Legendary actor and TV host Tariq Aziz has died, TariqAziz passed away peacefully at home at the age of 84

محمد عتیق چودھری‘ براڈ کاسٹر طارق عزیز
کے کالموں کا مجموعہ ’’داستان‘‘ لے کر آ گیا‘ ورق گردانی کی تو مزہ آ گیا‘ سوچا طارق عزیز کے کالموں سے قارئین کو لطف اندوز ہونے کا موقع دیں‘ ایک کالم ’’چار وزیر اعظم ۔دولاشیں‘‘ قندّمکررّ کے طور پر نذر قارئین ہے۔ ابھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ابھی دو لخت نہیں ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا ایک دن کی کہانی نہیں ہیں کس کس کی غفلت نے کہاں کہاں کہاں اور کیسے کیسے زخم لگائے یہ ایک اندوہناک داستان ہے۔ آخری مراحل میں تین کردار سامنے آئے جن کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی تقدیر کا بنیادی فیصلہ آ گیا: وہ قیامتیں جو گزر گئیں تھیں امانتیں کئی سال کی الیکشن جیتنے کے بعد بھٹو صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہلی بار شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کے لئے ڈھاکہ روانہ ہوئے۔ حالات نارمل نہیں ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔کوئی چیز بھی واضح نہیں کیا ہو گا؟ اس سوال کی حیرتیں درد مندوں کی آنکھوں سے جھانک رہی ہیں۔ منظر دھندلایا ہوا ہے اور اس دھند کو مزید گہرا کرنے کے لئے انسانی خون کی ارزانیاں منتظر کھڑی ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی زبانوں پر شہد ہے اور آستینوں میں صیقل شدہ خنجر پنہاں ہیں۔‘‘ ’’جب ہم ڈھاکہ ہوائی اڈے پر اترے تو بہت سے مشکوک چہرے نظر آئے۔جہاں تک مجھے یاد ہے عوامی لیگ کا کوئی قابل ذکر لیڈر ہوائی اڈے پر موجود نہیں تھا۔ ہم سب نے اپنے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھٹو صاحب کے گرد ایک حفاظتی حلقہ سا بنا لیا تھا کیونکہ یہ بھی خدشہ تھا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ہم نے اپنے بازوئوں کے حلقے میں بھٹو صاحب کو گھیر رکھا تھا اور ہجوم نے ہمیں گھیرے میں لے رکھا تھا۔ بہت سے لوگ بار بار آ کر ہم سے ٹکرا رہے تھے۔ اس کھینچا تانی میں جب ہم ہوائی اڈے کی عمارت سے باہر آئے اور گاڑیوں میں بیٹھے تو پتہ چلا کہ ہم سب کی جیبیں کٹ چکی ہیں۔ میں اپنی کل پونجی دو سو روپے جو میں نے میر علی احمد تالپور سے ادھار لئے تھے گنوا چکا تھا اور ساتھ ہی پی آئی اے کا ٹکٹ بھی۔ سبھی لیڈروں کی جیبیں خالی ہو چکی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں بھٹو اور اس کے ساتھیوں کا یہ پہلا استقبال تھا۔ اسی شام کچھ اخبار نویس ہمیں ملنے کے لئے ہوٹل میں آئے۔ مشرقی پاکستان میںاداکار کی حیثیت سے بھی میری اچھی خاصی شہرت تھی۔ لوگ مجھے چہرے سے پہچانتے تھے۔ میں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ جنہوں نے ہماری جیبیں کاٹی ہیں وہ چور نہیں ضرورت مند تھے۔ رقم وہ چاہے رکھ لیں لیکن ہمارے واپسی کے ہوائی ٹکٹ واپس کر دیں اس سے ہماری پریشانی کچھ کم ہو سکتی ہے۔ دوسرے دن شام کے وقت جب میں ہوٹل پہنچا تو ایک بند لفافہ میرے لئے کائونٹر پر رکھا ہوا تھا۔ کھولا تو اس میں میرا ٹکٹ تھا۔ محبت ‘کرم ‘شکریہ ‘مہربانی پتہ چلا کہ مشرقی پاکستان کے جیب کترے بھی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں سینے میں دل بھی رکھتے ہیں۔ شاید اسی شام شیخ مجیب الرحمن بھٹو صاحب سے ملنے آئے۔ ان کے ساتھ بہت سے ورکر بھی تھے جنہوں نے کچھ دیر کے بعد نعرے بازی شروع کر دی۔میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اپنے ورکروں سے ایک خاص طرح سے نعرے بازی کروانا بھی ایک سیاسی چال تھی اور اس کا مطلب بھٹو صاحب پر دبائو بڑھانا بھی ہو سکتا تھا۔ بھٹو صاحب نے مجھے اور معراج محمد خان کو پیغام بھجوایا کہ کسی طرح ہوٹل کے باہر ہونے والی نعرہ بازی کو بند کروائو۔ میں اور معراج ہوٹل کے دروازے پر گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی ان کے نعروں میں شدت آ گئی میں پہلے بتا چکا ہوں کہ بطور اداکار وہاں میرا تھوڑا بہت تعارف تھا میں نے انہی لوگوں سے میگا فون لے کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ میں نے شیخ مجیب الرحمن کی تعریف کی کہ انہوں نے الیکشن میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی ہے جس پر میں آپ کو اور شیخ مجیب الرحمن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہجوم نے تالیاں بجا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور خاموشی سے تقریر سننے لگا۔ پھر میں نے بھٹو صاحب کی تعریف کی کہ وہ بھی مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بھی شیخ مجیب الرحمن کی طرح عوام کے ہیرو ہیں۔ اس وقت دونوں ہیرو اوپر کمرے میں بیٹھے بات کر رہے ہیں اور تمہیں دعا کرنی چاہیے کہ ان کی بات چیت کامیاب ہو اور ہمارا ملک خوشحالی کی راہ پر چل نکلے اور مارشل لاء ختم ہو۔ میری تقریر کے بعد معراج محمد خان نے زور دار تقریر کی اور آخر میں معراج محمد خان نے لوگوں سے پوچھا کہ تم دو پاکستان چاہتے ہو یا ایک پاکستان‘ مجمع نے ایک آواز ہو کر جواب دیا ایکٹا پاکستان(ایک پاکستان) اس کے بعد ہم نے شیخ مجیب الرحمن زندہ باد اور بھٹو زندہ باد کے نعرے لگوائے اور پھر وہ سب خاموشی سے ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگے۔دوسرے دن دونوں پارٹیوں کے وفد ایک بہت بڑے سٹیمر پر ملے جو دریائے بوڑھی گنگا کے سینے کو چیرتا ہوا جا رہا تھا۔ ہم لوگ اپنی اپنی سطح پر ایک دوسرے سے گھل مل کر باتیں کر رہے تھے۔ عوامی لیگ کے بہت سے ساتھیوں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب‘یحییٰ خان کے ساتھ مل کر شیخ مجیب کے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں اور فوجی طاقت سے شیخ مجیب اور عوامی لیگ کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ دونوں طرف کے لوگ بہت کھل کر اپنے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ ہمارا سٹیمر دریائے بوڑھی گنگا پر بہے جا رہا تھا جب ہم کم و بیش ایک گھنٹے کا سفر طے کر چکے تو اچانک ایک چھوٹی کشتی جو انجن کیساتھ چل رہی تھی‘ ہمارے سٹیمر کیساتھ آ گئی۔ سٹیمر رک گیا جناب ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن اپنے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر اس چھوٹی کشتی میں چلے گئے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ہم سب اپنے سٹیمر سے اپنے اپنے لیڈر کو دور سے دیکھ تو سکتے تھے سن نہیں سکتے تھے۔ دونوں لیڈر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کی باتیں ان کی تجویزیں ‘ ان کے فیصلے خدا کے سوا تیسرا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ ’’میرا خیال ہے کہ ایک پاکستان اس وقت بوڑھی گنگا میں ڈوب رہا تھا اور ہم دور سٹیمر پر بیٹھے خوش فہمیوں کی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔پھر تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد وہ چھوٹی کشتی دوبارہ ہمارے سٹیمر کے پاس آ گئی۔ دونوں لیڈر بڑے خوش باش کشتی سے اتر کر سٹیمر پر آ گئے۔دونوں اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے دونوں لیڈروں نے اپنے اپنے ساتھیوں سے آ کر جو کہا‘کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کشتی والی ’’ون ٹو ون‘‘ ملاقات سے کتنا مختلف تھا۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاست دھات کے جسم اور پتھر سے تراشے ہوئے دل کا کھیل ہے۔ اقتدار کے لئے سیاست دان بیسوا کے بستر کی چادر کی طرح ہر آن اپنا موقف بدلنے کو عار نہیں سمجھتا۔اسے ہر قیمت پر اقتدار عزیز ہوتا ہے چاہے اس کشمکش میں ملک پارہ پارہ ہو جائے۔دوسری صبح ہم لوگ واپس آ گئے۔ لیکن لیڈروں کے کہنے کے باوجود سمجھنے والے سمجھ رہے تھے کوئی فیصلہ ہو چکا۔ اِدھر تم‘اُدھر ہم‘‘ ’’یہی وجہ ہے کہ جب دوسرا وفد جناب محمود علی قصوری مرحوم کی سربراہی میں مشرقی پاکستان بھیجے جانے کا فیصلہ ہوا تو معراج محمد خان اور میں نے وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا اور جس رات جناب ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان سے واپس آئے اور انہوں نے کراچی کے ہوائی اڈے پر یہ کہا کہ ’’خدا نے پاکستان بچا لیا‘‘ تو معراج محمد خان اور میں نے اپنے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر یہ کہا کہ نہیں پاکستان محفوظ نہیں رہا کیونکہ آپ ملٹری ایکشن کو سپورٹ کر آئے ہیں۔‘‘ ’’پھر جو ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اندرا گاندھی کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں کہ ہم نے دو قومی نظریے کو سمندر میں ڈبو دیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دے کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کو نئے پاکستان کا نام دیا اور قائد اعظم کے پاکستان کی بجائے نئے پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ داستان کے تیسرے کند ذہن اور ہمہ وقت مدہوش رہنے والے کردار جنرل یحییٰ خان کو بھٹو صاحب نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔یہاں تک کہ فرشتہ اجل نے اپنے پر پھیلا دیے اور تیسرا کردار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ ساری کہانی صرف دو سینوں میں محفوظ رہ گئی۔‘‘ ’’بنگلہ دیش میں جہاں ایک وقت میں شیخ مجیب الرحمن کی پوجا ہوتی تھی۔ اسی ڈھاکہ میں دھان منڈی والے گھر میں فوج نے مجیب خاندان کو ختم کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی خون آلودہ لاش کو تخت سے تختے پر لٹا دیا گیا۔ دریائے بوڑھی گنگا کا پانی اسی طرح بہتا رہا۔ادھر نئے پاکستان میں بھٹو صاحب سیاہ سفید کے مالک بنے رہے۔ جمہوریت کے دعوے دار ہونے کے باوجود ان کا ذہن جمہوری نہیں تھا۔ انہوں نے صوبہ سرحد اور بلوچستان کی اس وقت کی حکومتیں غیر جمہوری طریقوں سے ختم کروائیں۔ ان کے اپنے بہت سے ساتھی اقتدار کے منہ زور گھوڑے کی زد میں آ کر زخمی ہوئے۔ جب قریبی دوستوں اور ساتھیوں کا یہ حال تھا تو سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا بیتی اس سلسلے میں ملک قاسم‘ میاں طفیل اور دلائی کیمپ والے آج بھی یاد آتے ہیں۔پھر داستان کا یہ آخری کردار بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ نئے پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کو ایک متنازع عدالتی فیصلے پر فوج نے ایک رات کی درمیانی گھڑیوں میں اسے جلاد تارا مسیح کے سپرد کر دیا اور وہ دار کی خشک ٹہنی پر وارا گیا۔آخری کردار بھی خاموش ہو گیا۔ مورخین کے اندازے اور حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹیں کیاہوئیں کسی کو کچھ معلوم نہیں اور اب شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اپنے باپ کے بنائے ہوئے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے نئے پاکستان پر ان کی بیٹی قابض ہے۔ دونوں کے پاس اپنے اپنے مرحوم باپ کی سیاسی لاش سیاسی وراثت کی صورت میں موجود ہے۔لیکن حقیقی دشمن بھارت دونوں کے ساتھ مخلص نہیں...دونوں کا ازلی دشمن ہے۔ بنگلہ دیش کا بھی پاکستان کا بھی اور شاید ہر دو صاحبزادیوں کا بھی‘‘۔ (6جولائی 1996ئ)
طلوع آفتاب
ارشاد احمد عارف؟
@Maria-Noor
 

images (18).jpeg
 
Back
Top