Khawateen B Apna Business Shuru karen By Saba Column

خواتین بھی اپنا بزنس شروع کریں
.
wb1.jpg

اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ کامیاب بزنس مین کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، اس لحاظ سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب ایک عورت کی پشت پناہی سے ناکامی کو کامیابی بنایا جاسکتا ہے تو یہی کام اگر عورت کرلے تو وہ کس قدر کامیاب ہوگی ؟؟ اللہ تعالی نے مرد کو حاکم بنایا ہے اور عورت کو محکوم ۔۔ عورت کو گھر گرہستی سنبھالنے پہ مامور کیا اور مرد کو نان نفقہ کے انتظام کی ذمہ داری سونپ دی ، بچپن سے شادی تک عورت والد کی ذمہ داری ہے ، شادی کے بعد مرد کی ذمہ داری ہے ، بوڑھی ہوجائے تو اولاد کی ذمہ داری ہے مطلقہ یا بیوہ ہو جائے تو وراثت کی حقدار بن کر خود کفیل ہے ، عورت کو کہیں بھی محروم نہیں رکھا گیا ، اسلام نے ہر مقام پہ عورت کو عزت اور آبرو بخشی ہے ، اسے اعزازات سے نوازا ہے ، خیر یہاں پہ ہم عورت کے مقام پہ بات کرنے کی بجائے عورت کی کاروباری صلاحیتوں کی ساخت پرداخت پہ بات کریں گے ۔۔
دنیا کے کسی بھی مذہب یا کمپنی میں کام یا کاروبار کو صنف کے ساتھ مخصوص نہیں رکھا گیا، کاروبار بس ایک کاروبار ہے ، اسے اگر مرد سرانجام دے تو بھی ایک شعبہ ہے اور اگر عورت سنبھال لے تو بھی ایک شعبہ ہے، اسلامی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سرفہرست خواتین جنہوں نے کاروبار کو عروج بخشا اور دنیا میں کامیاب بزنس کرنے کی مثالیں رقم کیں ان میں سب سے پہلی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ، تجارت کے اسرار و رموز سے واقف اس خاتون کو واقعی خاتون اوّل کے خطاب سے نوازنا چاہئے جس نے بیوگی کے دکھ جھیلتے ہوئے مصائب اور حالات کا مقابلہ کیا اور خود کو معاشی طور پہ اس قدر مضبوط کیا کہ روئے عرب کے سرفہرست تاجروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔۔ایکسپورٹ اور امپورٹ کا بہترین بزنس کیا اور سب سے بڑھ کر یہ اعزاز ملا کہ وقت کے بہترین تاجر محمد بن عبداللہ نے ان کے ساتھ پارٹنر شپ کی اور بعد ازاں یہی خاتون ابنِ عبداللہ کے عقد میں آئیں اور نبوی بعثت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا اعزاز پایا ، یہ مثال اہلیانِ اسلام کے لئے یقیناً قابل فخر ہے ۔۔
اس مثال سے یہ ظاہر ہے کہ تجارت صرف مردوں کا کام نہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں ۔۔
عورت کمزور کیوں سمجھی جاتی ہے؟
ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہئے ، اگر یوں کہا جائے کہ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے تو یہ غلط نہ ہوگا ، اگر عورت کو اس کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرنے دیا جائے تو بہت سی معاشی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں لیکن چونکہ یہ سر دست بہت مشکل ہے اس لئے خوب سوچ بچار کے بعد میں یہاں پہ کچھ ایسے کاروبار بتاؤں گا جو کہ عورتیں گھر بیٹھے آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں ، لیکن ملاحظہ کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں بٹھا لیجئے کہ کوئی بھی عورت کمزور نہیں ہے ، وہ بھی مرد ہی کی طرح کاروبار کر سکتی ہے ۔۔
زری ہاؤس :
wb.jpg

یہاں پہ میں آسیہ خانم کی مثال دوں گا ، 2001 میں انہوں نے اپنے خاوند سے مشاورت کے بعد اپنے گھر کو زری ہاؤس بنا لیا ، محض دس ہزار سے تھوڑا سامان لیا اور میناری کے تمام آئٹم تھوڑی تھوڑی مقدار میں گھر کی الماریوں میں سجا لئے ، بٹن ، ستارے ، موتی ، گوٹا ، کناری، سب کچھ مہیا تھا، محلے کی خواتین گھر آتیں اور خریداری کر جاتیں ، دھیرے دھیرے کام بڑھنے لگا اور آسیہ خانم سامان بھی بڑھاتی گئیں ، سامان بڑھا تو جگہ کم پڑنے لگی ، پھر ایک روم کو دوکان بنا لیا گیا ، سلے سلائے بے بی سوٹس بھی آگئے ، جنرل آئٹم بھی شامل ہوگئے ، عورتوں کے لئے پراندے اور دوپٹّے بھی رکھ لئے ، کڑھائی کا سامان بھی آگیا ، سلائی کڑھائی کے دھاگے ، اور فریم بھی مہیا کر دئیے گئے ، یوں آسیہ خانم کا کاروبار چمک اٹھا ، اس کی بیٹیوں نے کڑھائی کا کام سیکھا اور کڑھائی کرنے لگ گئیں ، بہو نے مہندی کے ڈیزائن اور گلے کا کام سیکھا اور گھر میں ہی بازار سج گیا ، عیدین کے مواقع ہوں یا شب برات کے ، شادی بیاہ کا معاملہ ہو یا منگنی کا ۔۔ محلے کی شاپنگ آسیہ خانم کے گھر ہی ہوتی ، روزانہ کی سیل پانچ سات ہزار سے ہوتی ہوئی 18 سے 20 ہزار تک جا پہنچی ، گھر بیٹھے آسیہ خانم تین سے چار ہزار روزانہ کمانے لگی اور ان کی بیٹیاں بھی ماں سے بہت کچھ سیکھ گئیں اور سلائی کڑھائی کا کام اچھا ملنے لگا ، یوں گھر میں بیٹھ کر ہی آسیہ خانم نے خوشحالی کا راز پالیا ، جب بھی سامان خریدنا ہوتا آسیہ خانم اپنے خاوند یا بیٹے کو ساتھ لیتیں اور باپردہ رہتے ہوئے ہول سیل مارکیٹ سے سامان لے آتیں ، اب تو باقاعدہ وہ ایک دو چکر لاہور بھی لگا آئی تھیں ، اب صورت حال یہ ہے کہ ان کے گھر کا صرف ایک کمرہ بچا ہے باقی سب سامان سے بھرے ہوئے ہیں ، اب وہ رہائش کے لئے کوئی اور گھر ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ اپنے گھر کو ایک چھوٹے شاپنگ سینٹر کی طرح سجا سکیں ۔
آپ بھی ایسا کر سکتی ہیں :
اپنی چھوٹی چھوٹی بچتیں جمع کیجئے ، خاوند سے جو کچھ ملے سنبھالئے ، خرچ کم سے کم کیجئے ، عید یا شادی کے مواقع پہ دکھلاوے اور بناوٹ کے لئے اپنے ہاتھ کو روک لیجئے اور گھر بیٹھے ماحول اور معاشرے میں ایک مثال بن جائیے جیسے جویریہ نے کیا تھا
