Quran Hadith Istighfar Aur Rah E Nijaat By Maulana Fazal Ul Raheem

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
استغفار اور راہ نجات .... تحریر : مولانا فضل الرحیم اشرفی

astghfar.png

ہمارے اوپر بہت کڑا وقت ہے ۔نجات کا ا یک ہی راستہ ہے وہ ہے توبہ استغفار ،حدیث نبوی ﷺ میں ارشاد ہوا کہ،
{عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واللہ انی لا ستغفراللہ واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃً}(رواہ البخاری)’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ اور استغفار کرتا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس طرح کا شعور و احساس ہو گا وہ اپنے آپ کو اس درجہ ادائے حقوق عبدیت میں قصور وار سمجھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے اور تلقین فرماتے تھے جیسے کہ ایک دوسری روایت میں اغرالمزنیؓ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’اے لوگو! اللہ کے حضور میں توبہ کرو میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں۔ یہ ستر اور سو کی تعداد دراصل کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہے اور قدیم عربی زبان کا عام محاورہ ہے ورنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے توبہ و استغفار کی تعداد یقینا اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔ یہ تو اس ذات کا حال ہے جس کے کوئی گناہ ہیں ہی نہیں۔ دراصل اس طرح کی روایات سے امت کو تعلیم دینا مقصود ہے کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیونکہ توبہ و استغفار نہ کرنے کی صورت میں گناہوں کی سیاہی رفتہ رفتہ انسان کے دل پر چھا جاتی ہے اسی بناء پر ایک حدیث میں فرمایا گیا مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں معافی و بخشش کی التجاء اور استدعاء کی تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے اور اگر اس نے گناہ کے بعد توبہ و استغفار کے بجائے مزید گناہ کیے اور گناہوں کی وادی میں قدم بڑھائے تو دل کی وہ سیاہی اور بڑھ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
{کلا بل ران علی قلوبہم ماکانوا یکسبون}
’’کہ ان لوگوں کی بدکاریوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ اور سیاہی آگئی ہے۔‘‘
اور کسی مسلمان کے لیے بلاشبہ یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے کہ گناہوں کی ظلمت اس کے دل پر چھا جائے اور اس کے قلب میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے (آمین) دراصل خطاء اور لغزش آدمی کی فطرت میں داخل ہے کوئی ابن آدم اس سے مستثنیٰ نہیں ہے لیکن وہ بندے بڑے اچھے اور خوش نصیب ہیں جو خطاء و قصور اور گناہ کے بعد نادم ہو کر اپنے مالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اس کی رضاء و رحمت حاصل کرتے ہیں اسی کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں فرمایا کہ ہر آدمی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو مخلصانہ توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جائیں۔ اس بناء پر ہم سب کو چاہیے کہ خود بھی توبہ و استغفار کریں اور دوسروں کو بھی توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کریں تاکہ ہمارے گناہوں کی نحوست کی وجہ سے آج امت مسلمہ جن پریشانیوں اور تکلیفوں سے دوچار ہے وہ چاہے مہنگائی کی صورت میں ہوں، چاہے بے رحم حکمرانوں کی صورت میں ہوں یا بہت سے علاقوں میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے عذاب کی صورت میں ہوں یا یہود و نصاریٰ کے ہم پر تسلط کی صورت میں ہوں، اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کی برکت سے اس طرح کی سب پریشانیوں اور تکلیفوں سے ہماری خلاصی کروا دیں گے پھر استغفار کے لیے یہ مسنون الفاظ بہت مناسب ہیں جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا جس بندے نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کیا
{استغفراللہ الذی لا الہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ}
تو اس بندہ کو ضرور بخش دیا جائے گا اگرچہ اس نے میدان جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت ہیں جن کے مطابق وہ کسی شخص یا کسی قوم کے ساتھ معاملہ فرماتا ہے ان میں سے ایک ’’ استدراج‘‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کا نافرمان ، مجرم احکام الٰہیہ کا باغی اپنی سرکشی اور گناہوں میں حد سے بڑھ جاتاہے باوجود یکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا تھا لیکن یہ اس زندگی سے واپس آنا ہی نہیں چاہتا تو اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہوکر کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں کہ اس کی رسی اور ڈھیلی کرکے کچھ اور مدت کے لیے نعمتوں کے دروازے اس پر کھول دیتے ہیں تاکہ وہ اور زیادہ مست ہوکر نافرمانی اور سرکشی میں بڑھ جائے اور سخت سزا پائے ایسے معاملہ کو ’’ استدراج ‘‘ کہتے ہیں۔
