Afsana Jeenay Ki Rah..........!!!

Status
Not open for further replies.
Heer

Heer

New Member
Invalid Email
11
 
Messages
5,100
Reaction score
7,233
Points
701
جينے کي راہ
ٹيلي فون ايکسچينج کي نئي عمارت بن رہي ہے، عورتوں اور مردوں کا حجم غفير سروں پر ٹوکرياں اٹھائے ايک دوسرے کے پيچھے چپ چاپ چلتے ہوئے آئے جارہے ہيں، مصالحہ ملانے والي مشين کي آواز کام کي نگراني کرنے والوں کي آوازوں اور باہر سڑک پر آتي جاتي گاڑيوں کے تيز ہارن مل کر بھي اس خاموشي کو توڑ نہيں سکتے جو مزدوروں کے چہروں پر گہري کھدائي ہوئي ہے ، وہ مسکرانا نہيں جانتے شايد جيسے قسمت کے مضبوط ہاتھوں نے انہيں ان ديکھي رسي سے باندھ رکھا ہو اور انہيں مسلسل حرکت دے رہے ہوں۔
ميں باہر کي چار ديواري کے پاس بنے کيبن ميں بيٹھا لگاتار سگريٹ پھونکتا رہتا ہوں يا جواناوڑ مزدور عورتوں کو خاموشي سے گھورتا رہتا ہوں، ان کي رنگين کپڑے جب پسينہ سے شرابور ہو کر جسموں سے چپک جاتے تو ميرا دل تيزي سے دھڑکنے لگتا ہے، ميں سلطانہ کے جسم کے زاويوں کو ديکھتا ہوں تو ميرا سارا جسم لذت بھري خواہش سے اينٹھنے لگتا ہے، تب دوسري ساري آوازيں صرف ايک آواز ميں ڈھل جاتي ہيں، سلطانہ کے کرتے کے دامن سے بندھے چھوٹے چھوٹے گھنگرون اور اس کے چڑکلے سے بندھي نھني نھني چاندي کي گھنٹياں اس کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ مجھے ايسا لگتا ہے جيسے سلطانہ ہولے ہولے سسکارياں بھر رہي ہو، اپني قسمت کا ماتم کر رہي ہو، اس کا خوبصورت سانولا چہرہ گہري سرخي سے تب جاتا ہے، اس کے قدم ست پڑجاتے ہيں تو اس کا شوہر اسے ڈانٹنے ہوئے کہتا ہے، کيا موت پڑگئي ہے، جو تو يوں چلے ہے، بھگ بھگ نہيں تو يوں جوتياں ماروں گا کہ ياد ہي کرے گي، سلطانہ کا چہرہ ايک دم راکھ ہوجاتا ہے، اس کے قدم تيز ہوجاتے ہيں، نھنے نھنے گھنگرو چھنکتے ہيں اور ميرا جي چاہتا ہے ميں آگے بڑھ کر اس کو اپنے بازئوں ميں سميٹ لوں ليکن ميں ايسا نہيں کرسکتا، اس کے شوہر کا مضبوط جسم اور اعتماد سے پر چہرہ ايک خوف بن کر ميرے اندر سماجاتا ہے، ميں سوچتا ہوں ميں کسي نہ کسي روز سلطانہ کو لے کر اس دھوپ بھري دوپہروں اور اس کے شوہر کے قہر بھرے چہرے سے دور لے جائو گا، تب اس کا جوان خوبصورت وجود زيادہ اجلا ہو جائے گا، ميرا قصور نہ جانے کہاں کہاں بھٹکنے لگتا ہے ميں سوچتا ہو مجھے سلطانہ سے محبت ہے، ليکن ميں اس سے محبت نہيں کرتا، بس خوف اور خواہش کے درميان معلق ميں تيزي سے سگريٹ کے کش کھنچتے ہوئے ايک بھڑکتا سا عاشانہ پنجابي گيت گنگنانے لگتا ہوں، ايسا گيت جس ميں جسم کا ذکر ہے، جواني کا ذکر ہے، اور يہ جسم سلطانہ کا جسم ہے، يہ جسم ميرا جسم ہے، ميرا انہاک چھوٹے سے بچے کي بھوک سے بلبلاتي چيخ سے ٹوٹتا ہے، خدا کي نا انصافيوں پر پہلا احتجاج۔
دوسري مزدور عورت رضيہ ميرے کيبن کے پاس آکر رکتي ہے، اس کا کرتا بہے دودھ سے بھيگا ہوا ہے، اس کے کانوں کي بالياں اور ناک کي لونگ پسينے اور گردن سے ميلي ہورہي ہے، ليکن اس کے چہرے پر مامتا کي لپک نے اسے جاندار مجسمے ميں ڈھال ديا ہے، ميں گانا بند کرديتا اور سوچتا ہوں يہ بھيگا ہوا جسم بھي عورت کا ہے ليکن ميں اس کے بارے ميں کچھ بھي نہيں سوچ رہا اور منہ پھير کر بيٹھ جاتا ہوں، ميرا ذہن عورت کے اس روپ کو قبول نہيں کرتا، عورت تو صرف عورت ہے جس کے جسم کے کتنے زاوئيے مرد کو مدہوش کرديتے ہيں، اسکے اندر کا شيطان پوري طرح چوکس ہوجاتا ہے ميں رضيہ کو ديکھ کر مسکراتا ہوں ليکن وہ اپنے بچے پر جھگي سے چوم رہي ہے اور پھر اسے ميلے کپڑے پر لٹا کر واپس چلي جاتي ہے، اور مجھے ايسا لگتا ہے جيسے مجھے اس نے دھتکار ديا ہو ميرے اندر کا مرد تلمانے لگتا ہے، با اختيار اور خود پسند مرد، سورج آسمان پر سفر کرتا ہو مغرب کي طرف جھک گيا ہے نگراني کرتے کارندے تھکن سے نڈھال عورتيں گھٹے ہوئے جمسوں والے جوان مرد ميرے کيبن کے سامنے