Lala Sehraii Column

اسلامی لبرلزم: یہی فیصلے کی گھڑی ہے — لالہ صحرائی


مغرب کا لبرلزم مذہب سے نجات حاصل کرنے کا کوئی نسخہ نہیں بلکہ یہ بادشاہت، پاپائیت، موروثیت اور معاشرتی جمود کو تیاگ کر ہر فرد کو برابری کی سطح پر بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے ایک نیا سماجی و سیاسی طرز زندگی وضع کرنے کا فلسفہ تھا۔ اس فلسفہ کو کلاسک لبرلزم اور ماڈرن لبرلزم کے نام سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

سترہویں صدی کی مذہبی جنگوں کے خوفناک نتائج بھگتنے کے بعد مغرب میں عقلیت کی کئی تحریکیں سامنے آئیں جو مختلف فلاسفرز کی سیاسی تھیوریز پر مبنی تھیں، ان تھیوریز کی بنیاد پر مذکورہ اسٹیٹس۔کو ٹائپ فرسودہ سماجی سٹرکچر کو ترک کرکے فرد کی آزادی، سماجی برابری اور ملکیت کے یکساں حقوق
کی بنیاد رکھی گئی تھی، یہ لبرلزم کا پہلا دور یا کلاسک لبرلزم کہلاتا ہے۔

اس کے بعد کا زمانہ، تاحال، ماڈرن لبرلزم کا دور ہے جو سوشل جسٹس، سوشل ویلفئیر، برابری کے حقوق، جمہوریت، فری اینڈ فئیر الیکشن، ہیومن رائٹس، کیپٹلسٹ اکانومی، قوموں کے درمیان فری ٹریڈ، چرچ کی حکومت سے علیحدگی اور سماجی آزادی کی بات کرتا ہے۔
یہ دوسرا دور اٹھارہویں صدی کے فلسفی جان لاک John Locke سے شروع ہوتا ہے جسے ماڈرن لبرلزم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
جان لاک برطانوی فلاسفر اور فزیشن تھا، طب میں اس نے جگر کے انفیکشن سے متعلق کام کیا ہے اور فلسفے میں سیاست کے اوپر بہت کچھ لکھا جس کا واضع عکس امریکن ڈیکلریشن آف انڈی پنڈنس میں بھی شامل کیا گیا ہے، کیرولینا کا قانون بھی اسی نے ڈرافٹ کیا تھا، روسو اور والٹئیر کے علاوہ کئی دیگر فلسفی اور امریکی آزادی کے بیشتر فاؤنڈرز بھی جان لاک کے نظریاتی فالوورز میں شامل تھے۔

جو لوگ لبرل ازم کو مذہب سے باغی چیز سمجھتے ہیں وہ جان لاک کے یہ خیالات دیکھ لیں؛

Locke’s concept of man started with the belief in creation. We have been “sent into the World by God’s order, and about his business, we are his Property.
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ الحاد کے فروغ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اسے قطعیت کے ساتھ رد کرنا بہت ضروری ہے اسلئے کہ خدا کا انکار کرنے والی سوچ سماج میں فشار Chaos پیدا کرے گی۔
جان لاک بذات خود مذہب پسند آدمی تھا جو ابتداء میں ٹرینٹی یا عقیدہ تثلیث کا پیروکار تھا مگر بعد میں سسینیت کی طرف مائل ہو گیا، سوسینئین وہ لوگ ہیں جو خدا کی شان الوہئیت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، مزید یہ کہ جان لاک Essex کے ایک چرچ یارڈ میں ہی دفن ہے۔

