Kartay Kya Ho? By Habib Akram Column

کرتے کیا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔ حبیب اکرم

یہ وزیروں اور مشیروں کی فوج آخر کرتی کیا ہے؟‘ کورونا پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ سوال پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے اٹھایا۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سماعت کے دوران اٹھنے والا ہر سوال عدالتی حکم نامے کا حصہ بھی بنے اس لیے وزیروں‘ مشیروں کے بارے میں اٹھا نکتہ تقریر تک ہی رہا، تحریر میں نہیں آیا۔ لیکن پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی خواہش ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد اسلام آباد پر مسلط ہو جانے والے وزیروں اور مشیروں سے یہ سوال تو ہو کہ ''تم آخر کرتے کیا ہو؟‘‘۔ عوام کی یہ خواہش آج کی نہیں، اس حکومت کی تشکیل کے فوری بعد ہی پیدا ہو گئی تھی جب وزیروں مشیروں کے خیالات عالیہ ان کے دہنوں اور زبانوں سے ہوتے ہوئے عوام کے سامنے آنے لگے۔ یقین مانیے حکمرانوں کا یہ سارا گروہِ جواناں 'کرتے کیا ہو‘ کی گہرائی میں ایسا ڈوبے گا کہ پھر ابھر ہی نہ پائے۔ یہ تو بہت بڑی بات ہے کہ ان میں سے کوئی اپنی وزارت یا مشاورت کے محکمے سے متعلق حقائق و اہداف کا ذکر کر سکے، اگر ان میں سے کوئی سر اٹھا کر اتنا ہی بتا دے کہ اس نے آج کا دن کیسے گزارا تو یقین مانیے سننے والے سر جھکانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم کی ایمانداری کا بوجھ اٹھائے اس قوم کو دو سال ہونے کو آئے اور شاید کچھ عرصہ مزید بھی اٹھا لے مگر ان کے نالائق ساتھیوں کی جواب طلبی بھی تو کوئی کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو موبائل ایپ بنانے کی شوقین یہ حکومت کوئی ایسی ایپ ہی بنا ڈالے جس کے ذریعے ہمیں سیاست کی اس فوجِ ظفر موج کی مصروفیات کا علم ہوتا رہے۔
وزیراعظم تو سکّہ بند ایماندار ہیں اور مصروف بھی نظر آتے ہیں لیکن 'کرتے کیا ہو‘ کا سوال اگر وہ اپنے چنیدہ ساتھیوں سے پوچھتے رہیں تو جہاں عدلیہ میں برسیبل تذکرہ اٹھے سوال کو جواب مل جائے گا‘ وہا ں ان پر اپنی کابینہ کی صلاحیت بھی کھل جائے گی۔ سب سے پہلے یہ سوال مشیر خزانہ سے ہونا چاہیے۔ صاحبِ موصوف دساور سے آئے، قرضوں میں ڈوبے ملک پر مزید قرضے چڑھائے۔ صنعتی پیداوار اتنی کم ہوگئی کہ تاریخ میں نہیں ہوئی ہوگی۔ چھوٹی صنعتوں کی ترقی یا زراعت کے حوالے سے دھیلے کا کام نہیں ہوا۔ ملکی کرنسی اتنی گری اور اس تیزی سے گری کہ خطّے میں اس سے نیچے اب کوئی سکّہ نہیں رہا۔ وہ سرکاری ادارے جو پہلے جونک بنے خون پی رہے تھے، اب اژدہا بنے وسائل کو نگلتے جارہے ہیں۔ عملی طور پران کے دورِ مشاورت میں ملک کے ہرشخص کی حقیقی آمدنی آدھی ہوکر رہ گئی ہے۔ وفاق ہر قسم کے ترقیاتی کاموں کو روکے بیٹھا ہے اور صوبوں کو اجازت نہیں کہ وہ کوئی بڑا منصوبہ شروع کرسکیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنا ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک تھا لیکن اس کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ سارے حالات بتا رہے ہیں کہ وزارت خزانہ میں بیٹھے لوگ کچھ نہیں کرتے۔ اگر یہ لوگ ڈھنگ سے اخبار ہی پڑھ رہے ہوتے تو اب تک ملکی معیشت چلانے کے قابل ہو جاتے۔
وزیراعظم کے دیانت کے دعوے کی تائید کورونا کیس میں بینچ کی طرف سے بھی کی گئی۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی تصویروں میں وہ اجلاس کرتے بھی نظر آتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں اطمینان رکھیں، وہ کچھ نہ کچھ کررہے ہوں گے‘ لیکن وفاقی وزیر برائے بحری امور کیا کرتے ہیں؟ ان کے بارے میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ چین ہی چین لکھنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ راوی نے انہیں آج تک کچھ کرتے نہیں دیکھا۔ ان کے ذمے سمندروں، بندرگاہوں اور پانی کے جہازوں کا معاملہ ہے۔ پاکستان بلک رہا ہے کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے علاوہ نجی شعبہ جہاز رانی میں آگے آئے لیکن دو سال کی تبدیلی کا حال یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی نے تنکا بھی نہیں توڑا۔ بندرگاہوں کے نظام میں کوئی بہتری آئی نہ ہی جہاز سازی میں کوئی قدم اٹھا۔ چھوٹے چھوٹے ملک اس میدان میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور ہمارا وزیر برائے بحری امور اتنا قابل ہے کہ کراچی کا کچرا اٹھانے نکلا اور یہ بھی نہ کر سکا۔ اب تو ان سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ میاں، کرتے کیا ہو؟