اکھٹے ہورہے ہيں، گرد آلود ہوا بجري کے ڈھيروں اور بگھري ہوئي ريت پر آہستہ آہستہ رنگ رہي ہے، اور عورتوں کے بدبو دار کپڑوں ميں سے گزرتي ہوئي چاروں طرف گھوم رہي ہے، سلطانہ نے اپنے گہرے سياہ دوپٹے کے پلو سے اپنا منہ پونچا ہے اور چپ چاپ اپنے شوہر کے پاس کھڑي اپني مزدوري کي منتظر ہے، ٹھيکدار اپني سياہ ٹيوٹا گاڑي کو تيزي سے اندر لاتے ہوئے ايک دم روکتا ہے اور تيز تيز قدم رکھتا کيبن ميں آکر ايک کرسي پر بيٹھ جاتا ہے، ميں رجسٹر ميں نام لکھتا جاتا ہوں اور بڑھے ہوئے ہاتھ پر نوٹ رکھتا جاتا ہوں، ميں جانتا ہوں سلطانہ کا ہاتھ چاندي کي انگوٹھيوں کا بوجھ سنبھالے آہستہ سے آگے بڑھے گا اور پھر ليکن نہيں ميں ايسا نہيں کرسکتا، ٹھيکدار مسکرا کر اس کا حال پوچھتا ہے وہ مسکراتي ہے ليکن خوفزدہ سي اپنے شوہر کو ديکھتي ہے، اور ميرا جي چاہتا ہے کہ ميں ٹھيکدار کو اٹھا کر باہر پھينک دوں ليکن ميں ايسا نہيں کرسکتا، ميں جو سارا دن اس چھوٹے سے کيبن ميں پنکھے کے نيچے آرام سے بيٹھا رہتا ہوں، اتنا ہي بے بس ہوں، ٹھيکدار کے سامنے ہاتھ پھيلانے والا پڑھا لکھا مزدور۔۔۔۔۔ميں نے سلطانہ کے ہاتھ ميں روپے رکھتے ہوئے اسے آہستہ سے چھوا ہے اور ميرے سارے جسم ميں سنسني سي دوڑ گئي ہے ، ميرا سارا جسم ايک دفعہ پھر خواہش سے تب گيا ہے۔
 
سڑک کي دوسري طرف چائے کي ايک دکان کے سامنے بچھي بے رنگ ميز کرسيوں پر چند جوان لڑکے بيٹھے چائے پي رہے ہيں اور ننگي نظروں سے عورتوں کو گھور رہے ہيں، ميں انہيں کچھ نہيں کہہ سکتا، چائے خانے کا مالک بھولا پہلوان بے داغ بوسکيکي قميض شلوار پہنے، بالوں ميں خوشبودار تيل لگائے سگريٹ سے گاڑھے دھوئيں کے مرغولے بناتے ہوئے ايک طرف بيٹھا لڑکوں کو ڈانٹ رہا ہے، اس کے جوان چہرے پر سنجيدگي اور ٹہرائو ہے، اپنا کام کرو، چائے کو ديکھو، غير عورتوں کو گھورنا ہے تو آئندہ يہاں نہيں آنا، وہ بھي کسي کي ماں بہنيں ہيں سمجھے، اس نے تيزي سے سگريٹ کي راکھ چٹکي بجا کر زمين پر جھٹکا ہے، لڑکے مسکراکر چائے پينے لگے ہيں اور پھر چائے کي قيمت چکا کر اٹھ جاتے ہيں اور ان منے قدموں سے مڑ مڑ کر ديکھتے ہوئے آگے چل پڑتے ہيں، ميں بھي ان کي طرح عورت کے وجود اور اس کے سحر سے آگاہ ہوں اور سلطانہ کا جسم، ہر چيز خريدي جاسکتي ہے، چائے کي پيالي، سگريٹ کا پيکٹ، عورت کا جسم اور ميں يہ بھي جانتا ہوں کہ ساري مزدوري کرتي اور عورتيں بھي خريدي گئي ہيں، رضيہ کي قيمت پندرہ سو تھي، انوراں کے مضبوط بازو اس کے شوہر کو پورے دو ہزارے روپے ميں پڑے تھے، ريزواں کے اونچے آگے کو بڑھے دانتوں کي وجہ سے اس کے باپ کو صرف آٹھ سو روپيہ ملا تھا، اور يہ سلطانہ اسے نواب نے پورے پانچ ہزار ميں خريدا تھا۔
نواب نے ايک روز ميرے پاس بيٹھے ہوئے اپنے ہاتھ کي پانچويں انگليوں کو پورا پھيلاتے ہوئے کہا تھا، بابو صاحب ميں نے سلطانہ کو دن رات کي کمائي جمع کرکے پورے پنج ہجار ميں کھريدا ہے جي، اب ميں کيا اسے سر پر بٹھائو، ميں نے تو اپنے پيسے پورے کرنے ہيں، مجدوري تو يہ کرے ہي کرے اور ميں نے نواب کے پاس بيٹھي اس معصوم کو ديکھ جس کي آنکھيں ايک دم بجھ گئي تھيں، اور اس کا خوبصورت چہرہ اس کے گلابي کڑھے وہے کرتے اور نھنے گھنگرو و لگے دامن کے درميان ايسے لگنے لگا تھا جيسے بجھي سگريٹ دھواں دينے لگي ہو، ميں زور سے ہنسا اور بولا نواب مہنگي چيز کي تو حفاظت کي جاتي ہے، سنبھال کر رکھا جاتا ہے، اور تم اپني اتني مہنگي جورو کو راکھ ميں ڈال ديا ہے، کيا تمہيں اس سے محبت نہيں، جي محبت تو مجھے سلطانہ سے ہے جي جبھي تو ميں نے پورے دس سال کے بعد اس کے باپ کو بڑي منتوں کے بعد شادي پر راجي کيا تھا جي، وہ تو مانے ہي نہيں تھا، کہتا تھا ميري سلطانہ بہت کھوبچھورت ہے، اس کے تو پورے دس ہجارے ہي لوں گا، نواب کا جوان چہرہ جھيلے ہوئے انتظار کے کرب سے سخت ہوگيا، وہ انتظار جو اس نے برسوں روپوں کي گنتي پورے ہونے کے انتظار ميں