Liberalism Kya Hai ? Liberalism ke Bunyadi Asool by Mriza Muhammad Alyas

لبرل ازم


’لبرل ازم‘ کیاہے؟ یہ بہت آسان سوال ہے۔ ابتدا ہی میں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ ’لبرل ازم‘، سیکولرازم نہیں ہے۔ سیکولرازم منزل ہے،جب کہ ’لبرل ازم‘ راستہ ہے۔
’لبرل ازم‘ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ مذہب، اعتقاد یا ایمان سے مختلف ہے۔ اس نظریے یا فلسفے کی بنیاد دو اصولوں پر رکھی گئی ہے: پہلا اصول آزادی ہے اور دوسرا اصول مساوات۔ جس کام، کردار، عمل، رویے، فکر یا عقیدے میں یہ دو اصول موجود نہیں، یا ایک ہے اور دوسرا نہیں، اسے ’لبرل ازم‘ نہیں کہا جاسکتا۔ ان اصولوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا فرق ہے جو انسانی زندگی پر مرتب ہوتا ہے، اسے ذیل میں آسان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
ہم پہلے ’آزادی‘ کے اصول کو لیتے ہیں۔ ’آزادی‘ سے سادہ الفاظ میں مراد یہ ہے کہ انسان ایک فرد کی حیثیت سے ہر طرح سے آزاد ہے۔ اس پر کسی قدغن، پابندی، ضابطے ، اخلاق، قید یا سزا کے اطلاق سے اسے انسانی فطرت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کوئی مذہب، الہامی، روحانی ہدایت یا فلسفہ اسے اس کی آزادیوں سے محروم نہیں کر سکتا۔ انسان کی حیثیت برتر ہے۔ کسی کی حاکمیت، خواہ وہ اللہ، خداوند ، رام، دیوتا ہی کیوں نہ ہو، وہ حاکمیت اعلیٰ نہیں۔ اس لیے معاشروں میں انسان کے سوا کسی کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔ اسی اصول کی رو سے ریاست اور حکومت کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست سیکولر ہوتی ہے اور حکومت اپنے کام، کردار اور پالیسی میں سیکولر ہوتی ہے۔
آزادی کی حدود لامحدود ہیں، تاہم کچھ ناموں یا اصطلاحات سے اس کوبیان کیا جاتا ہے:
* آزادی سے مراد آزادیِ اظہار، صحافت، مذہب، خیال وغیرہ ہیں۔ شہری آزادیاں، انسانی حقوق، قانونی حقوق، سب اس میں شامل ہیں۔ کوئی لبرل حکومت یا ریاست ان کو کسی صورت میں سلب نہیں کر سکتی، ان کو محدود نہیں کر سکتی۔
* سیکولر ریاست اور جمہوریت میں ووٹ کا حق، نمایندگی لینے اور دینے کا حق فرد کو حاصل ہے۔ ایک فرد ایک ووٹ سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔
* آزاد مارکیٹ، سرمایہ داری، آزاد تجارت، اجارہ داری سے تحفظ اور بین الاقوامی تعاون ہرریاست، حکومت اور ملک کی صواب دید ہے۔ سرمایہ داری اور معاشی اصلاحات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
اب آئیے مساوات کے اصول کی بات کرتے ہیں۔ جس قدر آزادی کا اصول ہمہ گیر سمجھا جاتا ہے مساوات کا اصول بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تاہم اس کی اطلاقی حیثیت اور عملی کیفیت ابھی تک وہ نہیں ہے جو آزادی کے اصول کو حاصل ہو چکی یا دی جا چکی ہے۔ اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے:
* شخصی مساوات جس میں صنف، ذات، رنگ، نسل، علاقہ، زبان، مذہب، عقیدہ یا خیال کی وجہ سے کسی مرد یا عورت کو دوسروں سے کم تر یا برتر قرار دیا یا سمجھا نہیں جاسکتا۔
* صنفی آزادی ہمہ گیر ہے اور صنفی مساوات بھی ہمہ گیر ۔ کسی مرد یا عورت کو اس کی صنف کی بنیاد پر حقوق، مراعات، کردار، کام، مواقع اور امکانات سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
* طلاق، نکاح، ازدواجی تعلق کی بناپر مرد اور عورت کو اکٹھے رہنے، الگ ہو جانے، جنسی تعلق قائم کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ اسقاطِ حمل، ہم جنس شادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا۔
آزادی اور مساوات کے ان دو اصولوں کو تسلیم کرنا ’لبرل ازم‘ کا اولین تقاضا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دو اصول مختلف اور متنوع اطلاق رکھتے ہیں۔ ان کا اظہار اور استعمال فرد، گروہ ، معاشرت، قوم اور ملک میں مختلف ہے۔ ان کی تشریحات مذہب، عقیدے، نظریے کی رُو سے یکساں نہیں ہیں۔ مغربی معاشروں میں آزادیِ اظہار مذہبی شخصیات کے بارے میں جو کچھ نتائج پیدا کرتی ہے، مسلم معاشروں میں اس سے مزاحمت، نفرت، جارحیت، بے بسی اور مایوسی کے رویے اور
جذبات پیداہوتے ہیں۔ ان کیفیات میں ’لبرل ازم‘ ان دونوں اصولوں کو ہی مقدم رکھتا ہے۔​
 

Back
Top