چنانچہ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب کسی گنہگار بندہ یا کسی گنہگار قوم یا گروہ کو مجرمانہ اور باغیانہ زندگی گزارنے کے باوجود خوب خوشحالی اور نعمتیں مل رہی ہوں اور عیش وعشرت سے زندگی گزار رہے ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسی کو مزید ڈھیل دے رہے ہیں اور ان کا آخرت میں انجام اچھا نہ ہوگا۔امام بغوی شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،
’’تم کسی بدکار پر کسی نعمت اور خوشحالی کی وجہ سے ہرگز رشک نہ کرنا تمہیں معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد اس پر کیا کیا مصیبتیں پڑنے والی ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے ایک ایسا قاتل ہے جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ ‘‘اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے راوی عبداللہؓ بن ابی مریم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی مراد اس قاتل سے دوزخ کی آگ ہے بسا اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک نیک، شریف، پابند صلوٰۃ وصوم بندہ تنگی اور تکلیف میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے جب وہ ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو بدکاربھی ہو، نماز روزے سے اسے کوئی سرورکار نہ ہو لیکن وہ عیش وآرام کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو اب شیطان اس نیک شخص کے دل میں طرح طرح کے وسوے ڈالتا ہے اور کچھ نہیں تو کم ازکم اس کے دل میں اس کے بارے میں رشک پیدا ہوجاتا ہے تو اس پر بھی رسول اللہﷺ نے خوب اچھی طرح خبردار کیا ایسے گنہگار آرام وراحت میں زندگی بسر کرنے والے کی حالت تو اس طرح ہے جیسے پھانسی پانے والے مجرم کو دو چار دن پہلے اس کے آرام کا خاص خیال رکھا جائے۔ اس کی خواہشات کو حتی المقدور پورا کرنے کی کوشش کی جائے اگر اس حقیقت کی سمجھ اس نیک شخص کے دل میں پیدا ہوجائے تو کبھی اس قسم کے خیالات قریب بھی نہ آئیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر نیک شخص کو نعمتیں مل جائیں تو یہ اس کے لیے آزمائش ہیں‘ا گر برے شخص کو نعمتیں ملیں تو یہ اس کے لیے استدراج اور ڈھیل ہے اس طرح اگر نیک شخص کو تکالیف آئیں تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہے اور برے شخص کے لیے تکالیف آئیں تو یہ اس کے لیے تنبیہہ ہے‘ عزت وذلت کا معیار دولت وآرام نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک نجات وعزت وذلت کا معیا رصرف اور صرف تقویٰ ہے۔
مشکوٰۃ میں بروایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا اللہ تو مجھے کوئی ایسی دعا بتلا دے کہ اس کے ساتھ میں تجھے یاد کیا کروں۔ وہاں سے لا الٰہ الا اللّٰہ ارشاد ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں، میں تو کوئی دعا یا ذکر مخصوص چاہتا ہوں۔وہاں سے ارشاد ہوا کہ موسیٰ اگر ساتوں آسمان اور ان کے آباد کرنے والے میرے سوا یعنی ملائکہ اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھ دیئے جاویں اور دوسرے میں کلمہ طیبہ رکھ دیا جاوے تو وہی جھک جائے گا۔دوسری چیز جس کی کثرت کرنے کو حدیث بالا میں ارشاد فرمایا گیا وہ استغفار ہے۔ احادیث میں استغفار کی بھی بہت ہی فضیلت وارد ہوئی ہے، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص استغفار کی کثرت رکھتا ہے حق تعالیٰ شانہ‘ ہر تنگی میں اس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں اور ہر غم سے خلاصی نصیب فرماتے ہیں اور اسی طرح روزی پہنچاتے ہیں کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آدمی گنہگار تو ہوتا ہی ہے، بہترین گنہگار وہ ہے جو توبہ کرتا رہے۔ ایک حدیث قریب آنے والی ہے کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو ایک کالانقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے۔ اگر توبہ کرتا ہے تو وہ دھل جاتا ہے ورنہ باقی رہتا ہے اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے دو چیزوں کے مانگنے کا امر فرمایا ہے جن کے بغیر چارہ ہی نہیں۔