اٹھايا ہوگا، اس کا دل لحظ لحظ اس کے انتظار ميں بھيگا ہوگا، اور اب نواب سلطانہ سے اس ساري محبت اور تک ودو کي قميت وصول کر رہا ہے، کيا يہ محبت تھي، يا انساني فطرت کا تقاضا تھا، جسم کي سچائي ہي سب سے اونچي پکار بن جاتي ہے، نواب نے سگريٹ کو بھجا کر جيب ميں رکھا اور ميري طرف ديکھ کر بولا، بابو صاحب تم جانو جندگي بڑي کھٹن ہوئے ہے، روپيہ پيہ ہي تو طاقت ہے، بيماري شماري ميں عورت تو کام نہ آوے، پيشا کام آوے پيشا، اور پھر ہمارے باپ دادوں نے ايسا ہي ہوتا آوے ہے، قيمت تو چکاني ہي پڑے ہے، اور کيا مرد کوئي قيمت نہ ہووے، ہووے صاحب ميرے جيسا جوان سلطانہ کو دکھے ہے کوئي دوسرا اس ساري ٹکڑي ميں جانچو تو جرا، کوئي دکھے ہے ميرا جيسا جتا وہ بڑے اعتماد سے مسکرايا، سلطانہ تو اپنے آپ کو بڑھا بھاگوان سمجھے ہے، بڑي کھٹن ہے، منے سنگ، کيوں ري تو تو بول اس نے سلطانہ کي طرف ديکھتے ہوئے کہا اور سلطانہ نے شرما کر سر جھکا ليا، ميں جانتا ہوں ميں جو بڑھيا سگريٹ پيتا ہوں اچھے کپڑے پہنتا ہوں، نواب اس کے سامنے اپنے آپ کو حقير اور چھوٹا سمجھتا ہے، اس کے سارے جذبے سچے اور کھرے ہيں، اور ميں ميرا ہر احساس صرف جھوٹ ميں لپٹا ہوا ہے، ميں اپنے اندر کي سچائي کو اپنے سامنے عياں کرنے سے بھي گھبراتا ہوں، ميں ابھي صرف جسم کو پہنچانتا ہوں، ليکن اسے محبت کا رنگ ديتا ہوں، دھواں آسمان کي طرف اٹھتا ہے اپنے بازئوں پر بھروسہ ہي ان کا ايمان ہے شام کے آسمان پر چيليں ظمانيت بھرے پر پھيلائے دائرے ميں اڑ رہي ہيں طمانيت کہاں ہے، پيسے کمانے ميں محبت کرنے ميں يا محبت کي قيمت چکانے ميں، ميں نے سلطانہ کي طرف ديکھا ہے، وہ اپني ساس کے پاس چپ چاپ بيٹھي اڑتي چيلوں کو ديکھ رہي ہے، اس کا چٹلا ساکت ہے، اس کے دامن کے گھنگروں بھي ساکت ہيں اور مجھے لگ رہا ہے جيسے سب کچھ تھم گيا ہو، رک گيا ہو۔
ميں جاتے جاتے رک جاتا ہوں کھٹي لسي ميں پکائے گئے چاولوں کي ناورا بوسب طرف پھيلي ہوئي ہے، ليکن ميں اس بوکو سونگھنے بغير ايک اور بو سنگھنے کي کوشش کر رہا ہوں، جو سلطانہ کے جسم سے اٹھ رہي تھي عورتوں کے رنگين چھينٹ کے کپڑے متيالے ہوچکے ہيں، لاکھ کے سفيد چوڑوں سے بھرے بوزو ناک میں پڑي ہوئي بڑي لونگين ، کلون ميں لٹکے کنٹھے ان عورتوں کي ساري زندگي کي بس اتني ہي تو قيمت ہے ليکن ميں سلطانہ کيلئے اس سے کہيں زيادہ دے سکتا ہوں، ميں سلطانہ کا سودا دل ہي دل ميں طے کرليتا ہوں، سونے کے زيورات، ريشمي کپڑے اور شايد کسي روز ميں يہ سودا کرسکوں، شايد کبھي ميں اس کو چھو سکوں، ميں گيٹ سے باہر سڑک کے کنارے بھولا پہلوان کے چائے خانے پر جا کر بيٹھ جاتا ہوں شايد ميں تھک گيا ہوں، معلوم نہيں تک ودو کي کون سي منزل ہے کوئي نہيں بتاتا، ہر ايک کو اپني راہ خود ہي ڈھونڈني پڑتي ہے۔
 

کيوں بابو صاحب تھک گئے ہوکيا، اوئے چھوٹے ملائي والي چائے لانا گرم گرم، اور بھولا پہلوان ميرے پاس آکر بيٹھ گيا، اس نے سگريٹ کا تيز کش ليتے ہوئے ميرے کندھے پر ہاتھ رکھ ديا ہے کچھ کہتا ہوا کچھ مانگتا ہوا ہاتھ ميں اس کي طرف ديکھ رہا ہوں۔
بابو صاحب يہ جوان سي چھوکري ہے نا جو ۔۔۔۔نئي نئي آئي ہے مزدوري کرنے کيا نام ہے سلطانہ۔۔۔۔ہان سلطانہ اس نے بڑي گڑ بڑ پھيلادي ہے جي چھو کرو ميں، ميں تو حراميوں کو بيٹھنے ہي نہ دوں اڈے پر، پر کيا کروں دھندا ہي ايسا ہے، اس کيگھر والے کو کہيں کہ اسے کھلے عام نہ لئے پھرے، نہيں تو کسي سن کسي چھوکرے سے سنگ بھاگ جاوے گي، پہلوان کے لہجے ميں فکر مندي تھي، کم بخت غريب ہوکر بھي اتني نازک لگتي ہے، جيسے کانچ کي بني ہوئي ہو، اللہ اپني کاري گري کہاں ضائع کرديتا ہے، کيا ضرورت تھي اسے ايسا بنانے کي، ليکن ميں نواب کو کيسے کہہ سکتا ہوں ميرا اس کا کائي ناتہ تو ہے نہيں نہيں جي اونچ نچ تو سمجھاني پڑتي ہے، آپ ان کے انچارج جوہوئے اور ميں سوچ رہا ہوں کہ سلطانہ نہ صرف مجھے نظر آتي ہے، دوسرے بھي اسے ديکھتے ہيں