Quran Hadith khauff e Khuda Written By Haji Muhammad Hanif Tayyab

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
خوف خدا
تحریر : حاجی محمد حنیف طیب

اللہ سے ڈرنے والوں پررحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں

قرآن پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے، ترجمہ ’’اﷲتعالیٰ سے ڈروجس طرح ڈرنے کا حق ہے۔‘‘(سورہ آل عمران )
اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم سبب عقیدۂ آخرت ہے ،ہر فرد کواگلے جہان میں اچھے عمل کا اچھا اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا
تقویٰ کے ایک معنی ڈرنے کے او رخوف کے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ سے ڈرواور خوف وخشیت اختیا رکرو،کسی حالت میں بے فکر ہوکر مت بیٹھو ،خواہ دولت مند ہو،خواہ مفلس ہوہرحالت میں اﷲتعالیٰ کاڈرانسان کورہناچاہیے ۔تقویٰ کسے کہتے ہیں؟یہی سوال حضرت ابی کعب رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے حضورنبی کریم ﷺسے پوچھا کہ یارسول ﷺتقویٰ (اﷲ تعالیٰ کاڈر)کسے کہتے ہیں؟حضورنبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:کیا تم کبھی کانٹووالے جنگل سے گزرے ہو؟عرض کی :جی ہاں آپ علیہ السلام نے پوچھا!کیسے گزرتے ہو؟عرض کی !جب کانٹا دیکھتا ہوں تواپنے جسم اور کپڑوں کوبچاکرنکلتا ہوں تاکہ کپڑے نہ پھٹیں اور جسم زخمی نہ ہو ۔آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا یہی تقویٰ یعنی اﷲکا ڈرہے۔

(تفسیر درمنشور)معلوم یہ ہواکہ اﷲتعالیٰ کاخوف اور ڈراِس چیز کانام ہے کہ اپنی دُنیاوی زندگی کاسفر اس طرح مکمل کیاجائے کہ ہر اس فعل سے اپنے آپ کوبچایاجائے جس سے ایمان خراب ہوتا ہے۔اگر غورکیاجائے تو جتنے جرائم اور گناہ ہیں وہ اﷲکے ڈرسے ہی ختم ہوتے ہیں ،جرائم کونہ پولیس روک سکتی ہے اورنہ کوئی اور طاقت اور نہ ہی ہتھیار،جب تک دل میں ڈراور خوف خداوندی نہ ہوگا آدمی جرائم سے بازنہیں رہ سکتا ۔یعنی جس کے دل میں اﷲکا خوف وڈرہوتا ہے اور آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ رات کے اندھیرے میں اُٹھتا ہے ،اپنے گناہوں سے توبہ کرتاہے ،دنیا کی معمولی سی لذتو ں یاچھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی خاطر گناہوں کا مرتکب ہوجا نا بہت نقصان کی بات ہے ،عام طورپر انسان یالذت کی خاطر گنا ہ کرتاہے یا ضرورت کی خاطرگناہ کا ارتکاب کرتاہے ،حضرت احنف بن قیس تابعی رحمۃ ُاﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت عمررضی اﷲتعالیٰ عنہ کی محفل میں بیٹھے تھے ،حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھا بتا ؤ ،جاہل کسے کہتے ہیں ؟انہوں نے جواب دیا ،حضرت ،جو بندہ اپنی دنیا کی خاطر اپنی آخرت کو تباہ کربیٹھے ،اسے جاہل کہتے ہیں ،پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کیامیں آپ کو بتاؤں کہ اجہل (سب سے بڑاجاہل )کون ہے؟انہوں نے کہاجی ہاں حضرت ضروربتائیں آپؓ نے فرمایا،جوانسان دوسروں کی خاطراپنی آخرت تباہ کربیٹھے اسے اجہل کہتے ہیں ۔دوبنیادی باتیں ہیں ایک دل میں اﷲکاڈر،دوسراآخرت کے عقیدے کی مضبوطی جوکچھ دنیا میں کررہاہوں وہاں جاکر مجھے اس کاجواب دینا ہے۔یہ عقیدہ جب ایک مومن کے دل میں جما ہواہوتو وہ جرأت وہمت نہیں کرسکتا ہے خیانت وجرائم کی ۔

