Quran Hadith Islami Nuqta E Nazar Se Khawateen ke Liye Kaam ke Maidaan

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لئے کام کے میدان

گھریلو کام کاج اور بچوں کی پرورش بجائے خود اتنا بڑا کام ہے کہ خواتین صرف اسی کو بہتر طریقہ پر انجام دیں تو ان کے پاس کسی اور کام کے لئے وقت ہی نہ بچے، درحقیقت یہ ایسی ذمّہ داری ہے کہ بڑے بڑے عالی ہمت حضرات بھی اسے مستقل بنیاد پر انجام دینے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ اس قسم کا کام ہے جس میں خاصی یکسوئی کے علاوہ پہ در پہ بدلتی ہوئی خانگی صورتحال کو بخوبی نبھانا پڑتا ہے جبھی تو خواتین ایک طرف اپنے چھوٹے بچے کو لوری سنا رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف گھرکے کام کاج اور کھانا پکانے کے لئے فکر مند ہوتی ہیں۔ گھریلو معاملات کی اسی اہمیت و نزاکت کے پیشِ نظر، کہ اس کی بہتری میں خاندان کی بہتری کا دار و مدار ہے، اسلام نے خواتین کو گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہی گھر کا نظام چلانے اور اس کا ماحول کو پُر سکون رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ارشاد ہوا: {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ، إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکْمْ تَطْہِیْراً} سورۃ الأحزاب: آیت 33

یعنی: اپنے گھروں میں رہو اور پہلے جیسی جاہلانہ بے پردگی و بے حیائی ہرگز نہ کرنا اور نمازوں کی پابندی کرنا اور زکاۃ ادا کرتی رہنا اور اللہ اور اس کے رسول کی تعبیداری کرتی رہنا، اے اہلِ بیت! اللہ تو تمہارے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کرکے تمہیں بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔

اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے گھر کو لوگوںکے لئے ایک بے بہا نعمت اور جائے سکون قرار دیا ہے، فرمایا: {وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ سَکَناً} سورۃ النحل: آیت 80

یعنی: اللہ نے گھروں کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا ہے۔

کوئی عورت بحیثیت ماں اپنا کردار اس وقت تک بخوبی ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنے گھر میں پورا پورا وقت نہ دے کیونکہ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اسی قدر وہ ماں کی محبت اور توجہ کا زیادہ محتاج ہوتا ہے، دراصل دودھ سے پہلے بچے کو ماں کی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی گود میں اسے دلی راحت و عافیت محسوس ہوتی ہے جو کہ اس کی جسمانی و شخصی نشو نما کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح جب عورت اپنے گھر پر رہتی ہے اسے سنوارتی ہے، اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہے اور جسمانی و نفسیاتی اعتبار سے اسے ایک بہترین ماحول فراہم کرتی ہے تو اس کا شمار اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں ہوتا ہے، دیکھئے ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن رضي اللہ عنہا نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں خواتین کی طرف سے بطور نمائندہ حاضر ہوئی ہوں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام عورتوں اور مردوں کی طرف مبعوث کیا ہے، ہم آپ پر اور آپ کے معبود پر ایمان لائے، ہم خواتین آپ لوگوں (مردوں) کے گھروں کی چار دیواری تک محدود رہتی ہیں، آپ کی خواہشات کو پوار کرتی ہیں، آپ کی اولادوں کو جنم دیتی ہیں جبکہ آپ لوگوں کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ لوگ دینی اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں مریضوں کی عیادت اور جنازہ میں شرکت کے لئے جاتے ہیں اور کئی کئی حج کرتے ہیں اور ان سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ آپ لوگ اللہ عز و جل کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی شخص حج یا جہاد کے لئے نکلتا ہے تو ہم خواتین آپ لوگوں کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، آپ لوگوں کے لئے کپڑے سیتی ہیں اور آپ کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں تو کیا آپ لوگوں کی نیکیوں میں ہمارا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے کبھی کسی خاتون کو دینی معاملات میں اس سے بہتر بات کہتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی عورت اس قدر اعلیٰ خیالات رکھتی ہوگی۔ پھر نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام اس خاتون کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: بی بی! اچھی طرح سمجھ لو اور دوسری عورتوں کو بھی بتا دو کہ جو عورت اپنے خاوندکی خیر خواہی کرے اس کو راضی خوشی رکھے اور اس کا کہا مانے تو اُس کی اِس محنت و مشقت کا اجر ان تمام نیکیوں کے اجر کے برابر ہے (جو مرد حضرات کرتے ہیں)۔ وہ خاتون رب کی بڑائی اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس لَوٹ گئی۔ (بیہقی، حدیث نمبر 8369)