دوسرے بھي اسکي خوبصورتي سے مسحور ہيں، ميں نے کہا پہلوان جي نواب اس کي قيمت جانتا ہے اس کي حفاظت کرے گا، يہ لوگ بار بار شادي نہيں کرسکتے ان کے پاس بيوي خريدنے کيلئے پيسے کہاں، میں سمجھائوں گا، اسے خوب بھي تو چھوکرا سا ہے، اور شہر کي ہوا عورتوں کو بہت جلد بدل ديتي ہے، مردوں کي نظرين دلوں ميں اتر جاتي ہيں جي، وہ بہت جلد سمجھ جائے گي، کہ وہ کتني خوبصورت ہے، پہلوان کي آنکھيں سوچ ميں ڈوبي ہوئي تھيں، اور وہ گہرے کش کھينچ رہا تھا، ميں نے پھر کہا پہلوان جي لڑکے کے ماں باپ بھي تو ساتھ ہيں، وہ کہاں جائے گي، پر بابو صاحب آپ نے کبھي لڑکي کي آنکھوں ميں جھانکا ہے، ہر روز مار کھانے والي عورت زيادہ دير ايسے مرد کے پاس نہيں رہتي، کيا ہے اس کي آنکھوں ميں ميں تجسس سے بولا، کچھ تو ہے، جيسے وہ رو رہي ہو، اور پھر بغاوت بھري ہے جي، پر پہلوان جي آپ نےکيسے پڑھيں اس کي آنکھيں، ميں ہنس کر بولا، بابو جي ميں بازار ميں بيٹھنے والا آدمي ہوں، راہ جاتي عورت کي چال ديکھ کر پہچان جاتا ہوں کہ کس قماش کي عورت ہے، چالو ہے يا گھر دار، پر نواب سے بہتر اسے کوئي اور کيا ملے گا، آپ بھولے شاہ ہيں، عورت جو کچھ چاہتي ہے، نواب کے پاس نہيں، سختي دلوں کو پتھر بنا ديتي ہے، اور ہ تو کانچ کي بني لگتي ہے، اور نواب اس کي قيمت کيا جانے، اس کے ليئے تو وہ ايک ٹوکري ہے بوجھ ڈھونے والي۔
ميں پہلوان کے ذاتي تجربات کے بارے ميں کچھ نہيں جاتا ، ہمارا اس کا چند ماہ سے ہي تو ساتھ ہوا ہے، ميں اتنا جانتا ہوں وہ سڑک پر جاتي عورت کو گھورتا نہيں اور نہ دوسروں کو گھورنے ديتا ہے، غير محسوس طور پر سب اس سے ڈرتے ہيں اور اس کي عزت کرتے ہيں، سلطانہ اور مرد سلطانہ اور اس کا شوہر، عورت کي قيمت چند ہزار روپے، نقلي زيور، بے باک نظرين، شايد ہم سب کو اس کا بکائوں مال سمجھتے ہيں، اسے خريدنا چاہتے ہيں، شايد نواب اپني چيز کي قيمت سے پوري طرح واقف ہے اس کي حفاظت کرنا جانتا ہے، عمارت بلند ہو رہي ہے، اور ساتھ ہي ميرے دل میں سلطانہ کا خيال، ميں اسکے وجود سے ہر لمحہ آگاہ رہتا ہوں، اس لئے اس کے اندر آئي تبدلياں مجھے سب سے زيادہ نظر آتي ہيں۔
وہ سب ہميشہ کي طرح چپ چاپ کام کئے جاتے ہيں، ليکن مجھے لگتا ہے جيسے آوازوں کا شور اٹھ رہا ہو اور ان آزوازوں ميں سلطانہ کي بولتي آنکھوں کي آواز سب سے بلند ہو، اب وہ اپني مزدوري لينے کيلئے جب ہاتھ بڑھاتي ہے تو ماتھے تک کھنچے ہوئے گھونگھٹ ميں ان کي آنکھيں مسکرانے لگتي ہيں، نواب اسے جھڑکتے ہوئے کہتا ہے، توہٹے گي يا ميں لات دوں، ميں نے ديکھا ہے، کہ نواب بھي اس کے اندر آتي جاتي تبديلي سے آگاہ ہے، وہ اسے اب بات بے بات مارنے لگتا ہے، اس کي ساس بھي اسے پيٹتي رہتي ہے، لوکل مزدور کام کے بعد بڑے اہتمام سے نہاتے ہيں، تيل لگاکر بال بناتے ہيں، اور آہنس ميں دور بيٹھے مذاق کرتے رہتے ہيں، بوڑھے رحيم نے جب اپنے بالوں کو بڑے اہتما سے خضاب سے رنگا تو سب جواب چھوکروں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کيوں رحيم بابا نئي شادي کرنے لگے ہو۔
ميں ابھي بھي تم چار پر بھاري ہوں، سلطانہ منہ پر پلو رکھے آہستہ آہستہ ہنستي رہيتي اور رحيم بابا اپني داڑھي اور بالون پر بار بار ہاتھ پھيرتا اسے ديکھتا رہتا ہے، اب جب نواب بھولا پہلوان کے چائے خانے پر جات اے تو وہ بھي جا کر کھڑي ہوجاتي ہے، بھولا اسے بھي ملائي والي چائے پلاتا ہے، اور مس جانتا ہوں ايک نا ايک دن کچھ ايسا ہوگا، جو نواب کے حق میں اچھا نہ ہوگا، اب نواب اسے پہلے سے بھي زيادہ مارتا ہے، وہ ہجري پر چادر لے کر ليٹ جاتي اور پھر کبھي کبھي چادر کا کونہ مجھے ديکھ کر مسکراتي ہے، ميں جواب ميں سکرا نہيں سکتا، وہ بہت سارے اور ميں اکيلا، ليکن ميں بے مقصد ہي وہاں رکا ہوا ہوں، ميں سلطانہ کو ٹھيکيدار کے جوان بيٹے کے بارے ميں بتانا چاہتا ہوں، ليکن اتنے مزدوروں کے ہجوم ميں اس سے بات نہيں کرسکتا، ميں سلطانہ کے بارے ميں فکر مند ہوں اسے مزدوروں کي نظروں سے بچانا چاہتا ہوں، اس روز سلطانہ ميرے کيبن ميں اکيلي آئي تھي، اور اس نے اپني بڑي بڑي بھوري بھوري آنکھوں کو کھولتے ہوئے کہا تھا، ايک بات کرو صاحب، کيا تم ميري مجدوري
 
