Khyber Pass history By Noor Khan Sulman Khail in Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231

درہ خیبر ۔۔فاتحین کی گزرگاہ

khyber pass.jpg

تحریر : نورخان سلیمان خیل

درہ خیبر کو ہم ایک شہرہ آفاق گزر گاہ کہہ سکتے ہیں جو برصغیر میں جنگجو حملہ آوروں اور فاتحین کی گزر گاہ رہی۔ ایسے حملہ آور بھی درہ خیبر سے گزرے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ۔ایک پتھر پر نشان موجودہے ،یہ نشان شیر خدا حضرت علی ؓکابیان کیا جاتا ہے ۔

khyber.jpg

ایک مقام پر درہ خیبر صرف 30 میٹر چوڑا ہے ،یہاں50 سپاہی بڑے سے بڑے حملہ آور کو روک سکتے ہیں

یہاں سے گزرنے والے حملہ آوروں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے یہ ایک ایسا تاریخی مقام ہے جسے سیاح دور دراز سے محض دیکھنے کیلئے آتے ہیں قبائلی علاقہ ہونے کی بنا پر مختلف افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ۔درہ خیبر کی سڑک اب ایک بین الاقوامی معیار کی ہے موجودہ دور حکومت میں خصوصاً پاک فوج کی کاوشوں سےامن کی ایک نئی راہ متعین ہوئی حفاظتی انتظامات مزید بہتر ہوئے ۔جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں ہمیں قدیمی ،تاریخی اور روحانی مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں، صدیوں سے بہنے والا دریائے اپنے اندر تاریخی مقامات سمیٹے ہوئے ہے ۔

khyber1.jpg

جہلم شہر کا نام اور دریا کا نام بھی یہی ہے۔ جہلم شہر کے قریب شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ قلعہ روہتاس دیکھیں تو بار بار اسے دیکھنے کو جی چاہتا ہے ،وزیر اعظم عمران خان نے سیاحت کے حوالے سے اقدامات کرنے کا اکثر ذکر کیا ہے ۔ روہتاس کے قلعے پر خصوصی توجہ دی جائے تو یہ سیاحت کا ایک بہترین مقام ہے ۔ ٹیکسلا کے قریب جنرل نکلسن کی یادگار کے قریب شیر شاہ سوری دور کی سڑک نظروں سے گزرتی ہے ،حسن ابدال میں گردوارہ پنجہ صاحب ،بابا ولی قندھاری کی بیٹھک ،اور لالہ زار کا تاریخی مقام آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے یہاں قدرتی چشمہ صدیوں سے بہہ رہا ہے ۔تصوف میں گندھی ہوئی بزرگ ہستی حضرت خواجہ رحیم الدین چشتی صابری ؒکی درگاہ خواجہ نگر میں ہے۔

khyber2.jpg

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو قلعہ اٹک دیکھنے کا بھی ہمیشہ اشتیاق رہا ہے ۔مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا 1581میں تعمیر کردہ قلعہ اٹک زمانے کے کئی نشیب و فراز کا گواہ ہے۔ قلعہ کو دیکھنے کے بعد جب ہم شاہراہ پر چلتے ہوئے لوہے کا پرانا پل دیکھتے ہیں تو انگریزوں کی مہارت کی داد دینا پڑتی ہے۔ یہ پل دو منزلہ ہے جس کے اوپر سے ریل گزرتی یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں دریائے کابل اور دریائے سندھ کا پانی آپس میں ملتا ہے اس مقام پر دریا کی گہرائی 40فٹ ہے ۔سردیوں میں دریا کے پانی کی رفتار سات میل فی گھنٹہ اور گرمیوں میں یہ رفتار 13میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اس دریا کے قریب بیگم کی سرائے ہے جو شہنشاہ جہانگیر کے دور میں تعمیر کی گئی مذکورہ مقامات کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب ہمیں سیاحت کی جانب توجہ دینا ہوگی نوشہرہ سے مردان ،چارسدہ اور پشاور آتا ہے جہاں سے طورخم اور جمرود جو پشاور سے 11کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جمرود کے مقام سے درہ خیبر اور قبائلی علاقہ کا آغاز ہوتا ہے افغان جنگ میں سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ مارا گیا اس کی سمادھی قلعہ کے اندر واقع ہے بدھ دور کا سٹوپا بھی صحیح حالت میں موجود ہے ،قلعہ شکئی میں خیبر رائفلز کا دفتر ہے ۔یہ قلعہ 1920میں انگریزوں نے تعمیر کرایا تھا ۔