معلوم ہوا کہ شوہر کے معاملہ میں بیوی کی ذمّہ داری جس قدر بڑی اور دشوار ہے اسی قدر اس کا اجر بھی زیادہ ہے جبھی تو یہ فرمایا کہ اجر کے لحاظ سے بیوی کی ساری محنت و مشقت، شوہرکے سارے نیک اعمال کے برابر ہے یعنی اس جہاد کے برابر بھی کہ جس میں جان و مال دونوں خرچ ہوتے ہیں اور اس حج کے برابر بھی کہ جس میں سفر کی مشقت اور زادِ راہ بھی درکار ہوتا ہے اور اس صدقہ و خیرات کے برابر بھی کہ جس میں خون پسینے کی بہترین کمائی شامل ہوتی ہے!!!

تو کیا اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی عورت کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکل کر اور محنت و مشقت میں مردوں کی برابری کرکے اپنی اصل ذمّہ داری بحسن و خوبی نبھا سکتی ہے اور اپنے گھر اور شوہر کا پورا حق ادا کر سکتی ہے؟ کام کاج کرنے والی خواتین کی صورتحال دیکھ کر تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر سے باہر کام کاج نہیں کرنا چاہئے اور اسے چاہئے کہ اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہے؟ نہیں، ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اسلام خواتین کو کام کاج (ملازمت یا تجارت وغیرہ) کی اجازت دیتا ہے اور اسے اس کا حق قرار دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب اسے واقعتاً اس کی اشد ضرورت ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، ورنہ نہیں۔ کیونکہ اسلام نے پہلے ہی اسکی ضرورتیں پورا کرنے کی ذمّہ داری مرد کو سونپ دی ہے اور عورت کے ذمّہ گھریلو فرائض ادا کرنے کی پابندی عائد کی ہے سب کی اپنی اپنی ذمّہ داریاں ہیں جو بلا وجہ آپس میں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ تو جہاں اسلام نے عورت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ گھریلو کام کاج کیا کریں اور ہر جائز طریقہ پر اپنے خاندان کے سکون و راحت کا سامان کریں تاکہ زندگی خوشگوار ہو، وہاں اسلام نے اسے بہت سی شرعی پابندیوں سے معاف بھی رکھا ہے مثلاً جہاد، باجماعت نماز، نمازِ جمعہ اور ماہواری کے دنوں میں نماز و روزہ وغیرہ۔ یہ رعایتیں اس لئے ہیں کہ خواتین کو جو ذمّہ داری سونپی گئی ہے وہ اسے اچھی طرح ادا کریں۔ (عمل المرأۃ وموقف الإسلام منہ، مؤلف: عبد الرب آل نواب، ص۔ 162-157)

اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار کا مطالعہ کرنے والا شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ خواتین نے بعض شعبوں میں گھر سے باہر بھی خدمات انجام دیں ہیں جیسا کہ سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹری، نرسنگ اور ضرورت پڑنے پر جہاد بھی، جبکہ زراعت اور کھیتی باڑی بھی ان کے معمولات میں شامل ہے۔ خواتین حسبِ ضرورت لیبارٹریوں اور فیکٹریوں میں بھی کام کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی عزت و عفت اور نسوانیت محفوظ رہے۔ (دور المرأۃ وإمکانیۃ مساہمتہا في قوۃ العمل الوطینیۃ،تألیف: راویۃ عبد الرحیم، ص۔ 183-182)

اس مقصد کے لئے اسلام نے ضابطے مقرر کر دیئے ہیں ’’کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عورت کو اپنی زندگی کی سلامتی کے لئے کبھی کسی باعزت کام کاج کی ضرورت پڑے، خاص کر جبکہ اس کا سرپرست نہ ہو یا وہ اپنی ذمّہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کرے یاوہ واقعتاً کسی مجبوری کی بناء پر مکمل کفالت کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ (تأملات في عمل المرأۃ المسلمۃ، تألیف:عبد اللہ بن وکیل الشیخ، ص۔ 12-11)