بڑھا نہيں سکتے، ميں نئے کپڑے بنائو گي، اور اس نے اپني پھٹا کرتا مجھے دکھايا، ميں ہنسا، شايد سلطانہ ميري نظروں کے پيغام کو جان گئي ہو، ميں کہا، نواب کو کيوں نہيں کہتي ہو، وہ ايک دم چپ ہوگئي، اس کي آنکھيں کسي دکھ سے بھيگ گئي تھيں، وہ بولي نواب تو بس روپے جمع کرے ہے، اسے ميرا ننگا بدن نجر نہيں آوے ہے، کيا ميں بنادوں تجھے نئے کپڑے ، ميں اس کے سامنے کھڑے ہوکر بولا وہ ايک دم کھڑي ہوگئي، ناں جي، کپڑے تو ميں اپني مجدوري سے ہي بنائوگي، بس تم ميري مجدوري بڑھا دوں، پر نواب کو نہ بتانا، اور وہ جلد ہي باہر چلي گئي اور مسکرانے لگا، بھولا پہلوان نے ہي تو کہا تھا، شہر عورت کو بڑي جلدي بدل ديتا ہے، باہر موسم کي پہلي بارش ہو رہي تھي، سياہ بالوں کے پرے سے پرے آسمان کے کناروں سے اٹھ کر چاروں طرف پھيل گئے تھے، ميں کيبن کے دروازے پر کھڑا گہرے بادلوں کو ايک دوسرے ميں مد غم ہوتے ديکھ رہا تھا، اور سلطانہ کا جسم ميرے تصور ميں چھايا ہوا تھا، وہ عمارت کے بر آمدے ميں کھڑي اداس نظروں سے انہيں ديکھ رہي تھي اور پھر شايد وہ رونے لگے، اس کے آنسو کے رخساروں کو بگھورے تھے، دکھ بھرے آنسو۔
اس کا سنہري بدن کڑکتے بادل، آنسوئوں سے بھيگے گال اور پھٹا کرتا، انسان چھوٹي چھوٹي خواہشوں کي تکميل کيلئے کوشان کتنا بے بس معلوم نہيں رات کا ساتھ مرد عورت کو رہني طور پر قريب لاتا ہے، کتنا دو کرتا ہے، اور کيا رات کا ساتھ ہي سب سے بڑي سچائي ہے ميں سوچ رہا تھا، سوچ جو مثبت نہيں تھي، سلطانہ بدل رہي ہے، ميں جانتا ہوں ليکن اس کا اور ميرا فاصلہ بدستور قائم ہے، ميں ہميشہ کا ڈر پوک آدمي ہوں، عزت جانے کا ڈر، نوکري جانے کا ڈر، سلطانہ نے بہت کچھ سيکھ ليا ہے، اس کے چہرے پر غرور اور اعتماد نے اسے عمر سے بڑا بناديا ہے، اب وہ جس سے جي چاہتا، باتيں کرنے لگتي ہے، بھولے کي دکان پر جارک چائے پيتي ہے، نواب سے مار کھا کر بھي زيادہ نہيں راتي، ساس اور سسر سے نہيں ڈرتي، بھول ٹھيک کہتا تھا کہ اس کي آنکھوں ميں بغاوت بھري ہوئي ہے، شہري عورتوں نے غير محسوس طور پر اسے بدل ديا ہے، ايک روز ميں نے موقع پاکر سلطانہ کبھي مجھے بھي خدمت کا موقع دو، وہ زور سے ہنسي اور بولي ايسي ہي بات ہے ٹھيکدار کے بيٹے نے بھي کہي تھي ايسا لگے ہے جيسے يہاں کے سارے ميرے ہي عسح مس گلتاں ہيں، کسي کو کوئي ور کام نہيں ہووے، ہے نا مجے کي بات، سچ بڑا مجا آوے ہے، جب نواب ديکھ کر جلے ہے، ديکھو وہ کھڑا گھورے ہے، بے چارا نواب، اور زور زور سے ہنسنے لگي، ميں اس کي بے باکي پر حيران تھا، ميں کہا، سلطانہ کيا تجھے نواب سے ڈر نہيں لگتا، جان سے مار ڈالے گا تجھے۔
وہ بولي ڈروں ہوں، جرور ڈرو ہوں ليکن اتنا جانوں اور مجھے جان سے نہيں مارے گا، اس کا نخنشان کون پورا کے گا، ما ہي کروں گي نا، پھر ميرے مرنے کا سے پھائدہ، وہ اپني جرورت کيلئے مجھے جندہ رہنے دے گا، جرور جندہ رہنے دےگا، اور رہ بڑي لا پرواہي سے آگے چل دي۔
وہ ان ساري زيادتيوں کا بدلہ لے رہي تھي، ليکن وہ يہ نہيں جانتي کہ نقصان صرف عورت کا ہي ہوتا ہے، گھاٹے ميں صرف اس کي ذات رہتي ہے مجھے اس کي بيبا کي اچھي نہيں لگتي جيسے اس نے اپني روح کي معصوميت کو بے مول بيچ ديا ہو، ميں تو اس سلطانہ سے محبت کرنے لگا تھا جو نواب کي مارکھا کر بھي سہي رہتي تھي، ساس کي جھڑکياں کھا کر بھي سر جھکا ليتي تھي، اس دن ڈھيکڈار کے بيٹے نے بڑي رازداري سے کہا کيا کسي طرح يہ سلطانہ ہاتھ نہيں لگ سکتي، ور ميرا جي چاہا ميں آگے بڑھ کر اس کا گلا دبا دوں، ليکن سلطانہ کولر کا پاني لينے کيلئے خود ہي آگئي، ٹھيکيدار، کے بيٹے کي نظروں ميں ننگي بھوک تھي وہ بولا، آئو سلطانہ تمہيں اپني گاڑي ميں سير کروا لائوں۔۔۔