Liberalism Apnao, Secularism Bhagao By Ahmad Ilyas Column

لبرل ازم اپناؤ، سیکولر ازم بھگاؤ —— احمد الیاس

ہم اصطلاحات اور نظریات کی بھرمار مگر فہم اور تجزیے کے قحط کے درمیان زندہ ہیں۔ عوام تو عوام، ہماری فکری و علمی اشرافیہ بھی سرمایہ داری، اشتراکیت، لبرل ازم، سیکولر ازم اور اسلامی ریاست جیسی وسیع مفاہیم رکھنے والی اصطلاحات کو ایسی لاپروائی اورسطحیت کے ساتھ استعمال کرتی نظر آتی ہیں کہ حیرت ہونے لگتی ہے۔ اسلام، لبرل ازم اور سیکولر ازم کی مثلث بالخصوص کئی غلط فہمیوں اور مغالطوں کی زد میں ہے۔

مغالطہ لبرل ازم کے مفہوم، اسلام کی فطرت اور سیکولرازم کے سکوپ کے حوالے سے ہے۔ اس حوالے سے کچھ بنیادی مگر ضروری باتیں ذہن نشین کرلینی چاہییں۔

لفظِ لبرل انگریزی لفظ لبرٹی سے ہے جس کا مطلب ہے آزادی۔ گویا لبرل کا مطلب آزادی پسند۔ آزادی پسندی کو جب باقاعدہ سماجی، سیاسی یا معاشی فلسفے کی شکل دے دی جائے تو اس کا نام لبرل از م ہے۔ گویا لبرٹی اور لبرل ازم کا اسلام اور سیکولرازم سے تعلق جانچنے کے لیے اسلام اور سیکولرازم کا آزادی کے حوالے سے نکتہ نظر اور رویہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آزادی جیسے آفاقی قدر جو انسانی فطرت میں گہری جڑیں رکھتی ہو، کسی زمان و مکان سے مخصوص نہیں کی جاسکتی۔ ہر دور اور ہر تہذیب میں آزادی پسند تحریکیں موجود رہی ہیں۔ تاہم آزادی پسند تحریک کی جدید لہر یعنی موجودہ لبرل ازم کا آغاز سترہویں اور اٹھارہوِیں صدی کے اینگلو سیکسن اور فرانسیسی دانشوروں سے ہوتا ہےجن میں سب سے معروف نام انگلینڈ سے جان لاک اور فرانس سے ژاں ژاک روسو کا ہے۔ روسو کی معروف کتاب دی سوشل کونٹریکٹ کا ابتدائیہ اسلام کے دوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کے ایک معروف قول کا ترجمہ ہے۔ ممکن ہے یہ جملہ شامل کرتے وقت روسو کو اس کی اصل کا علم نہ ہو مگر خلیفہِ ثانی کا یہ مختصر قول صرف ریاستِ مدینہ کے آئیڈیل کا مظہر نہیں، بلکہ اس کتاب کا مرکزی خیال بھی ہے جو لبرل فکر کے حوالے سے بنیادی اور مقتدر تصور کی جاتی ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا یہ قول کچھ اس طرح ہے : ماؤں نے اولاد کو آزاد جنا، تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا ؟۔ دی سوشل کانٹریکٹ کے ابتدائیے میں اس مفہوم کو کچھ اس طرح ادا کیا گیا ہے : انسان آزاد پیدا ہوا مگر اب وہ ہر جگہہ زنجیروں میں ہے۔