اسی طرح خواتین ان شعبوں میں کام کرسکتی ہیں جن میں ان کے سوا کسی اور کی خدمات مناسب نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ فرضِ کفایت کے ضمن میں آتا ہے مثلاً خواتین کا علاج، انکی تیمار داری (نرسنگ) اور ان کی تعلیم و تربیت وغیرہ ۔ قرآن و حدیث کے کئی مقامات پر اس کے شواہد موجود ہیں، جیسا کہ (بعض روایات کے مطابق) شعیب علیہ السلام کی دو بیٹیوں کا پانی بھرنے کے لئے انتظار اور موسیٰ علیہ السلام کا ان کی مدد کرنے کا قصہ، کیونکہ وہ اپنے والد کی ضعیفی کی وجہ سے یہ کام کرنے پر مجبور تھیں، بیان ہوتا ہے {وَلَمَّا وَرَدَ مَائَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمْ امْرَأَتَیْنِ تَذُوْدَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّیٰ یُصْدِرَ الرِّعَائُ وَأَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ o فَسَقَیٰ لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰی إِلَیٰ الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّیْ لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ} سورۃ القصص، آیات: 24-23

یعنی: جب وہ (موسیٰ) مدین شہر کے گھاٹ پر پہنچے دیکھا کہ لوگ (مویشیوں) کو پانی پلا رہے ہیں اور قریب ہی دو عورتیں اپنے مویشیوں کو روکے انتظار کر رہی ہیں، پوچھا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا جب تک چرواہے چلے نہیں جاتے ہم اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلاتیں، تب موسیٰ نے ان کے مویشیوں کو پانی پلایا اور ایک جانب سائے میں بیٹھ کر دعا کی کہ یا رب تو جو بھی مہربانی مجھ پر کرے میں واقعی اس کا محتاج ہوں۔

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ عورت حسبِ ضرورت گھر سے باہر کا کام بھی کر سکتی ہے (جیسا کہ یہاں سرپرست کی ضعیفی کا سبب بیان ہوا) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کمزور ہونے کی بناء پر بعض شعبوں میں مردوں کی برابری نہیں کر سکتی (جیسا کہ یہاں بیان ہوا کہ چرواہوں کے جانے کے بعد ہی وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلا سکتی ہیں) ظاہر ہے کہ مردوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا ممکن نہ تھا اس لئے انتظار ضروری ہو گیا ۔ (الکشاف بین حقائق التنزیل وعیون الأقاویل ووجوہ التأویل، تألیف: أبو القاسم جار اللہ محمود الزمخشری، ص۔ 171)

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے اپنا باغ لگانا چاہا، تو کسی شخص نے ان کو برا بھلا کہا اور باہر نکل کر کام کرنے سے منع کیا، وہ نبی کریم علیہ الصلاۃ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرہ بیان کیا، تو آپ علیہ الصلاۃ السلام نے فرمایا: تم ضرور باغ لگاؤ، شاید کہ تم صدقہ کرو یا کوئی اچھا کام کرو۔ (مسلم) غرض یہ کہ اس بارے میں کافی دلائل موجود ہیں۔

موجودہ دور میں خواتین کے کام کاج کے لئے مندرجہ ذیل شعبے ذکر کئے جا سکتے ہیں:

۔1. اپنے خاندان اور محلے کے دائرے میں رہتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا کام۔

۔2. خواتین کی تعلیم و تربیت۔

۔3. خواتین کے لئے مخصوص ہسپتالوں میں خدمات، اسی طرح عورتوں کا علاج اور ان کی تیمار داری (نرسنگ)۔

۔4. خواتین کی لائبریریوں میں ملازمت۔

۔5. عام فلاحی خدمات، مثلاً خواتین کی فلاحی تنظیموں میں خدمات وغیرہ۔

۔6. خواتین کے ہسپتالوں اور اسکولوں میں انتظامی خدمات۔

۔7. خواتین کے لباس کی سلائی و تیاری۔

۔8. ہلکے و نزاکت طلب پیشے مثلاً خواتین کے زیورات کی تیاری۔

۔9. خواتین کے لئے حسب ضرورت فوٹوگرافی کی خدمات۔

۔10. خواتین کے لئے کمپیوٹر کی ٹریننگ اور اس شعبہ میں اپنی ہم جنس کے ساتھ خدمات۔

۔11. آجکل کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے خواتین، مردوںسے میل جول کے بغیر ہی اپنے گھر یا آفس میں رہتے ہوئے کئی کام کر سکتی ہیں، مثلاً انٹرنیٹ کے ذریعہ، مردوں میں گھلے ملے بغیر، تجارتی و تعلیمی سرگرمیوں میں بحسن و خوبی حصہ لے سکتی ہیں۔

غرض یہ کہ خواتین ’’حسبِ ضرورت‘‘ ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو اُن کے فطری مزاج اور بنیادی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہو نیز غیر محرموں سے میل جول کا خطرہ نہ ہو۔​
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
عورتوں کے لئیے معلوماتی مضمون
شیئر کرنے کا شکریہ
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top