چلو گي ميرے ساتھ، وہ گھبرائي نہيں، بس چل چاپ سے ديکھنے لگي اور بولي، صاحب ميرا مرد جندہ ہے مرا نہيں ہے، اور اس جيسا کوئي ہوتو جانو اور چلي گي، شايد وہ سب کچھ جو ميں ديکھتا رہتا ہو، محض نواب کو جلانے کيلئے ہو، ٹھيکدار کا بيٹا عورت خريدني جانتا ہے عورت جيتنا نہيں وہ تلمتا ہوا چلا گيا، اور پھر کبھي نہيں آيا، سلطانہ اپنے آپ کو بيچنا نہيں چاہتي تھي، اس روز جانے کيا بات ہوئي کہ نواب نے اسے چٹيا سے گھسيٹا اور چلا کر پيٹنا شروع کرديام حرا مجاري گير مردوں کے سنگ مجاخ کرے ہے، ميں تيرے سب لچھن سمجھوں ہوں، ميں نے پنج ہجار اس لئے تو نہيں بس بھرے تھے کہ دوسروں کے سنگ موج مناوے، سلطانہ کي ساس بھي چلا چلا کر الزام لگا رہي تھي، گندي گندي گالياں بک رہي تھي، سلطانہ زور زور سے رونے لگي، ہاںہان ميں دوسروں کے سنگ موج منائون ہوں ميں نہيں رہتي تيرے سنگ، جالم مرد، ديکھ لينا ايک دن جرور بھاگ جائوگي، تو ديکھتا رہ جاوے گا، سب نے کام روک ديا اور ان کي لڑائي ديکھنے لگے، اس کا باپ روک رہ تھا، ليکن وہ جنوني طورت پر سلطانہ کو مار رہا تھا، ميں تجھے جان سے ہي مار ڈالوں گا۔
بھولا پہلوان بھاگتا ہوا آيا، اس نے نواب کے دونوں بازوں سے تھام ليا اور چلايا، ہوش کر نواب مرجائے گي، تو کون ہے روکنے والا، اس کا باپ بوالا، ميں ہوں، ميں ہوں تمہاري بيويں کا يار، سور کي اولاد، بے بس عورت پرظلم کرتے ہيں، اور شرمندہ بھي نہيں ہوتے، عورت کو خريدتے ہيں، بے غريب اور پھر اس ظلم کرتے ہيں جيسے وہ کوئي جانور ہو، سلطانہ کھلي آنکھوں سے بھولا پہلوان کو ديکھ رہي تھي، اس کے
 
بال بکھرے ہوئے تھے پتہ نہيں بھولا نے نواب کے بازو چھوڑ دئيے اور بڑ بڑاتا ہوا واپس چلا گيا، کام دوبارہ شروع ہوگيا، سلطانہ کي سسکياں کبھي کبھار گونجتيں اور تھم جاتيں، سب مزدور چپ چاپ کام کررہے تھے، جيسے وہ احتجاج کرہے ہوں، ميں وہاں کھڑا گہري اداسي ميں ڈوب گيا جيسے يہ ساري عورتين آہوں کي زنجير ميں بندھي مسلسل منزل کي تلاش ميں ہوں، زندگي کي تلاش ميں ہوں، اور مرد ہاتھوں ميں کوڑے لئے انہيں آگے کو دکھيل رہے ہوں ان کي برہنہ پشتوں پر ماررہے ہيں، سلطانہ کي بھيگي آنکھيں سارے ماحول کو تسکين زدہ کر رہي تھي ، يہ ٹوکري اٹھائے مزدوري کرتي خوبصورت لڑکي ہماري زندگيوں کے خانے ميں کہيں بھي فٹ نہيں ہوسکتي، ميں جانتا ہوں ، اس کے جسم کے تو قيمت دي جاسکتي ہے ليکن اس ان کي روح ميں کوئي بھي جھانکنا پسند نہيں کرے گا، وہ ہميشہ تنہا رہے گي، ہميشہ زندگي کي تلاش ميں سر گرداں۔
روز کي طرح شام کا سورج ڈوب رہا تھا، شروع شروع سرديوں کي ٹھنڈي ہوا آہستہ آہستہ کپکپارہي ہے، زمين سے اٹھيتي دھوک بھي شامل ہو کر اسے بوجھل بنارہي ہے، ميں نے سر اٹھا کر ديکھا، دور کھڑا ٹھيکيدار سلطانہ کو ديکھ رہا تھا، سورج کي کوئي آخري شعاع کسي بے درد دھڑکي سے اندر آئي آئي ہوئي سلطانہ کے سراپے کو جلا رہي ہے، اور وہ يادوں ميں ڈوبي اداس کھڑي ہے، ياديں جس ميں اس کا گزرا بچپن ہوگا، ماں باپ کي ملائم شفقت ہوگي، مستقبل کي خوابناک جھلکياں ہوگي، اس عذاب سے بچنے کيلئے دل کو کوئي راہ نہيں سوچھتي، پتہ نہيں سلطانہ بھي اس درد کو سہانے کي کوشش کرہي ہو، ٹھيکيدار بغير مقصد کے کھڑا ہے، ميں جانتا ہوں وہ بھي ميري طرح مايوس ہوکر چلا چائے گا۔