جویریہ بوتیک ہاؤس :
جویریہ کے عمل سے ایک سپرٹ ملتی ہے ، جویریہ کو اس کے والدین نے حیثیت سے بڑھ جہیز دیا ، کوئی بھی ایسی چیز نہ تھی جو اسے نہ ملی ہو لیکن جویریہ انقلابی ذہن کی مالکن تھی ، اس نے کچھ نیا کرنے کی ٹھان لی ، گھر والوں اور سسرالیوں کی مہمانیاں ختم ہوئیں تو اس نے اپنے خاوند اور گھر والوں کو اعتماد میں لیا اوراپنے چار تولے زیورات فروخت کر دئیے، اس وقت کے ریٹ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار روپے ہاتھ آئے، ایک لاکھ روپے کے لیڈیز سوٹ لئے اور گھر کے ایک کمرے میں ہی بوتیک سٹور کھول لیا، اپنے گھر والوں اور اہل محلہ کے تعاون سے کاریگر خواتین تلاش کیں اور ماہانہ تنخواہ پہ گھر کو سلائی کڑھائی سینٹر بنا لیا، کام ملنے لگا اور سوٹ بھی سیل ہونے لگے ، ڈیڑھ ، دو سال کے عرصہ میں کام چل نکلا اور گھر کی ساری ذمہ داری جویریہ نے سنبھال لی ، تعلیم یافتہ خاتون تھی اور گھر والوں کا ساتھ بھی تھا اس لئے ترقی کا دور شروع ہوگیا۔۔
آپ بھی سوچئے:
صندوق میں موجود زیورات کسی کام کے نہیں ہیں ، محفلوں میں زیب وزینت سے کچھ فائدہ نہیں ملنے والا ۔۔۔ لیکن آپ انہی زیورات کو کام میں لاکر اپنی معاشی سٹیٹس بہتر کر سکتی ہیں ، اگر اپنے ہنر اور صلاحیت سے گھر کی معیشت کو مضبوط کرنے کا سبب بنتی ہیں تو آپ کا وقار گھر والوں کی نظر میں بہت بلند ہوجائے گا۔۔
بیوٹی پارلر:
پاکستان میں جو کاروبار شوق یا خوشی سے وابستہ ہو تو اس میں ترقی کے مواقع بہت زیادہ ہیں، رابعہ سلیم انتہائی سلجھی ہوئی لڑکی تھی ، شادی کے بعد اس نے اپنے شوق کو پورا کرنے کی ٹھان لی ، خاوند سے مشورہ کیا اور گھر کے ایک کمرے کو اپنے شوق کی تکمیل کے لئے مختص کر لیا ، شادی کی منہ دکھائی والی رقم تیس ہزار کے قریب اس نے سنبھال رکھی تھی ، کچھ پیسے خاوند سے لئے ، کچھ والدین سے تعاون مانگا اور بنیادی سامان ، وال گیر شیشہ ، میک اپ الماری ، وہیل چئیرز، دو صوفے اور مختلف وال پیپرز لئے اور ڈیکوریشن سے چار سے پانچ دن میں شاندار روم بنا لیا، تھوڑی سی ایڈورٹائزنگ کی اور کام شروع ہوگیا ۔۔ یقیناً یہ کاروبار نفع بخش ہے اور شادی کے لئے روایتی بیوٹی پار لرز کی بجائے گھر کے اندر باپردہ بیوٹی پار لرز کو باعزت گھرانے ترجیح دیتے ہیں اور چونکہ دلہن کے میک اپ کے لئے لوگ خوشی سے پیسے دے دیتے ہیں اس لئے یہ کام چل پڑتا ہے۔۔
موم بتی / اگر بتی :
عورتیں جو کام گھروں میں کر سکتی ہیں ان میں سے ایک کام موم بتی / اگر بتی کا بھی ہے ، یہ کام کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے ، خام مال باآسانی مل جاتا ہے ، اور سانچے بھی باآسانی دستیاب ہیں ، تھوڑی سی مشق اور پریکٹس سے یہ کام شروع ہوسکتا ہے ، یہ کام شروع کرنے کے لئے 60 سے 70 ہزار تک کا سرمایہ درکار ہوگا ، تھوڑی سے کوشش سے یہ کام شروع کیا جاسکتا ہے اور مرد حضرات اس کی سپلائی دے سکتے ہیں ۔۔