اگر اسلام کے بنیادی فریم ورک ہی کو دیکھ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سماجی، سیاسی اور معاشی اصول دینے کے باوجود اسلام زندگی کو بنیادی طور پر ایک انفرادی آزمائش گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باپ کے گناہ کا فائدہ بیٹے کو نہیں پہنچے گا، ماں کی نیکی بیٹی کو ثواب نہیں پنچائے گی، ایک گنہگار قوم کا نیکوکار فرد لازماً جہنم کی نذر نہیں کیا جائے گا اور ایک صالح مزاج قوم میں پیدا ہونے والا فاسق جنت کا حق دار نہیں ٹھہرا دیا جائے گا۔ یہ اصول ظاہر کرتا ہے کہ اسلام کے نزدیک بنیادی یونٹ فرد ہی ہے ناکہ خاندان، قوم یا معاشرہ۔ خاندان قوم اور معاشرہ وغیرہ افراد سے مل کر بنتے ہیں اور اسلام فرد سے توقع کرتا ہے کہ وہ ان کو بہتر بنائے گا۔ یوں بنیادی ذمہ داری فرد پر ہے اور عدل کا مسلمہ اصول ہے کہ ذمہ داری جس پر ڈالی جائے، سوال بھی اسی سے کیا جاتا ہے اور ذمہ دار سے سوال تب ہی کیا جاسکتا ہے جب اسے ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مطلوبہ اختیار یا سادہ الفاظ میں آزادی دی گئی ہو۔ گویا انفرادی آزادی اسلام کے فریم ورک کا بنیادی تقاضا اور دین کی نیچر کا لازمی جزو ہے۔ یوں اسلام اور لبرل ازم اپنی اصل میں قطعاً متصادم نہیں، بلکہ اسلام لبرل ازم کو اپنے ایک اساسی جزو کے طور پر لے کرہی آگے بڑھتا ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مادہ پرستی پر مبنی نظریے اور روحانیت پر مبنی نظامِ فکر کا جوہری فرق کیا ہے ؟ مادہ پرستی کا سب سے منطقی اور لازمی نتیجہ شکتی پوجا ہوتی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر مبنی نظام میں طاقت کا سب سے بڑا منبع ہی سماجی تبدیلیوں اور ضابطہ سازی کا سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا منبع چونکہ عموماً ریاست ہی ہوا کرتی ہے لہذا کسی بھی مادہ پرست نظام میں ریاست کا کردار اساسی اور بے پناہ اختیارات کا حامل بن جانا ناگزیر۔ معاشرت، معیشت اور انفرادیت۔ ۔ ۔ سب ریاستی طاقت کی کنیزیں بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انیسویں صدی کی فلسفیانہ مادہ پرستی کی بنیاد پر اٹھنے والے نظام، خواہ وہ فاشزم اور نازی ازم ہوں یا کمیونزم اور اسٹالن ازم۔ ۔ ۔ بہت مطلق العنان، ظالم اور غیر لبرل ریاستوں کے قیام کا سبب بنے۔ نازی جرمنی، فاشسٹ اٹلی، سوویت روس اور ماؤ کا چین۔ ۔ ۔ سب شخصی آزادی کے قبرستان تھے۔ ان ہی خطوط پر چل رہی ریاستیں مثلاً شمالی کوریا اور چین وغیرہ آج بھی اس صورتحال کا شکار ہیں۔ حد یہ ہے کہ کمیونزم اور فاشزم سے متاثرہ ہماری اپنی تحریکیں مثلاً جدید جہاد ازم اور قطب ازم داعش اور طالبان کی شکل میں سوویت روس اور نازی جرمنی جیسی ہی ظالم نکلیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر دانشور متفق نظر آتے ہیں کہ متشدداسلام ازم اسلامی روایت کی نہیں، بلک مسلم معاشروں میں داخل ہونے والی سامراجیت کے راستے داخل ہونے والی مغربی جدت کی پیداوار ہے۔