نومبر کا سورج دھند آلود فضا ميں آہستہ آہستہ اوپر اٹھا رہا تھا کام شروع ہونے والا ہے، مزدور آہستہ آہستہ آکر عمارت کے پاس جمع ہورہے ہيں، سلطانہ اب پہلے سے بھي زيادہ خوبصورت لگتي تھي، سلطانہ کے چہرے پر کھنڈرا پن ہے، بھولا پہلوان آج پہلي بار آکر سلطانہ سے بات کر رہا ہے، ميں نے کہا کيوں پہلوان جي کيا ڈھونڈ رہے ہوں، کيا گم ہوگيا ہے، ہو بولا گم تو نہ جانے کيا کيا ہوجاتا ہے، ميں تو صرف اپني گم پيالياں دھونڈ رہا ہوں، شايد نواب لے آيا ہوں، اس نے سلطانہ پر ايک اچٹتي نظرڈالي سلطانہ، سلطانہ نے جلدي سے سر جھکا ليا، اور برتن اٹھا کر کھڑي ہوگئي، بھولا پہلوان بے دھياني سے ادھر ادھر ديکھ رہا تھا، اور پھر چلا گيا ہے، لگتا ہے الفاظ اس کے لبوں ميں قيد ہوگئے، ميں نے کہا سلطانہ کيا نواب کي مار سے تمہيں ڈر نہيں لگتا، وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولي مار مار، جب مرد کے پاس پيار نہيں ہوتا تو وہ مارے سے کام چلاوے ہے، اور جندگي صرف مار کھا کر تو نہيں گجرتي، ميں تو اس مار سے تنگ آگئي ہو، پھر اسنے تالاب کے کنارے سے اپنے برتنوں کو اٹھايا اور چولہے کے پاس رکھنے کو چل پڑي اب نواب سلطانہ کو پہلے کي نسبت کم مارتا تھا، ميں جانتا تھا، پہلوان اپني دکان پر بيٹھا سلطانہ کو ديکھتا رہتا تھا، اسکے چہرے پر عجيب سي ملائمت آگئي ہے، وہ اپنے گاہکجوں کے ساتھ بڑي نرمي سے بولتا ہے نواب سلطانہ کي تيز نظروں سے کائف ہو کر دوسري طرف رخ موڑ ليتا ہے، اور بڑ بڑ انے لگتا ہے ، مجھے لگتا ہے جيے سلطانہ کے چہرے پر استہزا آميز مسکراہٹ کھد گئي ہے، وہ ميرا نواب کا، اپني ساس کا مذاق اڑاتي ہوئي لگتي ہے، اس کس طاقت نے خود سر بناديا ہے، يا پھر وہ بے حسي کے اس درجے ميں داخل ہوگئي ہے جہاں سب کچھ بے وقت اور سہارے کے قابل لگتا ہے داکا دروازہ سب پر بند ہوجاتا ہے۔
اس روز جب ميں ہميشہ کي طرح داخل ہوا تھا تو نواب کے سارے رشتہ دار فکر مند چہروں کے ساتھ ايک جگہ جمع تھے کام کا وقت ہوگيا تھا۔
ميں نے کہا کيا بات ہے کام شروع کيوں نہيں ہوا، تو خيرو نے کہا، آج ہم دھاڑي نہيں لگائيں گے، ہمار گير ہاجري لگادومں، ميں جانتا تھا کہ کوئي بہت بڑي بات ہي انہيں مزدوري سے روک سکتي تھي، عورتيں گھونگھٹ نکالے الگ کھڑي باتيں کر رہي ہيں، ان ميں سلطانہ نہيں تھي، ميں گھبرا کر پہلوان کي دکان کي طرف ديکھا وہ چائے بنا رہا تھا، اور ايک دو گاہک بيٹھے چائے پي رہے تھے، کيا بات ہے؟ ميں غصے سے بولا۔
بات کيا ہووے ہے صاحب يہ سطلانہ ہرام جادي رات کو نہ جانے کون سے عاشخ سے مل کر آوے ہے، ميں تو تھکا ہارا سو جائوں ہوں اور يہ موجاں مناوے ہے، مار مار تھک گيا يہ منہ سے بولے ہي نہيں ہے، نواب زمين پر بيٹھ کر رونے لگا، بے بسي سے ميں پہلي بار اسے روتا ديکھ رہا تھا، مجھے لگا جيسے نواب کا خوبصورت وجود ايک دم بہت سکو گيا ہو، اس کي طاقت کا گمان سلطانہ نے توڑ ديا تھا، سلطانہ جو خريد ہوئي عورت تھي، صاحب ميرے تو پنج ہجار مپھت میں جاياويں ہيں، ہاں ہاں پہنج ہجار جايا جاويں ہيں، ميں اپنے آپ کو بيچون ہي کويں نا، سلطانہ اس کے سامنے کھڑي غصے سے چلا رہي تھي اس کا چہرہ چوٹوں سے سوجا ہوا تھا، اس کے پھٹے کرتے سے اس کا جسم نظر آرہا تھا، اس کي آواز ميں اس کي مجروح ان کي چيح تھي، تو پنج ہجار کو کيا جانے، توتو پنج لاکھ کماسکتي ہو، تيرے عاشخ جو ديويں ہيں تجھے، نواب شير کي طرح دھاڑا اور اسے مارنے لگا۔
 
لائو ميرے بنج ہجار، جائو جہاں مر جي جائو، لائو ميرے بنج ہجار، سلطانہ وہي زمين پر بيٹھي بين ڈالنے لگي، ميں اس کے پاس جا کر اسے تسلي دينا چاہتا تھا، ميں نے کہا سلطانہ تمہیں ايسا نہيں کرنا چاہئيے تھا، قبيلے والے عزت دار آدمي ہيں، کاي تم محبت دار نہيں ہو، تم اپني جورو بيٹي سے کام کيوں نہيں کرواتے، کيوں انہيں گھر کي چار ديواري ميں سنبھال کر رکھ ہو، اس لئے تاکہ وہ تمہاري محبت ديکھ رہي تھي، جيسے اس کے اندر سے سارے دکھ سکھ کے جذبات بنجر ہوگئے ہوں۔
