Lockdown Aik Aur Bemari By Andleeb Abbas

لاک ڈاؤن: ایک اور بیماری ۔۔۔۔۔ عندلیب عباس

لاک ڈائون یا موت؟ لاک ڈائون کریں یا معیشت بچائیں؟ لاک ڈائون کریں گے‘ تو ملازمتیں کیسے دیں گے ؟دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ماہرین سے لے کر عام افراد تک انہی موضوعات پر بحث کررہے تھے ۔ اکثریت کی رائے یہی تھی کہ صحت کے دشمن وائرس کو شکست دینے کے لیے لاک ڈائون ضروری ہے ۔ چین وہ پہلا ملک تھا‘ جس نے لاک ڈائون کی حکمت ِعملی اپنائی؛جیسے جیسے وباپھیلتی گئی ‘ لاک ڈائون کا دائرہ بھی پھیلتا چلا گیا ۔ دنیا بند ہوکر رہ گئی اور بڑی بڑی معیشتیں زمیں بوس ہوگئیں۔جب لاک ڈائون کے کاروبار اور ملازمتوں پر اثرات کا جائزہ لیا جانے لگاتو اس بحث میں ایک نیا موڑ آگیا۔ لاک ڈائون کی وکالت کرنے والے نرم دل اور سماج دوست بن گئے‘ جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے غیرجذباتی سرمایہ دار کہلائے ۔ لاک ڈائون سے ہونے غربت اور بھوک او ر اس کے نتیجے میں موت کی بات کرنے کو مادیت پرستی اور سرمایہ دارانہ سوچ قرار دیا گیا‘ نیزکہا گیا کہ صحت پر معیشت کو ترجیح دی جارہی ہے ۔
جیسے جیسے '' گھر بیٹھیں اور محفوظ رہیں‘‘ کی سوچ کمزور پڑنے لگی ‘ ایک سوچ ابھرنا شروع ہوگئی ۔ انسانی جان بچانے کے لیے لاک ڈائون پر دوٹوک اور سخت مؤقف پر نظر ِثانی کی جانے لگی۔ لاک ڈائون کی پالیسی کی ادا کی جانے والی صحیح‘ لیکن پوشیدہ قیمت سامنے آنے لگی ۔ لیے گئے بہت سے جائزے بتارہے ہیں کہ لاک ڈائون سے کورونا سے جان بچ گئی ‘لیکن اس کی وجہ سے برس ہا برس سے دیگر بیماریوں میں مبتلا لاکھوں افراد کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ آنے والے برسوں میں اس حقیقت کے آشکار ہونے سے مزید نتائج سامنے آئیں گے ۔ بہت دیر تک سوال پوچھا جائے گا کہ اس دوران مرنے والوں کی تعداد کتنی تھی ؟ دنیا کا ہر شخص کیوں کہتا تھا کہ ''گھر پر رہیں‘ محفوظ رہیں‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ خطرے کو کم کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں تھا؟ انسان سے دوسرے انسان کا رابطہ کم کرنے سے کورونا کا خطرہ کم کیا جاسکتا تھا ‘ لیکن ان دیگر بیماریوں کا علاج ناممکن ہوگیا ‘جس کے لیے انسانوں کو دوسرے انسانوں سے رابطے میں رہنے کی ضرورت تھی ۔ اب‘ یہ تومستقبل میں ہی پتا چلے گا کہ اس پالیسی کے نتیجے میں کتنے لاکھ افراد کی جان گئی ؟ کتنے معذور ہوئے یا اس کے نتیجے میں کتنے نئے اور مزید خطرناک وائرس پیدا ہوئے؟؟
سٹین فورڈ یونیورسٹی میں سٹرکچرل بیالوجی پڑھانے والے اور 2013 ء میں کیمسٹری کانوبل انعام جتنے والے پروفیسر مائیکل لیووٹ کا کہنا ہے ''مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ لاک ڈائون کے نتیجے میں ہونے والا نقصان جان بچانے سے کہیں مہیب تھا۔ ‘‘ایک نوبل انعام یافتہ شخص کی بات انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ لاک ڈائون پر یک طرفہ سوچ رکھنے والے ماہرین کو اس کے خوفناک نتائج پر بھی نظر ڈالنی ہوگی ۔ دیکھنا ہوگا کہ اس کی وجہ سے دیگر بیماریوں میں مبتلا کتنے افراد طبی سہولیات بند ہوجانے سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد دنیا میں کورونا سے مرنے والوں سے کہیں زیادہے ۔ معاشی انحطاط کی وجہ سے کروڑوں افراد کے بے روزگار اور غربت کا شکارہونے کا مسئلہ اس سے الگ ہے ۔ نہ ہی اس میں مسلسل لاک ڈائون کی وجہ سے پیدا ہونے والی تنہائی اور سماجی دوری سے پہنچنے والے نفسیاتی صدموں کی بات کی گئی ہے ۔ ابھی طبی اور سماجی مسائل کا ذکر باقی ہے ۔ جب زیادہ تر ممالک لاک ڈائون نرم کرنے کی کوشش میں ہیں تو اُنہیں تخمینہ لگاتے ہوئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے‘ تاکہ اس دوران دیگر امراض میں مبتلا افراد کو سہولت پہنچاتے ہوئے جانیں بچائی جاسکیں:۔
