Tanz-o-Mazah Kaun Kya Hai? By Shafiq Ul Rehman

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
کون کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ تحریر : شفیق الرحمان

who.jpg

''کون کیا ہے‘‘ (who is who) کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالاتِ زندگی اکثر چھپتے ہیں، جنہیں بیشتر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ شاید اس لئے کہ فقط اُن ہستیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے، یا اس لئے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔
زمانہ بدل چکا ہے۔ قدریں بھی بدل چکی ہیں۔ غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے۔ وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔
چنانچہ نئے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ''کون کیا ہے‘‘کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے:۔
ذکی الحِس۔ نئی دہلوی: اوائلِ جوانی میں (لگاتار سگریٹ اور چائے نوشی سے) کافی بیزار رہے پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔
۔1960ء میں ایک دن اچھے بھلے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ یکایک نقاد بن گئے۔ تب سے نقاد ہیں اور کافی ہاؤس یا چائے خانوں میں رہتے ہیں۔ کبھی کبھار حجامت کے سلسلے میں اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔
ادبی رسائل کے شروع شروع کے پچیس تیس صفحات آپ کی تنقیدوں کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں۔ (جنہیں ایم۔ اے اردو کے طلبا کو مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے)۔
۔1967ء میں کسی نے کہا کہ اردو ادب پر ان کی تنقیدوں کے صفحات تلوائے جائیں اور پھر سارے ادب کا وزن کیا جائے تو تنقیدیں کہیں بھاری نکلیں گی۔ آپ اسے شاباش سمجھ کر بہت خوش ہوئے اور رفتار دُگنی کر دی۔
یہ اردو نثر کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسے زیادہ نہیں چھیڑتے۔ آپ کا بیشتر وقت اردو شاعری کی خبر لینے میں گزرتا ہے۔
ان دنوں پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھ رہے ہیں جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ غالب کی شاعری پر رنگین کا اثر غالب ہے۔ رنگین نے بیشتر موضوع مصحفی سے اخذ کئے۔ مصحفی کی شاعری کا ماخذ میر کا تخیل ہے جنہوں نے بہت کچھ سراج دکنی سے لیا۔ سراج دکنی نے ولی دکنی سے اور ولی دکنی نے سب کچھ دکن سے چُرایا۔ (چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہیں، یونیورسٹی کے لئے ہے، اس لئے آپ نے شعرا کو اتنا بُرا بھلا نہیں کہا جتنا کہ اکثر کہا کرتے ہیں)۔
اگر چائے اور سگریٹوں میں غذائیت ہوتی تو آپ کبھی کے پہلوان بن چکے ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی صحت کو دیکھ کر بڑی آسانی سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔
دراصل آپ کے رویے (اور تنقید) کا دارومدار سگریٹوں اور چائے کی پیالیوں کی تعداد پر ہے۔ روزانہ 50 سگریٹوں اور 25 پیالیوں تک تو آپ شاعری کے گناہ معاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد آزاد شاعری تک کو نہیں بخشتے۔
۔1968ء میں آپ کو یونہی وہم سا ہو گیا تھا کہ آپ عوام میں مقبول نہیں ہیں۔۔۔ لیکن چھان بین کرنے کے بعد 69ء میں معلوم ہوا کہ وہم بے بنیاد تھا۔ فقط وہ جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔ لیکن جو جانتے ہیں وہ باقاعدہ ناپسند کرتے ہیں۔
اپنے آپ کو (پتہ نہیں کیوں) مظلوم اور ستایا ہوا سمجھتے ہیں اور اکثر زندگی کی محرومیوں کی داستان(کافی ہاؤس میں) سنایا کرتے ہیں۔۔۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے :۔ پہلے ان کے خواب تمام ہوئے۔ پھر دانت تمام ہوئے۔ پھر دوست تمام ہوئے (کم از کم آپ کا یہی خیال تھا کہ وہ دوست تھے)۔ اکثر کہا کرتے ہیں کہ آپ کو بنی نوعِ انسان سے قطعاً نفرت نہیں۔۔ فقط انسان اچھے نہیں لگتے۔
کھیل کود کو انٹلکچوئل پنے کا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لینے سے بھی نفرت ہے۔
۔1969ء میں وزن کرتے وقت مشین سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے انتالیس سیر کے علاوہ یہ لکھا تھا۔۔ '' ابھی کچھ امید باقی ہے۔ غیر صحت مند حرکتیں چھوڑ کر ورزش کیجئے۔ صحیح غذا اور اچھی صحبت کی عادت ڈالئے اور قدرت کو موقع دیجئے کہ آپ کی مدد کر سکے۔‘‘
آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا۔ حالانکہ اگر کسی مشین نے کبھی سچ بولا ہے تو اس وزن کی مشین نے 1969ء میں بولا تھا۔
صحیح رقم خوش نویس: پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔
آپ کی لکھی ہوئی تحریر پر پروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔
زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔
لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔ عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سردردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔
کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرۂ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چنانچہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرۂ غلام حسن تحریر فرمایا۔
ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیئے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پھُلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔
پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا۔ ستلی کئی عدد۔
اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔



 

Back
Top