Kya Karen, Kya Nah Karen - Ammar Chaudhry column

پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لوگوں کا اس وقت یہی مسئلہ ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کورونا وائرس کے متعلق آپ نے جتنا جاننا تھا جان لیا، بہتر یہ ہے کہ دیگر امور کی طرف توجہ دیں۔ یہ بات ہر اس شخص کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے جو سارا دن ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھا کورونا وائرس سے متعلق مواد دیکھ، سن اور تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے لوگ کورونوفوبیا کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے کئی دیگر مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں، جن میں بلڈ پریشر کا بڑھنا، ذہنی اضطراب، نیند کی کمی، چڑچڑا پن وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت ڈاکٹرز، صحافی، سول انتظامیہ، پولیس، فوج، جنرل سٹورز، میڈیکل سٹورز اور دیگر ضروری شعبوں سے جڑے عملے کے سوا تقریباً تمام لوگ گھروں میں ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پہلے سے بیمار ہیں اور ایسے بھی جو کورونا کی وجہ سے گھر میں رہ کر بیمار ہو رہے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں، جو کورونا ایکسپرٹ بننے پر تُلے ہوئے ہیں، کیلئے بہتر ہو گا کہ وہ قرآن کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں، اس سے انہیں بہت افاقہ ہو گا۔ لوگ تو جیلوں میں کتابیں لکھ لیتے ہیں، بڑے بڑے دیوان ختم کر لیتے ہیں تو جن لوگوں کے پاس گھر بیٹھ کر وقت بہتر انداز میں گزارنے کی آپشن موجود ہے وہ بلا وجہ اپنے لئے نئے مسائل پیدا نہ کریں۔ لوگوں نے کورونا کو بھی ٹونٹی ٹونٹی میچ سمجھ لیا ہے۔ جو شخص بھی دوسرے کو فون کرتا ہے یہی بتاتا ہے کہ رات کو اتنے بندے کورونا کا شکار ہوئے تھا، آج اتنے ہیں۔ امریکہ، اٹلی سے آگے نکل جائے گا، اموات لاکھوں میں ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ ہر شخص خود کو دیگر لوگوں سے زیادہ آگاہ سمجھ رہا ہے مگر جیسے ہی وہ دوسرے کو کچھ بتاتا ہے اسے پہلے سے ہی تمام چیزوں کا علم ہوتا ہے جس پر بحث کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑتا ہے جس سے دونوں اطراف وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور توانائی بھی۔ چینلز بریکنگ نیوز کے چکر میں ہر نئے کیس کی خبر ایسے چلا رہے ہیں جیسے ہر شخص کو انہی خبروں کا انتظار ہے۔ اس سے لوگوں میں خوف پھیل رہا ہے۔ اس کے بجائے اگر لوگوں کو صفائی ستھرائی سے متعلق ہدایات اور ویڈیوز زیادہ دکھائی جائیں تو اس کا ان پر اثر بھی ہو گا اور وہ ان معلومات کی مدد سے اپنے گھروں اور علاقوں کو صاف اور جراثیم سے پاک بنا سکیں گے۔
کورونا کے علاج سے متعلق بھی طرح طرح کی ویڈیوز نے لوگوں کی مت مار دی ہے۔ سائبرونگ کو ایسی ویڈیوز اور اکائونٹ بند کر دینے چاہئیں کیونکہ اگر پاکستان میں دودرجن سے زائد کورونا کے توڑ دریافت کئے جا چکے ہیں تو پھر باقی ممالک کو اپنی تحقیقی لیبز بند کر دینی چاہئیں۔ کوئی پیاز اور ادرک کا عرق بتا رہا ہے تو کوئی لیموں اور ٹماٹر کا جوس پینے کو کہہ رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے انٹرنیٹ ایک مچھلی منڈی بن چکا ہے۔ ہم ٹی وی چینلز کو روتے تھے لیکن یوٹیوب وغیرہ پر ریٹنگ کیلئے وہ وہ ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں جو کسی دور میں دوپہر کے تھرڈ کلاس اخبارات کی شہ سرخیوں میں نظر آتے تھے۔ لوگ شہ سرخی دیکھ کر اخبار خرید لیتے تھے مگر اندر کچھ اور ہی خبر ہوتی تھی۔ 'کورونا کا علاج نکل آیا، 'کورونا کیسے ختم ہو سکتا ہے، کے عنوان سے طرح طرح کی ویڈیوز لوگوں کو مزید ہیجان میں مبتلا کر رہی ہیں۔ گویا اس عالمی آفت اور وبا کو بھی اپنے فائدے سمیٹنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ عوام کے پاس بھی کرنے کو کوئی کام نہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ گھر بیٹھنے کا مطلب وقت ضائع کرنا کیسے ہو گیا؟ جن لوگوں کو گھر بیٹھنے میں تکلیف ہو رہی ہے وہ ذرا مقبوضہ کشمیر کے عوام کی کیفیت کا اندازہ لگا لیں جن کے گھروں کے باہر بھارتی فوج دندناتی پھر رہی ہے۔ وہ گھر سے نکل سکتے ہیں نہ ہی اشیائے خورونوش اور علاج کیلئے انہیں جانے کی اجازت ہے۔ جب کشمیری عوام کو ہماری ضرورت پڑتی ہے تو ہم چند منٹ کیلئے سڑکوں پر آ کر نعرے لگا دیتے تھے اور اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے تھے۔ ہمیں آج یہ احساس ہو رہا ہے کہ کشمیری عوام کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ ہم تو کشمیر پر چند بیانات دے کر خاموش ہو جاتے تھے لیکن وہ لوگ ہر پل جیتے اور ہر پل مرتے تھے۔ ان میں اور ہم میں مگر اب بھی بہت بڑا اور واضح فرق ہے۔ ہم گھروں میں رہتے ہوئے اب بھی آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں، ہم اس لاک ڈائون کے باوجود باہر آنے جانے میں آزاد ہیں لیکن کشمیر کے لاک ڈائون میں باہر نکلنے والے کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ ہم پر زیادہ سے زیادہ پابندی یہ ہے کہ صرف ضروری کام سے باہر نکلیں جس کی ہم پروا نہیں کر رہے۔ ہم اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ہمارا یہی رویہ حکومت کو سخت ایکشن لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ اگر حکومت نے کرفیو لگا دیا تو پھر ہمیں یہ لاک ڈائون یاد آئے گا جو اب بھی کسی نعمت سے کم نہیں اور جس میں ہم ذرا سی احتیاط کرکے چند دن گزار کر معمول کی زندگی میں واپس آ سکتے ہیں۔ کرنے والا کام یہ ہے کہ ہم اگر سودا سلف لاتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ اس غریب طبقے کا بھی رکھ لیں جس کا مکمل گزارہ دیہاڑی پر ہوتا تھا۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ہم چند کلو آٹا، دالیں، گھی اور چینی وغیرہ تھوڑا زیادہ لے کر اگر اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کر دیں تو ثواب کے حصول کے ساتھ ساتھ حکومت کے سر سے بوجھ بھی کم کر پائیں گے۔ جن کے پاس گاڑی کی نعمت ہے وہ پانچ پانچ کلو آٹے کے چند شاپر اضافی خرید لیا کریں اور راستے میں موجود ریڑھی بانوں، مزدوروں اور سکیورٹی گارڈز میں تقسیم کر دیا کریں۔ یہ کام خاموشی سے کریں تاکہ کسی کی عزت نفس متاثر نہ ہو۔ اس بحران میں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم ڈنڈے کی قوم نہیں ہیں۔ ذمہ داری اگر آج بھی ہم میں نہیں آتی تو شاید کبھی نہیں آئے گی کیونکہ ایسا بحران کسی نے آج تک دیکھا نہ سنا۔
اس وبا نے ثابت کیا انسان کی صحت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور نعمت نہیں۔ اٹلی کی کئی گلیوں میں اطالوی شہریوں نے اپنی کرنسی یہ کہہ کر سڑکوں پر پھینک دی ہے کہ جس کرنسی کا کوئی فائدہ نہ ہو، اسے رکھنے اور اس کے پیچھے بھاگنے کا فائدہ؟ آج وہاں لوگوں کے پاس پیسہ ہے لیکن وہ اس سے صحت نہیں خرید سکتے۔ اٹلی ہی نہیں بلکہ جرمنی، فرانس، سپین اور دنیا کے خوبصورت ترین ملک سوئٹزرلینڈ کا بھی حال مختلف نہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو مشینری اور ٹیکنالوجی میں دنیا میں سب سے آگے تھے۔ انہیں آج معلوم ہوا کہ وہ جس چیز کے پیچھے بھاگ رہے تھے وہ محض ایک سراب تھا۔ ہفتے کے پانچ دن کولہو کے بیل بنے رہنے کا نتیجہ کیا نکلا، یہ انہیں آج معلوم ہو رہا ہے۔ دنیا کو آج یہ بھی معلوم ہوا کہ لاک ڈائون ہوتا کیا ہے۔ جب فلسطین، افغانستان، کشمیر اور شام کے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جاتے تھے، جب انہیں اپنے گھروں میں محصور کرکے ان پر بم پھینک دئیے جاتے تھے تب ان ممالک کے حکمرانوں اور ان کے عوام کو ان مظلوم مسلمانوں کی پروا تک نہیں ہوتی تھی۔ آج یہ سب اپنی اپنی جانیں بچانے کیلئے کیڑے مکوڑوں کے طرح ادھر اُدھر چھپ رہے ہیں۔ قدرت کا بھی عجیب نظام ہے۔ شاید یہ وبا طاقتور اور مظلوم ممالک میں توازن قائم رکھنے کیلئے وجود میں آئی کیونکہ اب سے پہلے تک تو صرف غریب اور مجبور ہی ظلم کی چکی میں پس رہا تھا لیکن اس وبا نے صدور، وزرائے اعظم، بادشاہوں اور شہزادے شہزادیوں کو بھی اپنی اپنی جان بچانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد حل اللہ کو راضی کرنا ہے۔ بے شک زمین پر جو بھی مصیبت آتی ہے، انسانوں کے اپنے نامۂ اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔ زمین پر وہ کون سا ظلم ہے جو گزشتہ دس پندرہ برسوں میں نہیں کیا گیا۔ معصوم بچوں، عورتوں حتیٰ کہ بزرگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا گیا۔ انسانوں نے دوسرے انسانوں کے حقوق کو جب چاہا پامال کیا۔ آج ان گناہوں سے معافی مانگنے کا وقت ہے۔ اس وقت کرنے کا ایک ہی کام ہے۔ سچے دل سے کی گئی توبہ اور استغفار سے ہی ہم اس عذاب سے نکل سکتے ہیں۔
 
Columnist
Ammar Chaudhry
Back
Top