Koii To Zimadar Hai By Munir Ahmad Baloch

کوئی تو ذمہ دار ہے؟ .... منیر احمد بلوچ

صرف سات دنوں نے وطن ِ عزیز کی سپاہ کے چودہ چمکتے دمکتے ستاروں کو نگل لیا ۔ عید سعید سے چند روز قبل بھارتی خفیہ ایجنسی '' راء‘‘ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ''این ڈی ایس‘‘ اور '' ایک اور طاقت‘‘ کی مثلث نے سکیورٹی فورسز کے ایک میجر‘ صوبیدار سمیت13 جوانوںکو ہماری کمزور انٹیلی جنس اور سرویلینس کا فائدہ اٹھا کر شہید کر دیا گیا۔مجھے دنیا بھر میں وطن عزیز سے زیا دہ کوئی عزیز نہیں ‘اس لئے میرا دوست ہمدرد اور بھائی وہی ہو گا‘ جو میرے ملک پاکستان کی سالمیت کاا حترام کرے گا‘ میری ملکی سرحدوں اور اس کے پاسبانوں کو عزت دے گااور جو میری سرحدوں کا دفاع کرنے والی سپاہ کا دشمن ہے‘ وہ میرا ''بھائی‘‘ نہیں ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کے دشمن کی کسی بھی طریقے سے مدد کرنے والے کو ''بھائی‘‘ کہنے کیلئے دل قطعی ساتھ نہیں دیتا ہے ۔ ہم تو وہ ہیں‘ جنہوں نے عبد المالک ریگی کے بھائی سمیت جند اﷲ کے18 دہشت گردوں کو آپ کے حوالے کیا کہ وہ ہمارے بھائیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ عبد المالک ریگی ‘جو کسی کی پکڑ میں نہیں آ رہا تھا‘ کی امارات سے روانگی سے لے کرغیزستان تک گرفتاری میں پاکستان نے مرکزی کردار اد اکیا۔ کالعدم تنظیم '' بی ایل او‘‘کے بارے میں اگر دنیا کی طاقتور ایجنسیوں کو خبر ہو سکتی ہے کہ اس نے اپناہیڈ کوارٹر افغانستان سے کسی دوسری جگہ شفٹ کر لیا ہے تو یہ خبر افغان حکومت سے کیسے چھپی رہ سکتی ہے؟ایران کی سر حد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر نصب کی گئیIED سے میجر عباس بھٹی اور چھ جوانوں کی شہادت کازخم ابھی تازہ تھا کہ وطن ِ عزیزکے سات محافظ اس مثلث کے ایک اور آپریشن کی نذر ہو گئے۔ پے درپے یہ تین گھائو کس کی غفلت کی وجہ بنے؟ اس پر پھر بات کریں گے‘ لیکن کوئی تو ہے‘ جو ذمہ دار ہے؟
اب ہمیں پٹرولنگ کے فرسودہ طریقوں کو بدلنے کے علا وہ بلوچستان میں ایک مزید کور کھڑی کرنا ہو گی۔ بے شک پاکستان کی معاشی صورت حال اس وقت انتہائی پریشان کن ہے‘ لیکن قو موں کی زندگی میں اس قسم کے معاشی بحران آتے رہتے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کا یہ معاشی بحران آج تک کہیں جانے کا نام ہی نہیں لیتا اور جو اس کے ذمہ دار تھے انہیں ہی ہمیشہ اس قوم نے سر پر سوار رکھا ۔ گوادر پورٹ‘سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کو ختم کرنے کیلئے امریکہ‘ برادر‘افغانستان‘ بھارت برطانیہ اور اسرائیل ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں‘جبکہ پاکستان اور چین اس کی کامیابی کیلئے سر گرم ہیں تو ان پراجیکٹس کو دشمن کی سازشوں اور حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے بلوچستان اور سندھ سے ملحقہ حصوں کیلئے ایک نئی کور کھڑی کرنی ہو گی‘ جس کا ہیڈ کوارٹر تربت میں ہو‘ نیز بشیر زیب ‘ عبد النبی بنگلزئی اور ندیم جیسے وطن دشمنوں کا سر کچلنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ جن کا سپریم کمانڈر اجیت ڈوول ہے اور ممکن ہے کہ یہ تینوں اس کے کسی بہت ہی محفوظ سیف ہائوس میں یا قندھار میں یا کسی پڑوسی ملک میں بیٹھے ہوئے ہوں۔ اس وقت بلوچستان میں بی ایل اے کا بشیر زیب گروپ سب سے زیا دہ سر گرم ہے۔بشیر زیب زیا دہ تر قلات کے قریب پارود کے علاقے سے آپریٹ کرتا ہے اور یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ حصہ مری قبیلے اور براہوی بیلٹ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح کالعدم تنظیم '' بی ایل ایف‘‘ مکران سے آپریٹ کر تی ہے۔ بشیر زیب عرصے تک قندھار میں رہتا رہا اور اب لازمی انڈیا یا اس کے ''ہمدردوں‘‘ کے ساتھ رابطے میں ہو گا۔ بشیر زیب کو جاننے والے اسے ایک زہریلے جانور سے تشبیہ دیتے ہیں اور پاکستان کا وہ کٹردشمن چلا آ رہا ہے۔افسوس کے ہمارے سادہ لوح حکمران اس طرح کے سانپوں کو پہچان نہیں پاتے‘ یہی وجہ ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔بشیر زیب کی شخصیت کا ایک پہلو اس کے اندر چھپی ہوئی بزدلی ہے‘ کیونکہ آج تک اس نے کسی بھی آپریشن میں براہِ راست حصہ نہیں لیا اور ہمیشہ پیچھے رہ کر اپنے دوستوں کو آگے کیا‘ یہی وجہ ہے کہ اس نے خود کو محفوظ رکھا ہے۔