1۔ صحت کی سہولت ساقط ہونے کا جائزہ: کم وبیش تمام ممالک میں کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر امراض کا علاج متاثر ہوا ہے ۔ اس وبا نے نا صرف طبی ماہرین‘ بلکہ دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کو بھی متاثر کیا ۔ کورونا کے حوالے سے تنبیہ جاری کی گی تھی کہ ''صحت کے مسائل سے دوچار افراد کورونا کا آسان شکار ثابت ہوسکتے ہیں۔‘‘اس آگہی نے مریضوں کو خوف میں مبتلا کردیا اور انہوں نے عام علاج معالجے کے لیے بھی ہسپتالوں میں جانا چھوڑ دیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے خود کومزید خطرے میں ڈال لیا۔ امریکن کالج برائے کارڈیالوجی کے ایک رسالے کے مطابق ؛قلب کے مہلک حملے STEMI کا علاج کرانے والوں کی تعداد میں 38 فیصد کمی آئی ہے ۔
2۔ علاج سے محروم رہ جانے والے: بہت سی بیماریوں کے لیے رضاکارانہ امدادی سہولت درکارہوتی ہے۔ ان کا اہتمام تنظیمیں ‘ فلاحی ادارے اور این جی اوز کرتی ہیں۔ ان اداروں کو رقم‘ خون اور اعضا کی صورت عطیات ملتے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے یہ تمام نظام متاثر ہوا ہے ۔ پاکستان میں تھیلی سیمیا کے مریضوں کی مثال لے لیں۔ ہمارے ملک میں اس کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہیں۔ انہیں ہر ماہ تین سے چار پنٹ تازہ خون کی ضرورت رہتی ہے ۔ اس کے لیے عام طور پر طلبا و طالبات عطیات دیتے ہیں ‘لیکن تعلیمی ادارے بند ہونے سے این جی اوز کیمپ لگا کر خون کے عطیات جمع نہیں کرپارہی ہیں۔ تھیلی سیمیا کے مریضوں کو خون کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ تازہ خون کے بغیر اُن کا بچنا مشکل ہے ۔
3۔ فنڈز کی قلت : بہت سی بیماریوں کے علاج اور سماجی خدمات کے لیے کاروباری اداروں اور افراد سے عطیات جمع کیے جاتے ہیں۔ ایسی تنظیمیں جیسا کہ شوکت خانم کینسر اور دیگر انسٹی ٹیوٹ گردوں کے علاج کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ جب بھی ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ عطیات اور فلاحی سرگرمیوں کا رخ اُس فوری خطر ے کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ پاکستان میں 2005 ء کے زلزلے کے وقت یہی کچھ ہوا تھا ۔ اُس وقت بہت سی تنظیموں کو عطیات کے لیے عالمی ڈونرز کی طرف رجوع کرنا پڑا تھا۔ کووڈ19 ایک عالمی وبا ہے ‘جس نے دنیا کے ہر شہری اور تنظیم کو متاثر کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر عطیات کی قلت صحت کے بے شمار سانحات کا باعث بن سکتی ہے ۔ ان کا حجم عالمگیر موذی وباکورونا وائرس کے نقصان سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔
اس عالمی وبا کا چیلنج بہت پیچیدہ ہے ‘ اسے محدود کرنے کی کوشش بہت سے مہلک امراض کے پھیلائو کا سبب بن سکتی ہے ۔ پوری دنیا کی طبی کاوش کی توجہ کا ارتکاز کوروناپر ہونے کی وجہ سے کووڈ19سے کہیں زیادہ مہیب خطرات سر اٹھا سکتے ہیں۔ دنیا کے ممالک اور رہنمائوں کو ان تمام مضمرات کا جائزہ لینا ہونا ہوگا۔ پہلا یہ کہ کاروباربند کردینے کی معاشی قیمت کتنی ہے ؟دوسرا یہ کہ کورونا وائرس کی کسی ویکسین کے بننے تک اس سے لڑنے کی کیا قیمت چکانی پڑے گی؟تیسرا یہ کہ اس دوران صحت کے دیگر مسائل پر کتنی لاگت آئی ؟ آخری یہ کہ لاک ڈائون اور بے روزگار ی کی وجہ سے نفسیاتی صدمے نے پیداوار کو کتنا متاثر کیا ؟
ذہن نشین رہے کہ صحیح حل تلاش کرنے کے لیے منصوبہ سازی کرنے والے ماہرین کو ان عوامل پر غور کرنا گا۔ لاک ڈائون کو نرم کرنا پہلا مرحلہ ہے ۔ اس سے جڑے ہوئے دیگر مسائل اور حقیقی خطرات کو مد ِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے ‘جو کورونا وبا کے بعد سر اٹھائیں گے ۔ ان چار کثیر پہلو امکانات پر غور کرنے ‘ ان کا جائزہ لینے اور ان کے مطابق منصوبہ بند ی کرنے والے ممالک ہی نئے عالمی نظام کی قیادت کریں گے‘ نیز اس عالمی افراتفری سے ایک نیا نظام ضرور جنم لے گا۔
Columnist : Andleeb Abbas
 
Columnist
Tayyaba Zia Cheema
Column date
Jun 1, 2020
@intelligent086,
دو کالم نگار 🤔 ایک قبر دو مردے
تھیلسیمیا کا مسئلہ بہت حساس ہے
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@intelligent086,
دو کالم نگار 🤔 ایک قبر دو مردے
تھیلسیمیا کا مسئلہ بہت حساس ہے
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
ایک کا نام شامل نہیں ہوا طیبہ ضیاءچیمہ پر کلک ہو گیا وہ بھی ساتھ ہی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
ایک کا نام شامل نہیں ہوا طیبہ ضیاءچیمہ پر کلک ہو گیا وہ بھی ساتھ ہی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top