کہاں سے دوگي پانچ ہزار نواب کو، جانتي ہوں پانچ ہزار جمع کرنا کتان مشکل ہے، ميں کچھ کہتے کہتے رک گيا، نواب نے بھي تو کھريدا ہے نام مجھے اب ميں اپنے کو اپني مرجي سے بچوں گي، اپني مرجي گا گاہک کے پاس، اور اس کي چيخيں ايک دم بلند ہوگئيں، احتجاج کرتي ہوئيں، وہ اپني زندگي ميں آئي ساري محروميوں کا ماتم کرتي تھي، شايد اور وہ سارے خاموش اسے ديکھ رہے تھے، خوفزدہ ليکن بھپرے ہوئے، پہلوان کي دکان کے تھڑے پر کھڑا اس سارے تماشے کو ديکھ رہا تھا، وہ پہلے کي طرح اندر نہيں آيا، ليکن تيزي سے سگريٹ کے کش لگاتے ہوئے اور گاڑھے دھوئيں کو باہر نکالتے ہوئے وہ بہت چين لگ رہا تھا، ميں اس کے پاس چلا گيا اور کہا، پہلوان جي نہ جانے کون سا بانکا سلطنہ کا دل جيت کر لے گيا ہے، کچھ جانتے ہيں آپ؟ سلطانہ سے جاکر پوچھو مجھ سے کيا پوچھتے ہو، سالا مارتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ اس سے ہميشہ محبت کرتي رہے گي، صاحب عورت کا دل کانچ کا ہوتا ہے، مارو گے تو ضرور ٹوٹے گا اور وہ تيز تيز بازار ميں مڑ گيا، پہلوان کي دکان کا چولہا ٹھنڈا تھا۔
کام ہميشہ کي طرح ہو رہا تھا، مزدور سڑک کے کنارے روڑي ڈھيرے پر بيٹھے روڑي کوٹ رہے ہيں اور آپس ميں فحش مذاق کررہے ہيں، خواہش، خريدي گئي عورتيں، سروں پر اٹھايا، دنيا کي تماشا گاہ ميں انساني بازي گر کي طرح زندگي کے تنے رسے سے پھر چلنے کي کوشش ميں گر گر پڑتاہے ، نواب سلطانہ ميں پہلوان اور دنيا کے سارے انسان ليکن پھر بھي چلنے پر مجبور ہيں۔
ميں نے جاتے جاتے سلطانہ کو مڑ کر ديکھا ہے، نواب سلطانہ کے پاس بيٹھا روٹي کھا رہا ہے، صبح کي ساري بات ايک تماشا لگتا ہے، ميں مسکراتا ہوں، سوچ کے کتنے انداز ہيں، سرديوں کا چاند عمارت کي بلندي پر جھکا نيچے جھانک رہا ہے، چولہوں سے اٹھتا دھواں دھند ميں شامل ہوا کر اسے بھي گہرا کر رہا ہے، دھند ميں لپٹے انسان کي کوشش، اور چاند اکيلئے مسافر کي طرف اداس چہرہ لئے دھند کے ہلکے ہلکے بادلوں ميں محو سفر، راہيں ہي راہيں، منزل کے بغير۔
سلطانہ بھاگ گئي، گيٹ ميں داخل ہوتے ہي ايک مزدور بھاگا ہوا آيا، ميں نے مڑ کر پہلوان کي دکان ديکھي وہ بند تھي، پتہ نہيں کس کے ساتھ، وہ نواب کيلئے پانچ ہزار چھوڑ گئي ہے جي، پورے پانچ ہزار بڑي خراب تھي جي وہ تو ہم نواب کا لحاظ کرتے رہے نہيں تو ہم بھي پيسے دے سکتے تھے، پتہ نہيں کون سالا بھگالے گيا سالي کو، وہ زور سے ہنسا چپ کر بند کرو يہ بکواس ميں چلايا اور مجھے لگا ميرے جسم سے کوئي چيز ہولے ہولے زمين ميں اتر رہي ہو، سلطانہ کے رشتہ دار سب چپ چاپ دائرے ميں بيٹھے باري باري حقے کي نوک کو تھامتے ہوئے حقہ پي رہے تھے نواب ہاتھ ميں پانچ ہزار روپوں کي گھتي تھامے انہيں بار بار غور سے ديکھ رہا تھا، اور سلطانہ کي ساس اپنے نومولود بچے کو دودھ پلاتے ہوئے بول رہي تھي، اگر کوئي جنا ہوتا تو وہ يوں نہ بھاگتي، مائوں ميں جنجير جو ہوتي، اور يہ بناب بھي تو دان رات مارتا تھا، سوچے تھا عورت ناس جنور ہے، جنور گائي بھي سوٹي کاھنے پر رسہ تڑانے ہے وہ تو آخر جناني تھي جلم کے ساتھ کب تک نبھاتي، جيادہ نخشان نہيں ہوا ماں، اب ميں کوئي ہجار دو ہجار والي عورت بياہ لوں گا، تين ہجار پھر بھي منافع ہو نا اماں، اور وہ بڑے اطمينان سے روپوں کو اپنے صافے کے پلوں میں باندھ کر اور اماں کو ديتے ہوئے بولا، پنج ہزار کو جمع کرتے کرتے ميں تو اپني آدھي جواني بتاديتا، ليکن سلطانہ ايک ہي بلے ميں مجھے امير بناگئي اور وہ ہنسنے لگا، مجھے لگا جيسے وہاں پر بيٹھے سارے مرد خوفناک غفريت ہوں، جو عورتوں کو منہ ميں پکڑے انہيں بھنھبور کر کھا رہے ہوں، باقي صرف نواب کو ديکھنے لگے اور پھر ايک ايک کرکے عمارت کي طرف بڑھ گئے، عورتوں نے اپنے بچوں کو چار پائيوں پر لٹا ديا، اور مردوں کے پيچھے چل پڑيں۔
ميں کھڑا سوچ رہا تھا کہ کيا سلطانہ ايک حقيقت تھي يا سايہ، کيا اس کے دامن کے نھنے گھنگرو کي آوازيں ميں نے کبھي سن تھي يا ميرا تصور ہي تھا، ميرا دل بوجھ گلے دبا جارہا ہے،معلوم نہيں يہ بوجھ سلطانہ کي کھوجانے کا ہے يا اپني محرومي کا، اور کيا سلطانہ جينے کي راہ کي کھوج لگانے نکلي ہے اور کيا، راہ سے مل جائے گي، بھولا پہلوان کي دکان بند ہے اور ايک کتيا اپنے بچوں کو لئے ٹھنڈے چولہے کي راکھ ميں بڑے اطيمنان سے بيٹھي ہر آہٹ پر اپني آنکھيں کھولتي اور پھر بند کرليتي ہے۔
 
Status
Not open for further replies.
Back
Top