Khatarnaak Raastay By Aamir Sohail

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
خطرناک راستے

way.jpg

تحریر : عامر سہیل
امریکہ کے شہر بولیویاکی بڑی بڑی اور گہری چٹانو ں میں سے گزرتے ئے راستے کو ''یونگس روڈ‘‘یا ''موت کی سڑک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس راستے کو یہ نام صرف اس کے خطر ناک پیچ و خم کی وجہ سے نہیں دیا گیا ،بلکہ اس پر سفر کرنے والے بے شمار مسافروں کی اموات واقع ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ساٹھ کلو میٹر تک پھیلی اس سڑک پر بے شمار حادثات پیش آتے ہیں ۔جن میں تقریباً 250تک لوگ مارے جاتے ہیں۔1930میں یہ سڑک بولیویا سے ٹرکوں کی آمدورفت کے لیے بنائی گئی تھی۔اس سڑک کی چوڑائی ایک ڈائننگ ٹیبل کی چوڑائی سے زیادہ نہیں ہے۔ایسے دشور گزار راستے پر موڑ کاٹنا جس کے ایک طرف 900میٹر گہری کھائی بھی موجود ہو،یقینا دیکھنے والے کو دہشت زدہ کر دیتا ہے۔برسات کے دنوں میں جب لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے تب ڈرائیورز کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ سامنے سے کوئی گاڑی یا ٹرک آ جائے تو اپنی سواری کو باحفاظت سڑک سے کوئی ماہر ڈرائیور ہی گزار سکتا ہے۔راستے کے خطرات اور اس پر پیش آنے والے حادثات کو پیش نظر رکھتے ہوئے 2006ء میںایک متبادل راستہ بنایا گیا۔اس کے باوجود یونگس روڈ کے پیچ و خم جوں کے توں برقرار ہیں اور انہیں دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ مستقبل میں اس خطر ناک راستے کو حادثات سے مکمل طور پر محفوظ بنایا جا سکے گا۔
آمدورفت کی مشکلات میں دیکھا جائے تو بیجنگ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ایک اندازے کے مطابق بیجنگ میں تقریباً نوے لاکھ بائیسکل موجود ہیں،لیکن اس کے ساتھ پچاس لاکھ گاڑیوں کی موجودگی پریشان کن بات ہے۔لندن جیسے شہر میں جہاں تیس لاکھ گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔یہاں بھی رش کے اوقات میں 16کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹریفک رینگتی ہے۔جس کا مطلب 166گاڑیاں پر مربع کلومیٹر ہے۔بیجنگ میں یہی تعداد472بتائی جاتی ہے۔پچھلی چند دہائیوں میں چائنہ کی معاشی ترقی میں بہت حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جس کے نتیجے میں اس کے دارالحکومت میں روزانہ 1900 زائد گاڑیوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ شہریوں کو روزانہ ٹریفک جا م جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کہنا ہے کہ سڑکوں پر بے پناہ رش بڑھ جانے کی وجہ سے وقت پر منزل تک پہنچنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ بھی اچھا متبادل ثابت نہیں ہو رہی۔مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ1.3بلین آبادی کے شہر میںجونہی دو یکطرفہ سڑکوں پر ٹریفک پھنستا ہے تو دیکھتے یہی دیکھتے یہ تعداد بڑھنے لگتی ہے اور مزید سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ اگست 2010ء میں بیجنگ میں بد ترین ٹریفک جام دیکھنے میں آیا تھا۔ جو بڑھتے بڑھتے 100کلو میٹر دور منگولیا تک جا پہنچا تھا۔اس ٹریفک جام میں گاڑیاں اس بری طرح پھنس کر رہ گئی تھیں کہ انہیں بحال کرنے میں نو دن لگ گئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ بیجنگ کے شہری کام پر جانے کے لیے پیدل چلنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستان کے شمال میں موجود وادی ہنزہ کے ''حسینی پُل‘‘کے بغیر دنیا کے دشوار گزار راستوں کی فہرست مکمل نہیں ہوتی۔لکڑی کی پھٹیوں اور موٹے رسوں سے بنے اس جھولتے ہوئے پُل کو پار کرنے سے بھی مشکل کام اس کے نیچے سے گزرتے تیز رفتار پانی پر نظر ڈالنا ہے۔تاہم وہاں کے رہائشیوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔وہ لکڑیوں کے گٹھے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر استعمال کی چیزیں گھر لے جانے کے لیے اس194میٹر لمبے پُل کا ہی استعمال کرتے ہیں۔کئی سال پہلے ہنزہ میں چلنے والی شدید تیز ہوائوں نے پُل کو تباہ کر دیا تھا۔جس کی جگہ بعد میں وہاں کے باشندوں نے نیا پُل تعمیر کیاجسے آج تک استعمال کیا جا رہا ہے۔یوں تو ابھی تک اس کے ساتھ کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آیا،لیکن کچھ عرصہ پہلے لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہنزہ کے دریا میں پانی کی سطح اس حد تک بڑھ گئی تھی کی پُل پانی کے اندر ڈوب گیا تھا،اور کئی ہفتوں تک اسے استعمال نہیں کیا جا سکا تھا۔عام حالات مین بھی ہنزہ جھیل خطرناک ہے۔یوں سمجھ لیجیئے کہ اگر آپ اس پُل سے گر پڑیں اور تیز رفتار لہروں کے سپرد ہو جائیں تو خود کو بچانے کے لیے تیر کر کناروں تک پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔مقامی لوگ اس پُل کا بے حد خیال رکھتے ہیں۔کہیں پر انہیں ذرا سی بھی خرابی محسوس ہو تو فورلکڑی ڈھونڈ کر رسی کی مدد سے اس کی مرمت کر دیتے ہیں۔اس پُل کی مضبوطی سے زیادہ یقین انہیں خدا کی رحمت پر ہوتا ہے۔سیاحت کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے پُل کو پار کرناایک بڑ ا ایڈ ونچر ہوتا ہے۔اکثر لوگ حسینی پُل کی مماثلت انڈیانہ جونز کی فلم ''Temple of Doom‘‘ کے ایک سین سے بھی کرتے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ اسے''موت کے پُل''کا نام بھی دیتے ہیں۔

 

Back
Top