انسان کے اندرجب اللہ کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب آجاتا ہے اس کی زندگی میں بہت سی خوشگوار اور عمدہ تبدیلیاں آجاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے جو اللہ سے ڈرنے کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں ایسا شخص اللہ پر پختہ ایمان رکھتا ہے، پابندی سے نماز ادا کرتا ہے ۔’’وممارزقنہم ینفقون‘‘ جو کچھ اللہ نے اسے دیا اس میں سے خرچ کرتا ہے زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔’’والموفون بعہدہم اذا عاہدوا‘‘ جب وعدہ کرتے ہیں تو پھر ایسے لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں۔ ’’والصابرین فی الباساء والضراء و حین الباس‘‘۔اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں یا بیماری اور مصیبت میں گھر جاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور ثابت قدم رہتے ہیں۔

حضرات صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعین کی یہ عادت رہی ہے کہ جب ایک دوسرے سے رخصت ہوتے تھے توکہتے تھے کہ کچھ نصیحت کیجئے،چھوٹے اپنے بڑوں سے نصیحت کی فرمائش کرتے تھے اور بڑے اپنے چھوٹوں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔عام طورسے سلف کی یہ نصیحت ہوتی تھی کہ ’’اُوْصِیکُم تَبِقْوَی ْاﷲ‘‘میں تمہیں تقویٰ اختیارکرنے کی وصیت کرتا ہوں ،یہ ہی سلف کا عام جواب ہوتا تھا۔

تقویٰ کیا ہے ؟اسے کیسے اختیا رکیاجائے ؟

دنیا میں فسق وفجو ر ،ماردھاڑ،بدنیتی اور فسادات عام ہوتے جارہے ہیں ،جس کی زندہ مثال قصورجیسے واقعات ہیں جس میں پھول جیسی بچی کوہوس کاشکاربنایا گیا ۔ارتکاب جرائم کی وجہ یہ نہیں کہ اِس دورمیں سیکورٹی اداروں کی کمی ہے بلکہ دلوں میں اﷲکاڈروخوف باقی نہیں رہا ،اگر خوف خد ادلوں میں باقی ہوتو آدمی کوجرائم کی ہمت ہی نہیں ہوگی ۔چاہے وہ تنہائی میں ہویا مجمع میں ہر جگہ گنا ہ اور جرم سے بچے گا۔اسلام نے آخرت کا جوعقیدہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کوہر وقت یہ تصوررہے کہ مجھے اﷲکے سامنے کھڑے ہوکر جواب دہی کرنی پڑے گی اور ہر شخص سے اﷲتعالیٰ پوچھے گا کہ زندگی کس طرح گزاری،اس کا جواب دینا پڑے گا ،یہ عقیدہ ایسا ہے کہ جس سے انسان ہر جرائم اور گناہ سے بچ سکتا ہے ،اسی عقیدہ کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺکاارشادمبارک ہے’’ جو ڈرتا ہے وہ اندھیرے (رات) میں اُٹھتا ہے جو اندھیرے میں اُٹھتا ہے وہ منزل پالیتا ہے ،سنو!اﷲکا سودامہنگا ہے ،سنو !اﷲتعالیٰ کا سوداجنت ہے‘‘۔ (ترمذی )