جان لاک سے چند عشرے بعد ایک برٹش فلاسفر مَیری وولسٹون کرافٹ نے فیمینزم کی بنیاد رکھی تھی، ان کے فلسفے میں کل ملا کر یہی ایک بات تھی کہ سماج کے پولیٹیکل سسٹم میں خواتین کو بھی متناسب نمائندگی حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں، اس میں جنسی آزادی کا کوئی گزر نہیں تھا بلکہ مَیری وولسٹون کا کہنا یہ تھا کہ عورت کو صرف آسودگی حاصل کرنے کا ذریعے سمجھنے سے بڑھ کر ایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ مرد کی ماتحت اینٹٹی رہنے کی بجائے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے اپنا کیرئیر، کاروبار، نوکری، جیون ساتھی، جائیداد اور لائف اسٹائل چننے میں آزاد ہو، مَیری وولسٹون کے بعد اس کمپین کو جان۔سٹوارٹ۔مِل نے آگے بڑھایا تھا، ان کے فلسفے میں بھی یہی کچھ تھا۔
لبرلزم اور فیمینزم کی تشکیل میں بیشمار فلسفیوں کا ہاتھ ہے جنہیں فرداً فرداً ڈسکس کرنا ضروری نہیں اسلئے کہ ان تمام حضرات نے کوئی اپنی اپنی راہیں نہیں نکالیں بلکہ جو بنیادی مقصد تھا اسی کے تحت انہوں نے مختلف سماجی ضروریات، سیاسی معاملات اور قانونی امور کی توجیہات و پروسیجرز متعین کئے تھے۔جدیدیت کی اس تحریک کے آئینے میں حقیقی لبرلزم صرف اتنا ہی ہے کہ جہاں روائتی سوچ، روایتی طرز حیات اور فرسودہ سسٹم انسان کو سماجی آسودگی نہ دے سکے وہاں نئی سوچ، نئے طرز عمل اور نئے سسٹم کو جگہ دینی چاہئے، اس کی چار وجوہات یا جہات بیان کی گئی ہیں۔

1. Immanence of the God
2. Confidence in human reasons.
3. Primacy of the person.
4. Meliorism
(a belief that human nature is improvable, and world can be better by human efforts).
ماڈرن ازم کو سمجھنے کیلئے اگر ان چار جہات کا تفصیلی مطالعہ کریں تو ایک ورطۂ حیرت سامنے آتا ہے کہ وہ فلاسفرز خدا کی سکیم اور آفاقی حقیقتوں سے کس قدر قریب رہنے والے لوگ تھے، اس تحریک کو لبرلزم کہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسے غیر مذہبی افراد نے تشکیل دیا تھا جبکہ ان کے مقاصد میں مذہب کی حقیقی روح نظر آتی ہے۔

اس میں پہلی بات ہے امینینس آف گاڈ (خدا کا دخل)؛
یعنی کائنات میں جب خدا کا دخل و نفوذ موجود ہے تو یقیناً وہ صاحب تصرف ہونے کی بنا پر ہر صبح ایک نیا جہاں پیدا کرتا ہے، عام آدمی کیلئے ہر صبح ایک عام صبح ہے مگر یہ بات صرف تخلیقی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر صبح ایک نیا چیلنج لیکر آتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے زمانے کو بدلتی چلی جاتی ہے لیکن اپنے ماحول کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے خاطرخواہ محسوس نہیں کر پاتے، جس طرح گاڑی میں سوار بندہ جب تک باہر کی دنیا کو نہ دیکھے تب تک اسے حرکت اور تبدیلی محسوس نہیں ہوتی، اسی طرح جب ہم کچھ عرصہ بعد اپنے ماحول سے نکل کر کسی دوسری جگہ کو وزٹ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ جگہ کس قدر تبدیلیوں سے ہمکنار ہو چکی ہے، یہی کچھ ہمارے اپنے سماج میں بھی ہو رہا ہوتا ہے جو ہماری عصری ضروریات کو بھی پیہم بدلتا چلا جاتا ہے لیکن معمولات میں یکسانیت کے باعث عموماً یہ بدلاؤ ہمیں نظر نہیں آتا۔
اس حقیقت سے دو تقاضے پیدا ہوتے ہیں، پہلا یہ کہ کائنات ہمہ وقت جن تبدیلیوں کا شکار رہتی ہے ان کے تحت نئے تقاضوں سے نمٹنے کیلئے سماج کو بھی ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے، یعنی آبادی کیمطابق وسائل اور کرائسس مینجمنٹ میں خود کفیل ہونا چاہئے۔