وزیراعظم کی وجاہت، ذہانت، محنت اور مقبولیت مسلّم‘ مگر ان کے ایک اور قریبی ساتھی سے تو 'کرتے کیا ہو‘ کا سوال ضروری ہے۔ سیاست کی ڈرامائی تشکیل کے اس اداکار کے ذمے وزیراعظم نے آبی وسائل کی ترقی لگا رکھی ہے۔ گزشتہ دو سال میں ان موصوف کے منہ سے قوم نے پانی کے صرف ایک وسیلے کا نام سنا ہے اور وہ ہے مہمند ڈیم۔ اس ڈیم کی تعمیر اور ٹینڈر کا فیصلہ پچھلی حکومت کرکے جاچکی ہے۔ اس کا کریڈٹ لینا باقی تھا لہٰذا یہ کام جناب پورے زور اور اس سے بھی زیادہ شور کے ساتھ کر چکے ہیں۔ تربیلا ڈیم میں مٹی کا جمع ہونا، غازی بروتھا ڈیم پر کام، دریاؤں کے حوالے سے کوئی بات، پانی سے بجلی بنانے کا کوئی خیال اگر کسی نے ان صاحب کی زبان پر آتا دیکھا ہو تو اس فقیر پُر تقصیر کو معاف کردے ورنہ 'کرتے کیا ہو‘ کا سوال دوبار پوچھے۔ عام طور پر یہ صاحب ایک متعین عرصے بعد ایک ایسی عظیم الشان حرکت فرماتے ہیں کہ جس کے بعد انہیں غائب ہوجانا پڑتا ہے۔ آخری حرکت ٹی وی پروگرام میں میز پر بوٹ رکھنا تھی۔ اس کے بعد شروع ہونے والا غیاب اب ختم ہوچکا ہے اور موصوف کورونا وائرس کے ابھرتے ہوئے ماہرین میں شامل ہوچکے ہیں۔ اگلی عظیم الشان حرکت سے پہلے پہلے ہی' کرتے کیا ہو‘ کا سوال پوچھ لیا جائے تو مناسب ہوگا، ورنہ پھر موقع ملے نہ ملے۔
وزیراعظم کے لیے مردم شناس ہونا ضروری ہے کہ امور حکومت چلانے کے لیے بہترین آدمیوں کا انتخاب کرے۔ ہمارے وزیراعظم صداقت وامانت کے ہر پیمانے پر پورے اترتے ہیں اس لیے ان کی مردم شناسی پر بھی سوال نہیں اٹھتا‘ لیکن وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے اوورسیز پاکستانی سے پوچھ کر دیکھ لیا جائے کہ 'کیا کرتے ہو‘۔ ان صاحب کے بارے میں ہم سوائے اس کے کیا جانتے ہیں کہ عمر بالی ہے، بدن کسرتی ہے، شکل اچھی ہے اور پاسپورٹ دو ہیں۔ وزیراعظم کی دوربین نگاہوں نے یقیناً اس نوجوان میں کچھ دیکھ لیا ہوگا کہ اسے اپنی کابینہ کا حصہ بناکر سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت سونپ ڈالی‘ لیکن یہ کیا کرتے ہیں، اس بارے میں اسلام آباد میں کوئی نہیں جانتا۔ ان کی سرگرمیوں کے بارے میں جو اطلاعات آتی ہیں ان میں سے ایک بھی ان کے زیرِ نگیں محکموں سے متعلق نہیں۔ عرب ملکوں میں بھارتی شہری پاکستانیوں سے کہیں زیادہ ہوچکے ہیں، ہمارے لوگ محض مزدوری کے لیے بلائے جاتے ہیں اور اعلیٰ ملازمتوں کے لیے کہیں اور دیکھا جارہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی بڑی مانگ ہے، اس حوالے سے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ باہر جانے والوں کے لیے بنیادی تربیت کیا ہونی چاہیے، کون سے ہنر میں انہیں طاق ہونا ہے، کوئی کچھ نہیں جانتا۔ اس لیے ان سے پوچھنا ہی بنتا ہے کہ میاں کرتے کیا ہو؟
وزیراعظم کہتے ہیں کہ پاکستان کی دو طاقتیں ہیں، ایک ایمان اور دوسرے نوجوان۔ یہ بات غالباً وہ وزیر برائے سیفران کو دیکھ کرکہتے ہیں۔ ہماری قوم نے ایسے نوجوان کم ہی دیکھے ہیں جنہیں جان اللہ کو دینے پر اتنا ایمان ہو جتنا ان صاحب کو ہے۔ ان کے بارے میں حتمی طور پر علم نہیں کہ وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں یا انسداد منشیات کے محکمے سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں خصوصی و قبائلی علاقہ جات کی وزارت سے بھی کوئی لینا دینا ہے۔ جس شخص کے بارے میں کئی اطلاعات ہوں بلکہ جتنے منہ اتنی باتیں ہوں تو اسی سے پوچھ لینا چاہیے۔ ان کے بارے میں عام تاثر ہے کہ دنیا میں اللہ کے بندے جو کام صلاحیت اور محنت سے کرتے ہیں، یہ باتوں کے زور پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پکڑے جاتے ہیں۔ حوالے کے لیے رانا ثناء اللہ پر منشیات کا کیس ملاحظہ ہو، جس میں حکومت کو اتنا نقصان رانا صاحب نہیں پہنچا سکے جتنا تنِ تنہا مردانہ وار ان صاحب نے پہنچا دیا۔ اپنی حکومت کی سبکی کا باعث بننے کے علاوہ اب تک انہوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے ہیں، کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے ان کی بابت پوچھنے کا حق تو بنتا ہے کہ حضرت، کرتے کیا ہو؟​
 

Back
Top