حضرت واقدی رحمۃ ُاﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یعنی اﷲکاڈریہ ہے کہ جس طرح تم مخلوق کے لیے اپنے ظاہر کوآراستہ کرتے ہوئے اسی طرح تم خالق کے لیے اپنے باطن کوآراستہ کرواور اﷲتعالیٰ تمہیں وہ کام کرتانہ دیکھے جس کا م سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے۔اگر انسان کادل خوف خدااور تقویٰ سے خالی ہوتوپھر اسکا دل شیطان کاکھلونابن جاتاہے، جس سے وہ آسانی کے ساتھ گناہ کرواتا ہے،شیطان انسان کی نگاہوں میں گناہوں کوہلکا کرکے پیش کرتا ہے۔یہ اس کاایک بڑاوارہے ،وہ گناہ کے بارے میں دل میں یہ خیال ڈالتا ہے،کہ یہ گناہ تو اکثر کرتے ہی رہتے ہیں ،یہ تو ہوہی جاتا ہے،آج کل توبے پردگی بہت عام ہے۔اس لئے نگاہوں کو بچاناتو بہت مشکل ہے۔شیطان انسان کی نگاہوں میں ان گناہوں کواس لئے چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے تاکہ وہ کرتا ہی رہے ،اس لئے فاسق گناہوں کوایسے سمجھتا ہے جیسے کوئی مکھی بیٹھی تھی اور اس کواُڑادیا۔ جب کہ مومن بندہ گناہ کوایسے سمجھتا ہے ،جیسے سرکے اوپر کوئی پہاڑرکھ دیا گیا ہواس لیے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ کچھ کرنے کا نام تقویٰ نہیں بلکہ کچھ نہ کرنے کوتقویٰ کہتے ہیں،یعنی وہ باتیں جن سے اﷲناراض ہو انکو نہ کرنا تقویٰ کہلاتا ہے۔حدیث نبوی کا اشارہ بھی اسی کی طرف ہے کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ایک عقلمند کا قول ہے کہ نیکی تو ہر کس وناکس کرلیتا ہے ،جوانمردتووہ ہے جو گناہ کرنا چھوڑدے۔عصرحاضر میں جرائم،فسادات،قتل وغارت گری کابڑھتا ہوارجحان ہمیں سوچنے پرمجبو رکرتاہے کہ آخر کونسی ایسی دواہے جس کے ذریعہ اس مہلک مرض سے نجات مل سکتی ہے تو جواب ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہ ہے تقویٰ یعنی خوف خدا،اگریہ ہمارے دلوں میں آجائے تو انشاء اﷲپورے ملک بلکہ پوری دنیا میں اَمن قائم ہوجائے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے میرے پروردگار نے حکم دیا ہے: ظاہر و باطن میں خدا سے ڈرنا،غصہ میں اور رضا مندی میںانصاف کی بات کہنا ، افلاس اور دولت مندی میں میانہ روی اختیار کرنا، قطع تعلق کرنے والوںسے قرابت کو قائم رکھوں، محروم رکھنے والے شخص کو دوں، ظلم کرنے والے کو معاف کر دوں، خاموشی اوربولنا اللہ کے لئے اور دیکھنا عبرت کے لیے ہواورنیکی کا حکم دوں‘‘۔

ان میں سے اول چیز خوف خدا ہے قرآن حکیم میں انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے مختلف انداز سے دلائل دیئے گئے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ کہ دیکھو اللہ نے تمہارے لیے دنیا کی تمام نعمتیں بنائی ہیں یہ آسمان و زمین اور اس کے اندر کی تمام چیزیں یہ پہاڑ، دریا، درخت اور بارش برسا کر زمین سے تمہارے لیے رزق پیدا کرنا، اس قدر نعمتیں اس رب نے انسان کو عطا فرمائی ہیں کہ اس نے فرما دیا ’’ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوہ‘‘ یعنی اگر تم اللہ کی نعمتیں گننے لگو تو شمار نہیں کر سکو گے۔رب ذوالجلال نے انسان کو اپنی عطا کردہ نعمتیں یاد دلا کر کہا کہ دیکھو اب صرف مجھ سے ڈرو اور میری نافرمانی سے بچو۔انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کی قدرت کا خوب تذکرہ کیا گیا۔ تاکہ انسان کے اندر خدا کا صحیح تصور پیدا ہو جائے اس لیے کہ اگر خدا کا تصور انسان کے دل میں پختہ ہو جائے تو پھر اس کے نتیجہ میں اللہ کا ڈر یعنی تقویٰ پیدا ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ دور کے انسانوں کے واقعات بیان کرکے قرآن مجید میں انسان کی حیات کو واضح فرمایا ۔ بعض لوگ اللہ کے احسانات کی وجہ سے ڈرتے ہیں اور بعض لوگ اللہ کی قدرت کا مظاہرہ دیکھ کر ڈرتے ہیں۔ یہی کیفیات آج کے معاشرے کے انسان میں بھی نظر آتی ہیں۔ بسا اوقات انسان پر اللہ کی نعمتوں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے تو انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا اور یہ تو میری محنت اور زور بازو کا کمال ہے۔ بس اس غلط فہمی کی وجہ سے اللہ کا ڈر دل سے نکل جاتا ہے۔ پھر اسی انسان کے دل سے یہ بھی نکل جاتا ہے کہ نماز سے کیا ہوتا ہے تلاوت قرآن حکیم کی کیا ضرورت ہے یہ تمام باتیں اللہ کا ڈر نہ ہونے کی علامات ہیں۔ پھر اسی انسان کو جب دنیا میں دکھوں اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے کوئی قریبی عزیز بیمار ہو جاتا ہے یا خود کسی مالی یا ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر خوب قرآن حکیم کی تلاوت کرتا ہے پانچ وقت نماز مسجد میں ادا کرتا ہے اس لیے کہ اس کے دل میں اللہ کا یقین تو تھا اگر یہی یقین انسان کے دل میں پختہ ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اس انسان کے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر اس ڈر کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اور یوں یہ انسان ایک کامیاب زندگی گزارے گا۔ معلوم ہوا کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اللہ کا ڈر انسان کے اندر ہونا بہت ضروری ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے انسان کے اندر اپنا ڈر پیدا کرنے کے لیے جہاں اپنے احسانات انعامات اور اپنی قدرت اور صفات کا تذکرہ فرمایا وہاں انسان کو اس کے برے اعمال کے برے انجام سے بھی ڈرایا۔ انسان کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا کرنے کا ایک اہم محرک عقیدۂ آخرت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عقیدہ آخرت کے تمام پہلوئوں کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ انسان کو آخرت میں یعنی موت کے بعد آنے والی زندگی میں اس کے ہر عمل کا اچھا بدلہ اور برے عمل کا برا بدلہ ملے گا۔اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے کے دل سے دوسروں کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ بہادری اور استقامت کی خوبیوں والا بن جاتا ہے چاہے بدر کی لڑائی ہو یا حنین وخندق کی۔ ہرمؤمن کا ایمان ہوتا ہے کہ تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کو اللہ جانتا ہے ، بندہ جانتا ہے کہ میں چھپ کر بھی گناہ نہیں کرسکتا اب مومن کو تقویٰ اور پرہیز گاری اسی ایمان لانے کی بدولت نصیب ہوئی۔ معاشرہ اسی وقت صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ بن سکتا ہے جب لوگوں کے اعمال درست ہوں‘ انسان کے تمام اعمال اس کے دل کے تابع ہوتے ہیں اگر دل میں ایمان کی روشنی موجود ہوتو عمل صالح ہوگا اگر کوئی شخص زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر اس کے اعمال اچھے نہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں پوری طرح رَچانہیں۔