بیکری :
شاہداللہ بچپن سے ایک بیکری پہ کام کرتا تھا ، جب اس کی شادی ہوگئی تو ضروریات بڑھ گئیں ، اس نے اپنی بیوی سے مشاورت کی اور چھوٹا موٹا بزنس سٹارٹ کرنے کی ٹھان لی ، بنیادی طور پہ متوسط فیملی کے ساتھ تعلق تھا اس لئے کچھ جمع پونجی بھی نہیں تھی ، جو کمایا جاتا گھر میں ہی لگ جاتا مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا اس لئے شاہد نے اپنے دوستوں سے کچھ ادھار لی اور بیس ہزار روپے ایڈوانس دے کر قسطوں پہ 125 CD موٹر سائیکل لے لیا ، موٹر سائیکل کی قیمت 1 لاکھ 2 ہزار 5 سو تھی اور اسے چھ ماہ کے قرض پہ 1 لاکھ 30 ہزار میں ملی ،20 ہزار ایڈوانس دئیے تھے اور 1 لاکھ 10 ہزار قرض ہوگیا ، اب وہی موٹر سائیکل اس نے تیل ڈالے بغیر اسی دوکان پہ 95 ہزار روپے میں فروخت کر دیا ، اور پھر انہی پیسوں میں سے ایک اور جگہ بیس ہزار دے کر ایک اور موٹر سائیکل قسطوں پہ لی اور فروخت کردی ، اس کے بھی 95 ہزار ہاتھ آئے ، اب اس کے پاس کل 1 لاکھ 70 ہزار روپے تھے ، جبکہ اس کے ذمہ واجب الادا قرض 2 لاکھ 20 ہزار روپے تھا ۔۔
شاہد نے 60 ہزار روپے صرف کرکے ضروری سامان جیسے گیس چولہے ، ٹیبل ، پھٹے ، کڑچھے ، آٹا ، مونگ پھلی ، چینی ، انڈے ، سفید زیرہ وغیرہ خریدا اور کام کی بنیاد رکھ دی ، ہنر سے واقف تھا اس لئے کچھ دقّت پیش نہ آئی ، بنیادی طور پہ پاپے اور بسکٹ بنائے اور شاپر لے کر پیک کئے ، بیوی نے خوب خوب ہاتھ بٹایا اور قدرے کام سمجھ بھی لیا ، شاہداللہ کو کام کا تجربہ تھا اسے سپلائی میں بھی کچھ مشکل پیش نہ آئی اور سارا تیار شدہ مال سپلائی ہوگیا ، خام مال موجود تھا مزید سامان تیار کیا جانے لگا اور اب کی بار زیادہ کام شاہد کی بیوی نے ہی سنبھالا اور دھیرے دھیرے سارا کام سیکھ لیا اور پھر تیاری کے تمام مراحل بھی اسی نے سنبھال لئے ، اب شاہد کے ذمہ آؤٹ دور کے تمام امور تھے اور خام مال سے بسکٹ ، کیک رس ، پاپے ، پیس ، کٹ بسکٹ ، ڈبل روٹی اور ہر وہ کام جو بیکری آئٹم سے جڑا تھا دو سالوں میں ہی سیکھ کر اس کی بیوی سنبھال چکی تھی ،
وہ زیادہ تر گھر میں لکڑی استعمال کرتے ، مگر LPG گیس بھی استعمال کی جاتی ، اخراجات نکال کر ماہانہ اچھی خاصی بچت ہو رہی تھی اس دوران وہ اپنا قرض بھی اتار چکا تھے معاشی حالت بھی قدرے بہتر ہوگئی تھی ، آج کل کام زور و شور سے جاری ہے اور اس کی بیوی گھر میں سارا سامان تیار کرتی ہے جبکہ شاہد اچھا پوائنٹ تلاش کررہا ہے جہاں وہ اپنا بیکری سیٹ اپ لگا سکے۔
سویٹ مارٹ :