دوسرا یہ کہ بدلتے ہوئے حالات میں افراط و تفریط سے بچنے کیلئے خدا کے دائرے میں رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ خالق ہونے کی بنا پر زمانی حقیقتوں اور ان کے تقاضوں کو بہتر جانتا ہے لہذا اس کا دیا ہوا ہیومن چارٹر ہی ایٹرنٹی اور ایٹرنل پیس کا حقیقی ضامن ہو سکتا ہے ورنہ افراط و تفریط میں اپنی بقا کی خاطر وسائل اپنے قبضے میں رکھنے کیلئے ایک طبقہ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کلیہ اختیار کرکے، تجاوز پر معمور ہو جائے گا تو دوسرے کو لازمی استحصال بھگتنا پڑے گا، یا ردعمل معاشرتی کنفلکٹ پیدا کرے گا۔
باقی تین نکات یہ کہتے ہیں کہ ایک پرائمیسی آف پرسن ہے، یعنی شرف انسانیت، اس کے تحت دوسرے انسان کو بھی وہی مقام ملنا چاہئے جس کا کوئی ایک حقدار ہو سکتا ہے، پھر ہیومن ریزنز، یعنی انسانی ضروریات کا احساس، کہ سماجی سسٹم اور وسائل میں ہر فرد کا حصہ اسے پہنچنا چاہئے۔

میلئیرزم یہ کہتا ہے کہ انسانی ذہن پیہم نمو کے تحت ہمیشہ آگے بڑھ رہا ہے، نئے ذہن کا انسان پرانے مظلوم و محکوم طبقے کی نسبت سوچ کے نئے زاویئے رکھتا ہے جسے جبر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، ایسا کرنے سے انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، پھر اس نئے ذہن کیساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ نوع انسان اس سے مثبت کام لیکر انسانی زندگی کو مزید بہتر بنا سکے۔

کل ملا کر بات یہ بنتی ہے کہ جب سماج میں موروثیت یا جبر کا غلبہ ہوگا تو معاشرے پر یاسیت اور جمود طاری رہے گا جبکہ تغیر پزیر آفاقی حقیقتوں کے تحت ہمیں بھی ہر وقت چوکس اور نمو پزیر سماج کی ضرورت ہے جو ہر فرد کی ذہنی و جسمانی آزادی اور آسودگی کے بغیر ممکن نہیں۔
ماڈرن ازم کی اس تحریک میں مغرب کیلئے سب تبدیلیاں خاطرخواہ مفید رہیں البتہ ان کے ہیومن چارٹر میں موجود شخصی آزادی کے نکتے سے دو ایسی سنگین قباحتیں برآمد ہوئیں جو نہ صرف ان کے بھی گلے پڑ گئیں بلکہ ان کی موجودگی نے لبرلزم کی اس تحریک کو مسلمانوں کے معاشروں میں بھی یکسر ناقابل قبول بنا دیا ہے۔
پہلی یہ کہ سیپریشن آف چرچ کوئی مذہب چھوڑ تحریک نہیں تھی بلکہ مذہبی جنگوں میں بے پناہ نقصانات اٹھانے کے بعد مذہب کو ڈنڈا بنا کے استعمال کرنیوالوں کو چرچ تک محدود کرکے سیاسی معاملات میں مذہبی عناصر کی دخل اندازی کا رستہ روکنا تھا تاکہ مذہبی لڑائیوں سے رخصت حاصل ہو جائے لیکن جہاں وہ اپنی آنے والی نسلوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے کہ انسانی زندگی میں “امینینس آف گاڈ” کا کتنا دخل ہے وہاں جان لاک کی تنبیہ کے باوجود وہ شخصی آزادی کی وجہ سے الحاد کو بھی کوئی روک نہ لگا سکے بلکہ اس آزادی کے تحت الحاد کے پھیلاؤ کیلئے باقائدہ منکرین کی انجمنیں بھی پیدا ہوگئیں۔