نیک اعمال میں اگر کوئی رکاوٹ نظر آئے تو وہ اس وجہ سے بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت پر اس شخص کا ایمان کمزور ہے کیونکہ آخرت پر ایمان لانے سے انسان کے دل میں نیکی پر جزا اور بدی کی سزا کا احسا س پیداہوتا ہے۔ اسی طرح جو شخص آخرت کی زندگی پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کی نظر اعمال کے صرف ان ہی نتائج پر نہیں ہوتی جو اس کی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں بلکہ وہ ان نتائج پر بھی نگاہ رکھتا ہے جو آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے چنانچہ ایمان رکھنے والے شخص کے دل میں برائیوں سے نفرت ہوتی ہے اور وہ نیک کاموں کو اس طرح ضروری سمجھتا ہے جیسے کھانا پینا، یہ تمام خوبیاں دنیا میں انسان کو بطور انعام اس وقت ملتی ہیں جب یہ شخص ایمان لاتا ہے اور پھر ایمان لانے کے تقاضے پورے کرتا ہے اور ان تمام خوبیوں اور انعامات کی بدولت آخرت میں فلاح وکامیابی کا حقدار بن جاتا ہے۔ اور یہی ہرانسان کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو ہے۔اللہ سے ڈرنے والوں میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تو انسان متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والوں میں اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ ہر اس چیز سے بچتا ہے جو دل میں کھٹکتی ہے۔ اس لیے کہ جب خوف خدا نصیب ہوتا ہے تو انسان مشتبہ چیزوں سے بھی بچتا ہے۔ بلکہ بظاہر چھوٹے گناہ کو بھی پہاڑ کے برابر بوجھل سمجھتا ہے۔ ایسا انسان پھر دوسرے انسان کے حقوق کا بھی ہر مرحلے میں خیال رکھتا ہے۔

 

@intelligent086
ماشاءاللہ
قرآن و سنت کی روشنی میں معلوماتی مضمون
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
جزاک اللہ خیراً کثیرا
پسند اور رائے کا شکریہ
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
@Falak
آمین یا رب العالمین
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top