Kashmir Needs You

قبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989سے اب تک اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران 95ہزار471بے گناہ کشمیریوں کو اپنا پیدائشی حق، حق خود ارادیت مانگنے کی پاداش میں شہید کیا ہے جن میں سے 7ہزار135کو دوران حراست شہیدکیا گیا ۔
کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی جانب سے آج انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق قتل کے ان واقعات سے 22ہزار910خواتین بیوہ اورایک لاکھ 7ہزار780بچے یتیم ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران فوجیوں نے 11ہزار175خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ ایک لاکھ9ہزار451مکانوںاور دیگر املاک کو تباہ کیا۔رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے بھارتی پولیس اور فوجیوں نے کم سے کم 8ہزار کشمیریوں کو حراست کے دوران لاپتہ کیا۔
حریت رہنمائمحمد یاسین ملک ، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان ،سیدہ آسیہ اندرانی ،فہمیدہ صوفی،ناہیدہ نسرین ، الطاف احمد شاہ ، ایازمحمد اکبر ، پیر سیف اللہ ، راجہ معراج الدین کلوال ، شاہد الاسلا م ، فاروق احمد ڈار ، محمد اسلم وانی ، تاجر ظہور وٹالی، سیدشاہد یوسف شاہ، سید شکیل یوسف شاہ اور غلام محمد بٹ مسلسل نئی دلی کی تہاڑ جیل میں نظربند کرہیں جبکہ حریت رہنماءمسرت عالم بٹ، بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ، جنرل سیکریٹری محمد اشرف بٹ، امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر حمید فیاض ، ایڈووکیٹ زاہد علی ، جمعیت اہلحدیث مولانا مشتاق ویری ، بار کے ارکان ایڈووکیٹ نذیر احمد رونگا، ایڈووکیٹ ہلال اکبر لون ، مولانا برکاتی، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، گلزار احمد گلزار ،حکیم شوکت ، معراج نندہ، ظہوراحمد ، شکیل احمد بخشی ،بشیر کشمیری،نور محمد کلوال ، مشتاق اجمل ڈار، بشیر بویا، محمد امین منگلو، عبدالرشید منگلو، عبدالغنی بٹ ،محمد رفیق گنائی ، ظہور احمد بٹ، جاوید احمد بٹ، محمد اسحاق گنائی ، نذیر احمد شیخ، غلام محی الدین پیر ، اسد اللہ پرے ، عبدالاحد پرے ، فیرو ز احمدخان ، قاضی یاسر احمد، محمد یاسین خان ، جموںوکشمیر اکنامک الائنس کے چیئرمین ، صحافی آصف سلطان، قاضی شبلی،عمر فاروق بٹ، لطیف احمد کالو، ظفر الاسلام شاہ ، عمر فاروق ڈار ، سفیر احمد بٹ اور عبدالغنی ہارون کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی مختلف جیلوں میں نظر بندہیں۔ سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ ، فارو ق عبداللہ، محبوبہ مفتی ، انجینئر رشید احمد اور سینکڑوں دیگر پارٹی رہنماءاور کارکن بھی چار اگست کے بعد سے مسلسل غیر قانونی طورپر نظربند ہیں۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ قابض انتظامیہ نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سیدعلی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو بھی مسلسل گھرمیں نظربند کررکھا ہے اور انہیں سیاسی سرگرمیوں، عوامی اجتماعات سے خطاب اور نماز جمعہ ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
دریں اثنا حریت رہنماﺅں نے سرینگر میں جاری اپنے الگ الگ بیانات میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کی ابتر صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے اپنی ٹیمیں مقبوضہ علاقے بھیجیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کےلئے بھارت پر دباﺅ ڈالیں۔
@Recently Active Users
 

Attachments

  • cat=105&_nc_ohc=LOhig2Sz4HoAQmab6kjoITnl5Ew0yOccZeWIhFNPrrNJKRvHQ7ysv_OgA&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    cat=105&_nc_ohc=LOhig2Sz4HoAQmab6kjoITnl5Ew0yOccZeWIhFNPrrNJKRvHQ7ysv_OgA&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    82.5 KB · Views: 56
  • cat=100&_nc_ohc=m-guAqEodEQAQk4SZz2R_Xzqr5Df61d-SqLDVYCys1_wtiZtFAQ3I2GIQ&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    cat=100&_nc_ohc=m-guAqEodEQAQk4SZz2R_Xzqr5Df61d-SqLDVYCys1_wtiZtFAQ3I2GIQ&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    106.9 KB · Views: 49
  • cat=109&_nc_ohc=zNWNMUuofR4AQlUudaIDIWFLF9_VTR7Smc2soSQxBdeY5YY9u6TPtffow&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    cat=109&_nc_ohc=zNWNMUuofR4AQlUudaIDIWFLF9_VTR7Smc2soSQxBdeY5YY9u6TPtffow&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    79.4 KB · Views: 45
  • cat=105&_nc_ohc=FBQX9FZGFywAQkGlOi5Rx6ZkIsK3GHsgvGAseSsSuAX0qZUW0a12bDr7Q&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    cat=105&_nc_ohc=FBQX9FZGFywAQkGlOi5Rx6ZkIsK3GHsgvGAseSsSuAX0qZUW0a12bDr7Q&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    124.2 KB · Views: 52
  • cat=109&_nc_ohc=5BLR_l8FU6wAQlzAi1Q9IAj_HcxJ5DZ7vw6Uiy5nTJ5K0p9ceE2k7owXg&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    cat=109&_nc_ohc=5BLR_l8FU6wAQlzAi1Q9IAj_HcxJ5DZ7vw6Uiy5nTJ5K0p9ceE2k7owXg&_nc_ht=scontent-lht6-1.jpg
    98.5 KB · Views: 45