دوسری قباحت انڈسٹریلائزیشن کے دور سے گاہے بگاہے اٹھنے والی مختلف جنسی آزادی کی تحریکوں نے پیدا کی، اسے بھی شخصی آزادی کی وجہ سے وہ روک نہ پائے جو اب اپنی بھیانک ترین شکل میں موجود ہے۔
ہم جو مسائل اپنے لئے خود پیدا کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی سماجی تحریک کو فلوٹ کرنے سے پہلے اسے ایک تھنک ٹینک کے حوالے کرکے اس کے خدوخال وضع کرکے عوام کے سامنے لانے کی بجائے اسے ایک سادہ سے ریفرینس کے ذریعے عوام کی طرف اچھال دیتے ہیں، عوام جب اس سسٹم کے رول ماڈل کو دیکھتی ہے تو ان میں ردوقبول کرنے والے دو دھڑوں کا پیدا ہوجانا ایک لازمی امر بنتا ہے۔

ہمارے ہاں لبرلزم کے سوال پر بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ مذہبی طبقہ اس کے رول ماڈل میں موجود ان دو سنگین قباحتوں کے پیش نظر ایک طرف اسے قبول کرنے پر قطعاً راضی نہیں اور دوسری طرف اس نظریئے کی وکالت کرنے والوں کے سامنے سخت مزاحمت کیلئے بھی تیار رہتا ہے۔

لبرلزم کی وکالت کرنیوالے بھی اس تحریک کا اصل چہرہ سامنے لانے میں سو فیصد ناکام رہے ہیں، جہاں انہیں مولویت، موروثیت، اسٹیٹس۔کو اور فرسودہ سسٹم کو میرٹ سے ریپلیس کرنے کیلئے ایک روڈ میپ فراہم کرنا تھا وہاں یہ مسلسل دس سال تک خم ٹھونک کے اسٹیٹس۔کو کیساتھ ہی کھڑے رہے ہیں، حالانکہ اسی فرسودہ نظام کی سب۔ورژن درکار تھی جس کے بیشتر ایکٹ سن 1880 سے 1980 کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں اور عام آدمی کی بجائے صرف پریولیجڈ طبقے کے مفاد کو ہی اینٹرٹین کرتے ہیں۔

ہر مغرب پسند لبرل ایکٹیوسٹ کی وال پر آپ کو سب۔ورژن، یعنی آثارِ کہن کو بدل دو بلکہ لتاڑ دو، کے تحت کسی نئے سماجی و سیاسی فریم ورک کی بجائے صرف اس قسم کے مضامین نمایاں اور عددی اکثریت میں ملیں گے جو مذہب پر بے لاگ تنقید، الحاد کی ہم نشینی، فری تھنکنگ، نسوانی اور جنسی آزادی کے پرچارک ہوں یا مذہبی اور اخلاقی پابندیوں سے نجات حاصل کرنے پر مبنی ہوں، یہ شغل اختیار کرنا ان کی اپنی تعبیراتی غلطی ہے جس کا حقیقی لبرل ازم سے نظریاتی طور پر کوئی واسطہ نظر نہیں آتا۔