علی مسجد کے قریب پانی کا چشمہ ہے یہ مسجد عرب طرزتعمیر پر بنائی گئی جو حضرت علیؓ ؓکی مسجد کے نام سے مشہور ہے جس پر تاریخ کا ایک بورڈ نصب ہے ۔اس کے مطابق جن حملہ آوروں کا درہ خیبر سے گزر ہوا ان کی تفصیل اس پر درج ہے سلطانی خاندان سلطان محمود غزنوی کے علاوہ آریا 1600 قبل مسیح ،یونانی حکمران 326قبل مسیح ،موریہ خاندان 190.223قبل مسیح ،چنگیز خان اور اس کے جانشین 1220تا 1369بعد از مسیح ،تیموریہ خاندان 1380تا 1501،مغلیہ خاندان 1526تا 1729، بابر خاندان 1507عیسوی میں اس درے سے گزرا ،درانی خاندان 1747تا 1818،سکھ راج 1825تا 1840،برطانوی راج 1826تا 1947،اسلامی جمہوریہ پاکستان 1947سے تاحال درج ہے یہاں سے درہ خیبر بہت تنگ ہے صرف تیس میٹر چوڑا ہے پچاس سپاہی بڑے سے بڑے حملہ آور کو روک سکتے ہیں۔ لنڈی کوتل خیبر ایجنسی کا صدر مقام ہے یہاں کا ایک اہم تجارتی شہر ہے ریلوے سٹیشن بھی ہے لنڈی کوتل تک ریلوے لائن صحیح حالت میں ہے طورخم بارڈر پر گیٹ بنایا گیا ہے
خیبر کے تاریخی درہ میں پشاور کی طرف سے داخلے کیلئے ایک بڑے دروازے کی تجویز 1962.63میں اس وقت کے کمشنر پشاور مسٹر جی اے مدنی نے دی جب وہ پہلی مرتبہ درہ خیبر کے دورہ پر تھے ،انہوں نے اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ سرفراز خان سے جمرود کے قریب ایک گیٹ وے بنانے کی ہدایت دی اور حکم دیا کہ ایک ایسی عمارت تعمیر کی جائے جو خیبر کی تاریخ اور قبائلی روایات کی علمبر دار ہو جس پر پولیٹیکل انتطامیہ نے موجودہ باب خیبر تعمیر کرایا جس میں صرف خیبر ایجنسی میں پیدا ہونے والا مواد لگایا گیا اور تمام کام جس مین گیٹ وے دیواریں اور پلیٹ فارم شامل ہے صرف چار مہینوں کی قلیل مدت میں تعمیر کئے گئے سابق صدر پاکستان ایوب خان نے 11جون 1963کو باب خیبر کا افتتاح کیا ۔
درہ خیبر صدیوں سے بیرونی فاتحین کی گزرگاہ رہا ہے، دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے ارسطو کے شاگرد سکندر اعطم کا گزر بھی یہیں سے ہوا ،چنگیز خان اور کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے ہلاکو خان کے علاوہ یہاں سے گزرے تاریخی لحاظ سے یہ اتنے حملوں کی زد میں رہا کہ تاریخ بنتی اور بگڑتی رہی ،یہ درہ کئی تہذیبوں کا سنگم بنا اور اس سے مختلف نوع لوگ صدیوں سے زندگی کی طویل شاہراہ پر گامزن رہے یہ شہرہ آفاق درہ تاریخ میں شورش اور تجارت کی گزرگاہ رہا سب سے پہلے آریائوں نے 600قبل مسیح میں اس بین القوامی شاہراہ پر اپنے قدم رکھے چھٹی صدی قبل مسیح میں اہل فارس اس علاقہ پر قابض ہوئے اور اسے اپنی سلطنت قائم کی ۔سکندر اعظم کی سرکردگی میں یونانیوں کی اس درہ میں آمد تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے اگرچہ سکندر اعظم نے خود تو خیبر سے دور دوسرا شمالی راستہ اختیار کیا لیکن یونانی افواج کا بیشتر حصہ اس کے جرنیلوں پریشن اور پرڈیکاز کی کمان میں اس علاقے سے آیا ۔