حضرت حسن بصریؒ کے متعلق مروی ہے کہ ان سے آ کر کسی نے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اسے استغفار کی تلقین کی ، کسی دو سرے شخص نے فقر و فاقہ کی شکایت کی ، اسے بھی انہوں نے یہی نسخہ بتلایا ۔ ایک اور شخص نے اپنے باغ کے خشک ہونے کا شکوہ کیا ، اس سے بھی فرمایا : استغفار کر ۔ ایک شخص نے کہا ، میرے گھر اولاد نہیں ہوتی ، اسے بھی کہا اپنے رب سے استغفار کر ۔ کسی نے جب ان سے کہا کہ آپ نے استغفار ہی کی تلقین کیوں کی ؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت کر کے فرمایا کہ میں نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کی ، یہ وہ نسخہ ہے جو ان سب باتوں کے لیے اللہ نے بتلایا ہے ۔ (ایسر التفاسیر ، تفسیر مسجد نبوی ، صفحہ ۱۶۳۳)
اسماء الحسنیٰ میں الستار بہت مشہور نام ہے اور بہت سے مسلمان اپنا نام عبدالستار رکھتے ہیں یہ نام قرآن مجید میں موجود نہیں البتہ رسول اکرم ﷺ نے ایمان لانے کی تعلیم دیتے ہوئے جن چھ کلمات کی تلقین فرمائی ان میں سے پانچواں کلمہ استغفار ہے اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ نام موجود ہے۔
{اسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُہ عَمَدًا اَوْخَطَائً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَ اَتُوْبُ اِلیِْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ}
’’میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں ہر اس گناہ سے جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا غلطی سے۔ چھپ کر کیا ہو یا ظاہر کر کے۔ میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں اس گناہ سے جو میں نہیں جانتا۔ اے اللہ بے شک تو ہی غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے اور تو ہی عیبوں کو چھپانے والا ہے اور گناہوں کو بخشنے والا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ ہی کی مدد کی وجہ سے ہوتی ہے جو بلند مرتبہ اور بزرگی والا ہے۔‘‘
یہ کلمہ استغفار اور اس کا ترجمہ اس لیے ذکر کیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی الستار کے مفہوم کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ پہلی بات تو یہ کہ اس کلمہ میں ایک لفظ آیا ستار العیوب یعنی اللہ تعالیٰ ہی عیبوں کو چھپانے والااور ان پر پردہ ڈالنے والا ہے اور دوسری بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بے عیب ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے باقی عام انسان عیبوں سے پاک نہیں۔ ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی عیب موجود ہے۔ اگر کوئی انسان ہم میں سے یہ کہے کہ ’’میرے اندر کوئی عیب نہیں۔‘‘تو یہ بات ہی کہنا انسان کے اندر بہت بڑا عیب ہے کیونکہ بے عیب ذات تو صرف اللہ کی ہے اور پھر اس کی مزید صفت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے عیبوں کو بھی چھپا دیتا ہے ان پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اسی خوبی کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دی کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے عیب ظاہر نہ کریں۔ اس کے لیے قرآن حکیم میں لفظ غیبت کا تذکرہ آیا۔ غیبت کہتے ہیں کسی کے عیب کو دوسرے انسان کے سامنے بیان کرنا اس کی غیر موجودگی میں۔ دوسرے انسانوں کی برائیوں کے ذکر کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّا کُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِ ھْتُمُوْہُ}
’’اور تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے کیا؟ نہیں تم اسے ناپسند کرتے ہو۔‘‘
ہمیں چاہے کہ ہم دوسروں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنے اعمال درست رکھیں ۔اللہ سے ڈرتے رہیں اس کا رحم مانگتے رہیں۔ طلق بن حبیب فرماتے ہیں کہ خدا کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کرسکیں اور خدا کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کرسکیں ۔ لوگو ! صبح و شام توبہ ، استغفار کرتے رہو ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ’’ خدایا! تیرے ہی لئے سب حمد و ثناسزا وار ہے ۔ ہماری ثنائیں ناکافی ہیں پوری اوربے پرواہ کرنے والی نہیں ، خدایا تو معاف فرما۔رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر پورا ادا نہیں ہوسکتا ، تیرے احسانات اور انعامات بے شمار ہیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ، جلد ۳، صفحہ ۷۷)
 

ماشاءاللہ
بڑی اچھی معلومات ہیں
اللہ سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
جزاک اللہ
 
Back
Top