کشمیریوں کے لیے صرف دعا ہی ہے
اب اداروں کو کنٹرول کیا جا رہا ہے
اور تقسیم کشمیر پر اعتماد میں لیا جا رہا ہے
زبردستی فیصلے مسلط کرونے کی کوشش کی جارہی ہے
جو سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں
انکا کیا کا م کالج میں لیکچر دینا ۔
آپ تو سرحدوں کے محافظ ہیں ۔
کشمیری قوم پر قیامت برپا ہے تین مہینے گزر چکے کرفیو ہے
ایک طرف انڈیا آپ کا بدترین دشمن ہے
دوسری طرف انڈین فوجیوں کو ہار پین جارہے ہیں اور مٹھائی کھلائی جارہی ہے
انٹرنیشنل بارڈر کھول سکتی ہے تو کشمیری ایک دوسرے سے کیوں نہیں مل سکتے
ایک طرف آپ کے بقول انڈیا کو شدید خطرہ ہے آپ سے
تو دوسری طرف جموں اور لداخ پر قبضہ
ایک طرف آپ کے بقول کشمیر شہ رگ ہے
دوسری طرف تین مہینوں سے کرفیو ہے آپ نے کیا
کشمیر کی تقسیم کرنے کے بعد طلباء کو اعتماد میں لینا
ناممکن ہے ۔
کالج میں خودمختار کشمیر کے نعرے اس بات کا واضح ثبوت ہیں
کہ کشمیری صرف آزادی چاہتے ہیں اور صرف آزادی


کرفیو کے 104دن بھوک سے بلکتے بچےکمزور ہوتے جسم بغیر دوائی کے مریض
اے زمین آسمان کے بادشاہ ہماری
ماؤں بہنوں بھائیوں کی غیبی مددفرما

Basss ghaib say madad ki dua kar sktay hen
Kurh sktay hen aanso baha sktay he Hum
Oonchi awaz say bolna rona mnaa he siskiab ly sktay hen aaahein bhar sktay hen ,
Bolen zuban kat de jaye gi lapata ho jain gay ghdar ya kafir keh ker maaar diye jain ga or ye kaaam koi aur nhi hanaray apny karein gay

Allah hamaray Kashmiri behan bhaion kimadad frma ghaib say tu qadar mutlaq he Kun Keh de Ya Allah teray Kun k intizar men hen ,
 
دل چاہتاہے
‏غارِاصحابِ کہف میں جاکرسوجاؤں
‏جب نیندسےاٹھوں
‏میرازمانہ گزرچکاہو
‏میرےسکےکھوٹےہوچکےہوں
‏میری بات کوئی ناسمجھتاہو
‏مجھےکوئی ناجانتاہو
‏رب سےپوچھوں
‏بتاکہاں جاؤں
‏رب کہے
‏تیرےزمانےاب نہیں رہے
‏انسان سبھی مرچکےہیں
‏صرف ہجوم زندہ ہے
‏جنون زندہ ہے
‏تولوٹ جا
‏غاراصحاب کہف میں پھرسےسوجا