اس طرح باختری ،سیفی اور پارتھیانی دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں یہاں آئے ۔پہلی صدی عیسوی میں کشان خاندان نے وسطی ایشیا میں سلطنت قائم کی تو پشاور کو اس کا دارالحکومت بنایا اور درہ خیبر بین الاقوامی آمدورفت کیلئے ایک مستقل شاہراہ بن گیا ۔جب گوتم بدھ کی تعلیمات اس علاقے میں عام ہوئیں تو بدھوں اور یونانیوں کے فن باہم گھل مل گئے ۔ شہرہ آفاق گندھارا آرٹ وجود میں آیا، کشان خاندان کے بعد تیسری صدی عیسوی میں ساسانی یہاں آئے ۔اس ایرانی خاندان نے Nunsسے پہلے گندھارا علاقے پر حکومت کی۔ تاریخ عالم کے سفاک Nunsبر اعظم ایشیا کے وسط سے اُٹھ کر پانچویں صدی عیسوی میں اس سرزمین پر حملہ آور ہوئے،اس وقت آنحضور ﷺنے وسطی ایشیا کو اپنے نور سے جگمگایا تو فاتحین اسلام کا سیلاب آگے بڑھا ۔ان پرجوش مجاہدین کے دل اسلامی نصب العین کی مرئی قوت اور اولو العزمی کی روح سے سرشار تھے۔ اپنے پیشرو فاتحین کی طرح انہوں نے بھی مشرق کا رخ کیا۔ اس طرح درہ خیبر نے پہلی بار اسلام کے ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی سے فیض پایا ،عظیم الشان اسلامی فاتح سلطان محمود غزنوی جس نے سومنات فتح کیا ۔ بت شکن کا لقب پایا وہ تاریخ کا بہترین شاہ سوار تھا جس نے ہندوستان پر متعدد حملے کئے کم سے کم دوبار درہ خیبر سے گزرا۔
محمود غزنوی کے بعد سلطان شہاب الدین محمد غوری بھی 1186میں اس تاریخی راستے سے آئے جس نے پرتھوی راج کو شکست دیکر پہلی بار دہلی میں اسلامی سلطنت قائم کی اور سات سو سال تک کیلئے ہندوئوں کی ہندوستان سے برتری ختم کردی ۔ امیر تیمور 1398میں اپنی سلطنت سمر قند میں بیٹھ کرجنوب مغربی ایشیاء کے ایک وسیع حصے پر حکومت کرتے تھے۔ بعدازاں مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر بڑی دل آویز شخصیت کا مالک تھا اس نے یہاں قبیلہ یوسفزئی کی ایک کاتون بی بی مبارکہ سے شادی کرکے پٹھانوں کے ساتھ نسلی تعلق قائم کیا۔ اس نے ہندوستان میں مغلوں کی مستحکم سلطنت کی بنیاد ڈالی جو تین سو سال تک قائم رہی 1739ء میں ایران کا نادر شاہ بھی دہلی جاتے ہوئے درہ خیبر سے گزرا ۔ اس نے مغل اعظم کے تخت طائوس کو قبضے میں لے لیا جس میں سر تا سر جواہر اور لعل جڑے ہوئے تھے بلکہ مغلیہ زمانے کی سب سے قیمتی متاع وہ کوہ نور ہیرا بھی ساتھ لے گیا ۔درہ خیبر میں جدید افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی کی فوجیں بھی گزرتی دیکھی گئیں ،ابدالی ایک عظیم فاتح اور مدبر تھا جس نے پانی پت کی مشہور اور فیصلہ کن جنگ 1761ء میں مرہٹوں کی طاقت کو کچل کر رکھ دیا اور اس طرح مسلمانان ہند کو ہندوئوں کے زیر نگیں آنے سے بچا لیا۔