رقیہ بیگم کے خاوند غلام مصطفی دودھ کاکام کرتے تھے ، روزانہ دیہاتوں سے دودھ لانا اور شہر میں بیچنا نہ صرف اس کا مشغلہ تھا بلکہ ذریعۂ معاش بھی تھا لیکن بسا اوقات دودھ بچ جاتا اور پڑے پڑے فریزر میں بھی خراب ہوجاتا ، ایک دن رقیہ بیگم کو ترکیب سوجھی اور اس نے گھر میں سو ہن حلوہ بنانے کی ٹھان لی ، محلے کی ایک خاتون کو بلوایا جو گھر میں سوہن حلوہ بنایا کرتی تھی ، کیونکہ دودھ کا پتہ کرنے کے لئے کئی بار وہ رقیہ بیگم کے پاس آتی تھی اس لئے رقیہ بیگم نے کہلوا بھیجا اور وہ مدد کرنے آن پہنچی ، پہلی بار دس کلو دودھ ، نشاستہ ، چاول کا آٹا اور کچھ میوہ جات منگوا کر سوہن حلوہ بنایا گیا اور فی کلو کے حساب سے مقامی خواتین نے خرید لیا ، رقیہ بیگم نے دو تین بار تجربہ کیا تو باقاعدہ یہ کام سیکھنے اور کرنے کی ٹھان لی ، مٹھائی کی تراکیب پہ مشتمل کتب منگوائیں اور از خود گھروں میں تجربے کرنے لگی ، کبھی برفی بن رہی ہے اور کبھی گلاب جامن ، کبھی پتیسہ تیار ہو رہا ہے تو کبھی نمک پارے ، آج بالو شاہی بنا تو کل موتی چور ۔۔
تھوڑی سی مقدار میں بنائی جانے والی چیزوں میں بارہا کے تجربے ناکام رہے لیکن بالآخر کوشش بار آور ثابت ہوئی اور چیزوں میں ذائقہ آنے لگا اور گھر میں ہی فروخت ہونے لگا ، رقیہ بیگم نے خاوند کو اعتماد میں کہ دودھ ی بجائے ہم مٹھائی کاکام کریں اور خاوند نے بھی حامی بھر لی ، اور اپنے گھر کی بیٹھک کو سویٹ ہاؤس بنا لیا، دودھ کے کام سے فراغت کے بعد غلام مصطفی نے بھی وقت دینا شروع کر دیا اور کام چل پڑا ، آج کل اپنی بچتوں سے وہ اتنے پیسے جمع کر چکے ہیں کہ شہر میں دوکان بنانے کا سوچ رہے ہیں ، رقیہ بیگم مٹھائیاں گھر میں ہی تیار کیا کریں گی اور غلام مصطفی دوکان میں فروخت کیا کریں گے ۔۔
بیوی سے تعاون لیجئے:
مانا کہ عورت کاکام گھر سنبھالنا ہے ، خاوند کی خدمت ہے ، بچوں کی تربیت ہے لیکن اگر کسی منفرد آئیڈیا سے ان کی فراغت کو مصروف کر دیا جائے اور اس کے عوض میں ان کو بزنس پارٹنر بنا لیا جائے تو وہ کئی طرح کے کام گھر بیٹھے کر سکتی ہیں ، آج بھی خواتین بہت کام کر رہی ہیں ، اکثر لہنگے اور سوٹ گھروں میں بن رہے ہیں ، سویٹر بنے جارہے ہیں ، جرسیاں اور جیکٹس تیار ہورہی ہیں ، کڑھائی ہورہی ہے ، شاپرز بنائے جارہے ہیں ، یہ اور اس طرح کے اور کاموں میں آپ بھی گھر کی خواتین سے کام لے سکتے ہیں ، جس کام سے آپ واقف ہیں اگر وہ کام ایسا ہے جو گھر میں ہو سکتا ہے تو آپ اپنی بیوی کو وہ کام سکھا کر اپنا معاون بنا سکتے ہیں ، پارٹنر بنا سکتے ہیں ، اس لئے آج ہی سے سوچیئے کہ وہ کون سے کام ہیں جو گھر میں بیٹھ کر خواتین کے ہاتھوں کروائے جاسکتے ہیں ، میں نے چند ایک مثالیں دی ہیں یہ یقیناً آپ کے لئے کارآمد ہوں گی ۔۔!!

 
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top