نورالہدی شاہ​
 
تحریر حامد میر
September 23 2019

ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں، ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔
پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی ناکامی کو چھپایا جا رہا ہے، جو بھی اس ناکامی کی وجہ جاننے کیلئے سوال اٹھائے گا اسے غدار، کرپٹ اور نجانے کیا کیا کہا جائے گا لیکن سوال تو اٹھے گا اور اس مرتبہ غدار اور کرپٹ اہل صحافت کو میڈیا ٹربیونلز سے ڈرانے والوں کو جواب بھی دینا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان نے پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت سے ایک مشترکہ بیان پیش کر دیا ہے جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔
بھارت نے فوری طور پر شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پچاس سے زائد ممالک کی حمایت کا دعویٰ جھوٹ ہے۔
اگلے دن 12ستمبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے بیان کو 58ممالک کی حمایت حاصل ہے اور عمران خان نے ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔
بھارت نے اس بیان کی بھی تردید کر دی لیکن پاکستانی قوم کو یہی بتایا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو زبردست سفارتی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور 27ستمبر کو وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نریندر مودی کو بے نقاب کر دیں گے۔
پاکستان کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 19ستمبر تک بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا تھی تاکہ اس قرارداد کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر کونسل کا خصوصی اجلاس بلایا جا سکے، اس قرارداد کو پیش کرنے کیلئے پاکستان کو کونسل کے 47میں سے صرف 16رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔
19ستمبر کو دوپہر ایک بجے کی ڈیڈ لائن تھی، میں نے صبح سے اسلام آباد کے دفتر خارجہ اور جنیوا میں اہم لوگوں سے رابطے شروع کئے تاکہ پاکستان کی قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک کے نام پتا چل سکیں۔ پہلے کہا گیا فکر نہ کریں تھوڑی دیر میں قرارداد جمع ہونے والی ہے پھر نام بتائیں گے۔
جب ڈیڈ لائن گزر گئی تو کہا گیا کہ قرارداد تو جمع ہی نہیں ہوئی۔ یہ سُن کر میں نے پوچھا کہ ہمارے وزیراعظم نے 58 ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیا تھا آپ کو تو صرف 16 ووٹ درکار تھے پھر قرارداد جمع کیوں نہ ہوئی؟ کہا گیا شاہ محمود قریشی صاحب سے پوچھئے، تو جناب سوال بڑا سادہ ہے، اگر آپ کے پاس 16 ممالک کی حمایت نہیں تھی تو آپ نے 58 ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا اور اگر آپ کے پاس مطلوبہ حمایت موجود تھی تو آپ نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں قرارداد کیوں جمع نہ کرائی؟ کیا چکر چل رہے ہیں اور کون کس کو چکر دے رہا ہے؟
میرے سادہ سے سوال کا جواب یہ نہیں ہے کہ تم غدار ہو، تم بلیک میلر ہو، تم کرپٹ ہو۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 47 ارکان میں چین شامل ہے، سعودی عرب، قطر، بحرین، عراق، نائیجیریا، تیونس اور صومالیہ شامل ہیں۔
ان مسلم ممالک کے علاوہ اس کونسل میں ٹوگو، برکینا فاسو، سینی گال اور کیمرون بھی شامل ہیں جو او آئی سی کے رکن ممالک ہیں۔
پاکستان ان مسلم ممالک کی حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکا؟ اس کونسل میں افغانستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔
ان دونوں مسلم ممالک کے عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں لیکن حکومتیں بھارت کے ساتھ ہیں لیکن کیا پاکستان نے ڈنمارک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا حامی ہے؟
اگر 16 ممالک کی حمایت نہیں مل سکی تو یہ اس لئے ایک بڑی ناکامی ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل خود اپنی حالیہ رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرچکی ہے لہٰذا اس معاملے کو خصوصی اجلاس میں زیر بحث لانے کیلئے 47 میں سے 16 ممالک کی حمایت حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔
چلیں اگر 16 ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا تو کوئی بات نہیں، لیکن ناکامی کو چھپانے کیلئے 58 ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا گیا؟
کیا پاکستانی قوم کے ساتھ جھوٹ بول کر آپ کشمیر کے مقدمے کو مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور ؟
اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا اجلاس 27ستمبر کو ختم ہو جائے گا۔ اس دن نیویارک میں وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے۔
ہمیں یہ تو نہیں بتایا جا رہا کہ 19ستمبر کو پاکستان نے جنیوا میں قرارداد کیوں پیش نہ کی؟ ہمیں بار بار کہا جا رہا ہے کہ 27ستمبر کو عمران خان جنرل اسمبلی میں مودی کے پرخچے اڑا دیں گے۔ اس جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ کوئی پاکستانی وزیراعظم مسئلہ کشمیر نہیں اٹھائے گا۔
میں نے اس جنرل اسمبلی میں 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سنی تھی جس پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بھارتی صحافیوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔
2016ء میں نواز شریف نے اسی جنرل اسمبلی میں کشمیری مجاہد برہان وانی کو خراجِ تحسین پیش کیا تو پورے بھارت میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ یقیناً عمران خان بھی جنرل اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کریں گے لیکن کشمیریوں کو صرف تقریروں کی نہیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
اگر آپ بھارت سے جنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم جنیوا میں 16ممالک کی حمایت سے ایک قرارداد تو پیش کرسکتے تھے لیکن افسوس کہ قرارداد پیش کرنے کے معاملے میں پاکستانی قوم کیساتھ دھوکہ کیا گیا۔
اگر ہم کشمیر کے معاملے پر اپنوں کیساتھ سچ نہیں بولیں گے تو دنیا کو کیا سچ بتائیں گے؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کی لڑائی میڈیا نے لڑنا ہے کیونکہ میڈیا فرنٹ لائن آف ڈیفنس ہے۔
یہ لڑائی ہم نے پہلے بھی لڑی تھی، آئندہ بھی لڑیں گے۔ میڈیا ٹربیونلز کی زنجیریں پہن کر بھی لڑیں گے۔ ان زنجیروں کو بھی توڑیں گے اور کشمیریوں کی زنجیروں کو بھی توڑیں گے لیکن خدارا کشمیر کے نام پر دھوکہ دہی بند کی جائے۔
اپنی سیاسی و معاشی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے کشمیر کے نام پر شور نہ مچایا جائے۔ کشمیر کا مسئلہ صرف گرجنے سے نہیں بلکہ برسنے سے حل ہوگا کیونکہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔
ر​
 
Back
Top