گندھارا پر سکندر کا وہی اثر تھا جو ایک بڑے حملہ آور کا ہوسکتا ہے، سکندر اعظم اس علاقے میں سال بھر سے بھی کم ٹھہرا تھا اس لئے یونانی تخیل اور ثقافت پھیلانے میں اس کا اثر محض بالواسطہ تھا ،سکھوں کی دوسری جنگ کے بعد انگریز درہ پر قابض ہوگئے ۔ انہوں نے اسکی حفاظت کیلئے درے میں جابجا حفاظتی چوکیاں قائم کیں۔برطانوی فوج کا ہراول دستہ 1849میں پشاور پہنچا تو کوہ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیانی علاقے سے سکھوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔انگریزوں نے پشاور اور دیگر سرحدی اضلاع کو صوبہ پنجاب میں ضم کردیا ۔ اس طرح برصغیر کے وسیع علاقے کی انگریزی عمل داری بڑھ کر خیبر کے قریب تک آگئی۔ اس لئے ان کا معاملہ دوسرا تھا، وہ ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر ایک صدی سے زیادہ حاکم رہے ۔انگریزوں کا اعتراف ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں ان کو ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا جو صحیح معنوں میں دشمنی کا حق ادا کر سکتے تھے۔
وہ خم ٹھونک کر انگریزوں کے سامنے آئے اور ان کی حکومت کے آخری دن تک ان کامقابلہ کرتے رہے ۔خاص درہ خیبر سے انگریزوں کو اس وقت واسطہ پڑا جب پہلی جنگ افغانستان میں ان کی ایک فوج اس راستے سے افغانستان کی جانب بڑھی۔ 1878میں دوسری جنگ افغانستان کے دوران وادی خیبر میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں ۔1897میں آفریدیوں نے درہ پر قبضہ کرلیا اور خیبر کے سارے قبائل انگریزوں کے خلاف متحد ہوکر اُٹھ کھڑے ہوئے آخر کار انگریز کو اپنے خطہ سے نکال کر دم لیا لیکن جب انگریز ایک سو سال سے زیادہ حکومت کرکے واپس جانے لگے تو دونوں قومیں دوستوں کی طرح جدا ہوئیں ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی شاندار قیادت کی بدولت 1947میں پاکستان معرض وجود میں آیا اور انگریز برصغیر سے رخصت ہوئے تو یہ سرحدی علاقے پاکستان کی نگرانی میں آگئے اس وقت سے سرحد کے تمام قبائلی علاقوں میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور راتوں رات خیبر پختون خواہ کی کایا پلٹ گئی انگریزی کے مشہور مصنف کپلنگ نے اپنے ناولوں میں خیبر پختون خواہ کے جو نقوش کھینچے تھے وہ پھیکے پڑ گئے اور اس علاقے کی طویل تاریخ میں نشیب و فراز سے بھر پور نئے نقوش ابھر آئے علاقہ خیبر جس کا زیادہ حصہ ویران پہاڑیوں پر مشتمل ہے چار قبائل یہاں آباد ہیں جن میں اول ۔آفریدی ،دوم۔ شنواری ،سوم ۔ ملاگوری چہارم ۔شلمانی گویا یہ زمین چار قبائل کیلئے ہی بنی ہے زندگی کی پر خطر شاہراہوں پر ان کا سفر ازل سے جاری ہے مگر ان کی روایتی مہمان نوازی ،حسن اخلاق ،شجاعت اور بہادری کی خصوصیات سے انکار ممکن نہیں یہاں سے سڑک نشیب کا رخ کرتی ہے اور شینواری علاقے سے گزرتی ہوئی لنڈی خانہ اور پھر طورخم پہنچتی ہے یہاں سے ہی ڈیورنڈ لائن گزرتی ہے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی اور بین الاقوامی حدِ فاصل ہے۔


 

@intelligent086
ماشاءاللہ
تاریخی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top