مغرب میں جدیدیت کی اس تحریک کو پروان چڑھانے والوں میں علمی معقولیت کا عنصر بدرجہ اولیٰ دیکھا جا سکتا ہے، جس میں لغویات کی بجائے کلی طور پر انسانی حقوق و ضروریات کا بیان ہے یا ان تک عوامی رسائی کیلئے پروسیجر پر گفتگو کی گئی ہے، ایسے تھنک ٹیکنس کو باقائدہ سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی جنہوں نے نئے سماجی نظام پر باقائدہ اپنی کتابیں یا مضامین پیش کرکے فلسفیانہ طور پر ایک معتبر نظریاتی ماحول پیدا کیا تاکہ اتفاق رائے پیدا ہو سکے، مثال کے طور پر جان لاک کا کردار واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے جس نے اس تحریک کو بلآخر دو ریاستوں کیلئے آئینی شکل میں ڈھال دیا۔
اس کے برعکس جب ہم یہاں کے لبرل ایکٹیوسٹ طبقے کو ان کی جستجو کے آئینے میں دیکھیں تو صاف الفاظ میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کسی طور بھی کسی نئے سماجی نظام کی صورت گری کرکے دینے کے اہل نہیں، بلکہ ان کی کل قابلیت محض سب۔ورژن تک ہی محدود تھی، وہ بھی کچھ ویسٹڈ انٹریسٹ کے تحت اور باقی بھیڑ چال میں غلط سمت میں اس طرح سے استعمال کر بیٹھے ہیں کہ اس تجاہل عارفانہ نے جدیدیت کا اصل چہرہ ہی گہنا دیا ہے بلکہ ناقابل قبول بنا دیا ہے۔

متوازی سطح پر موجود مذہبی عناصر کو بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ لبرلزم کے نام پر موجود ایکٹیوسٹ Prima facie یا اپنے افکار کے آئینے میں لبرلزم کا حقیقی نمائیندہ نہیں لہذا انہیں دیکھ کر ہمیں اس فلسفے کو کفر ہی نہیں سمجھ لینا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے لئے کوئی اجنبی چیز نہیں بلکہ یہ عین وہی چیز ہے جس کے تحت حضرت امیرالمؤمنینؓ نے قطع ید جیسی قطعی نص کو بھی انسانی سہولت کیلئے کچھ عرصے تک موقوف کر دیا تھا۔

ہم اس اسلامی لبرلزم کو کیوں نہیں اختیار کر سکتے جس میں اب کسی نص کو موقوف کرنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت صرف اس چیز کی ہے کہ ہم فتووں کو رستہ روکنے کی بجائے رستہ کھولنے کیلئے استعمال کریں، ہمیں مذہبی ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں جو تشدد پسند ہو، استحصال کرے یا گلے کاٹے، ہمیں لبرل ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں کہ مذہب ترک کر دیں یا مذہب کی تضحیک برداشت کر جائیں، ہمیں اس بات سے بھی مفر نہیں ہونا چاہئے کہ آئیندہ کی دنیا میں لبرلزم کے بغیر چارہ نہیں اور مذہبی ایمانیات بھی اپنی جگہ ناگزیر ہیں۔

آپ کے پاس بمشکل تمام صرف ایک دہائی ہے، یعنی صرف دس سال، اس میں آپ نے طمانیت بخش اور ترقی پسند مذہبی رجحانات کو متعارف نہیں کرایا تو آنے والے وقت میں آپ اس معاشرے کے اندر مغربی لبرلزم کو کسی صورت بھی روک نہیں سکتے۔

ان حالات میں ہمارے مذہبی اسٹیک ہولڈرز اور قومی پالیسی سازوں کو چاہئے کہ اس معاشرے میں شتر بے مہار قسم کا لبرلزم پھیلنے سے پہلے باہم مل جل کر اسی اسلامی لبرلزم کا احیاء ممکن بنائیں جو حضرت امیرالمؤمینؓ نے روا رکھا تھا تاکہ اس دنیاوی آسودگی کو ہم اپنی ایمانیات کیساتھ پا سکیں جو مغرب نے اپنا ایمان کھو کر پائی ہے، اگر ہم نے یہ وقت کھو دیا تو پھر یاد رکھنا چاہئے کہ مغرب پسند لبرلزم اپنی دونوں قباحتوں کیساتھ نئی نسل کی سوچ پر حاوی ہو رہا ہے جس کے نتائج ہر طرح سے بہتر ہو سکتے ہیں مگر ایمانی طور پر بالکل بھی موافق نہیں ہوں گے اور اس کے ذمہ دار تشددآمیز مذہبی رجحانات پیدا کرنے والے طبقات کے سوا کوئی دوسرا نہ ہوگا۔​
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top