دشمن کے مذکور کامیاب حملوں کے بعدشفیق مینگل کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ کاش کہ ہم شفیق مینگل جیسے پاکستانیوں کو ان کا حقیقی مقام دیں پائیں‘ کیونکہ وہ خضدار( جھالاوان) میں دشمن کے خلاف انتہائی کار آمد ہو سکتا ہے۔ سردار ثنا اﷲ زہری کے بی ایل اے سے اختلافات چھپے نہیں تو '' دشمن کے دشمن کو اپنا دوست بنانے میں کیا حرج ہے؟ یہی طریقہ انڈیا نے کشمیریوں کیخلاف پنڈتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا رکھا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ ثنا اﷲ زہری ان ملک دشمن علیحدگی پسندوں کا ساتھ نہیں دے سکتے‘ تاہم زہری کو بیک فٹ پر رکھ کر مبینہ طور پر اختر مینگل کو سپورٹ کیا جا رہا ہے‘ کیونکہ مینگل کا بھائی لشکر بلوچستان کا کمانڈر ہے۔ بے شک اختر مینگل باغی گروہ سے نہیں ‘لیکن وہ اپنے بھائی کے تو ساتھ ہے ۔ادھر ''بی ایس او‘‘کے متحرک طلبا کسی سے ڈھکے چھپے نہیں‘ بس چند ماہر کھوجیوں کی ضرورت ہے۔اس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی بھی ضرورت نہیں ‘آنکھیں کھلی رکھ کر کالجوں ‘ یونیورسٹیوں کے کچھ طلبا ونگ‘ بڑے شہروں اور قصبوں کے سٹریٹ بوائز‘ مری قبیلے کے لوگ اور بگٹیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ‘باقی تو مجموعی طور پر بلوچستان کا عام بلوچ انتہائی معصوم اور سادہ ہے۔ جدید انٹیلی جنس کیلئے ذہانت اور ذہنی صلاحیتوں کا چاک و چوبند ہونا ضروری ہو چکا‘اس لئے اس فیلڈ میں ادھر ادھر سے مستعار یا ڈیپو نیشن پر نہیں ‘بلکہ کالجوں کے اچھے لڑکوں کو پی ایم اے سلیکشن کی طرز پر ہمہ وقتی جاب دینا ہو گی۔2009-10ء کی مثال سب کے سامنے ہے کہ جب ''بی ایل اے‘‘ کو ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے سبق سکھا دیا تھا‘ اس لئے پارٹ ٹائم یا سول سے لئے گئے لوگ کم از کم بلوچستان میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے‘ اس کیلئے پیشہ ور اور محب وطن قسم کے لوگوں کا استعمال بڑھانا ہو گا۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ بلوچستان میں دشمن کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد شہروں میں نہیں ‘بلکہ ان سے دور اپنی کمین گاہوں یا مقامی دوستوں کے پاس چھپے ہوتے ہیں ‘جبکہ شہروں میں وہ اپنے ہمدردوں اور ساتھیوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
دشمن نے اب IED اورSnipers تکنیک استعمال کرنا شروع کر دی ہے جوکسی بھی پٹرولنگ فورس کے خلاف سب سے کار آمد ہتھیار ہوتا ہے۔ کوئی چھ ماہ قبل جب ایف سی کے ایک کرنل اور ان کے ساتھ جیپ میں سوار پانچ جوانوں کو گھات لگا کر شہید کیا گیا تو اس حملے کی '' بی ایل اے‘‘ نے جو ویڈیو جاری کی اس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ ان کے پاس بہترین نشانے باز ہیں ۔ 2020ء میں دشمن نے بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں کیخلاف کئے گئے آپریشنز میں جدید اسلحہ کا ا ستعمال کیا اور سب سے زیادہ حملے بی ایل ایف اور بی ایل اے بشیر زیب گروپ نے کئے‘ جبکہ چھ حملے بی آر اے( بیباگر گروپ) نے اور چار BRAS نے کئے ۔الغرض دشمن ا گریکے بعد دیگرے تین چار کامیاب حملے کر لے‘ تو اس سے جہاں دشمن کا مورال بلند ہوجاتا ہے اور نقصان اٹھانے والی فورس کا مورال ڈائون ہو جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کی اس نئی تکنیک کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق اس سے نمٹا جائے۔
 
Columnist
Back
Top