اسے کے برعکس حقیقی روحانی قدروں پر کھڑا کوئی بھی نظام روح پر اساس رکھتا ہے اور روح فرد کی ہوتی ہے۔ لہذا فرد کو اصولی طور کسی ریاست، معاشرت، قوم، قبیلے کا ماتحت جاننا روحانیت کے جوہر سے انحراف ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں لبرٹی اسلام کے لیے ناگزیر ہے، وہاں لبرل ازم کی مضبوط بنیاد بھی کوئی روحانی یا مذہبی مفروضہ یا ایمان ہی فراہم کرسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغرب میں لبرل جمہوریت کو آج ریڈیکل رائٹ اور ریڈیکل لیفٹ کے خطرات کا سامنا ہے اور لبرل دانشور کسی روحانی حوالے کی عدم موجودگی کے سبب عوام کے سامنے اپنا کیس پیش کرپانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

اس بحث سے لبرل ازم اور اسلام کی اصولی و جوہری مطابقت تو واضح ہوجاتی ہے، مگر عملی سطح پر موجود مثالیں ہمیں ان دونوں میں تصادم کا نقشہ پیش کرتی کیوں نظر آتی ہیں ؟ وجہ شاید ہماری ہستی کا محدود ہوجانا اور سوچ کا جنس، شراب اور لباس کی لمبائی اور چوڑائی جیسے تنگ موضوعات میں پھنس کر رہ جانا ہے۔ نہ تو ہم لوگوں پر آزادی کا آفاقی مفہوم واضح ہے اور نہ ہی اسلامی قوانین کی روح اور حکمت ہی ہم جان پائے ہیں۔ آزادی کا مطلب فقط سرکشی نہیں۔ ۔ ۔ آزادی تب ہی قابل قدر ہوتی ہے جب ایک فکری بنیاد یا روحانی حوالے کے ساتھ آتی ہے اور اس صورت میں آزادی ہمیشہ حقوق اور ذمہ داریاں ہمراہ لاتی ہے۔ ہر فکری بنیاد یا روحانی حوالہ ان ذمہ داریوں اور حقوق کا تعین اپنی نیچر کے اعتبار سے کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اسلام آزادیوں اور ان سے وابستہ ذمہ داریوں کی فراہمی کی بالکل وہی میتھڈولوجی اپنائے جو دیگر معاشرے یا تہذیبیں اپناتی ہیں۔ مگر تہذیبوں میں یہ تنوع آزادی کے اصول کی آفاقیت کو کم نہیں کردیتا اور نہ ہی آزادی اور آزادی پسندی کو کسی ایک تہذیب کی جاگیر بنا دیتا ہے۔
اسلام ایک معروضی فریم ورک رکھتا ہے جو اس کی اتھارٹیز (قرآن و حدیث نیز فقہی، کلامی اور صوفیانہ روایات) سے ماخوذ ہے۔ اس کے برعکس سیکولرازم کا نہ تو ایسا کوئی معروضی فریم ورک ہے نہ ہی کوئی صحیفہ یا ٹھوس روایت۔ یہ ایک بالکل کھلی ڈلی اصطلاح ہے جس کا معنی فقط مذہب سے الگ یا ماورا ہونا ہے۔ مذہب سے یہ علیحدگی کسی سطح پر اور کس حد تک ہوگی، سیکولرازم بذات خود اس بات کا تعین نہیں کرتی بلکہ یہ فیصلہ مقامی حالات اور کسی مخصوص زمان و مکان میں رائج معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظریات پر چھوڑ دیتی ہے۔ لہذا جب کہیں لبرل ازم اور سیکولرازم کا میل ہوتا ہے تو مذہبی آزادی میسر آجاتی ہے۔ لیکن اگر سیکولر ازم مارکسزم کے ساتھ مل جائے یا نیشلزم اور سیکولرازم کا میل ہوجائے تو مذہبی، معاشی اور سیاسی آزادیوں پر بد ترین قدغنیں لگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ سوویت روس اور موجودہ چین بائیں بازو کی سیکولرازم کا نمونہ ہیں تو ریپبلکن فرانس اور کمال اتاترک کا ترکی قوم پرستانہ سیکولرازم کے نتیجے میں مذہبی آزادیوں کے شدید خطرات میں پڑجانے کی مثالیں ہیں۔ گویا سیکولرازم دائیں یا بائیں لڑھک جائے تو لبرل ازم اور مذہبی آزادی فقط ایک خواب بن کو رہ جاتی ہے۔ سیکولر نظام کے لبرل ہونے کے لیے اس کا مارکس ازم اور نیشنلزم سے بچے رہنا ضروری ہوتا ہے۔

یہی وہ چیلنج ہے جس سے جدید مغربی معاشرہ نہیں نمٹ پارہا او ہر جگہہ لبرل جمہوریت کو مذہب سے نہیں، بلکہ خود مادہ پرستانہ یا سیکولر اصل رکھنے والے نظریات اور قوتوں سے خطرات کا سامنا ہے۔ معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر جاکر شناخت کا سوال اٹھنا لازمی ہے۔ جب کوئی روحانی حوالہ اس سوال کا انسانی جواب دینے کے لیے موجود نہ ہو تو قوم اور کلاس ہی اس کا جواب بن کر رہ جاتے ہیں اور قوم اور کلاس کے نام پر جب سماجی اور سیاسی کشمکش جنم لیتی ہے تو اس میں سب سے پہلے شخصی آزادی پستی ہے۔ لہذا اگرچہ فکری سطح لبرل ازم اور سیکولر ازم کا ملاپ ممکن ہے، مگر عملی طور پر ایک سیکولر لبرل نظام زیادہ دیر کام نہیں کرپاتا۔ سیاسی سطح پر تو ایک ایسے معاشرے میں ایسا ہونے کا بالکل بھی کوئی امکان نہیں جس کا معاشرہ سیکولرائزیشن کے عمل سے نہیں گزرا بلکہ اب بھی گہری مذہبی جڑیں رکھتا ہے۔ جمہوریت لبرل ازم کی پہلی شرط ہے اور جمہوریت میں سیاست و ریاست معاشرے کا عکس ہوتی ہیں۔ ایک مذہبی معاشرے کا عکس سیکولر ریاست یا سیاست کیسے ہوسکتی ہیں؟

ہمارے پاس صرف ایک ہی حقیقی آپشن موجود ہے اور وہ ہے سیکولرازم سے بچنا اور لبرل ازم کو اپنانا۔ اس لبرل ازم کو اپنانا جس کا ایک مضبوط روحانی حوالہ ہمارے اپنے دین سے فراہم کیا گیا ہو اور جس کی فکری بنیاد ہماری اپنی روایت میں گہری ہو۔​
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

Back
Top