Quran Hadith Roza Mah e Shawwal Ki Fazeelat By Imam Novi

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ماہِ شوال کی فضیلت ۔۔۔۔۔ تحریر : امام النووی

shawal.jpg

ماہ شوال عربی سال کا دسواں مہینہ ہے ، ہم اہل اسلام کے نزدیک اس کی حیثیت بڑی نمایاں ہے ، اس کی پہلی تاریخ کو نماز دوگانہ ادا کی جاتی ہے ، بہتر سے بہتر بدلے کی اللہ رب العالمین سے توقع ہوتی ہے ،

تشکر و امتنان سے نگاہیں جھکی ہوتی ہیں ، بس ایک عجیب سماں ہوتا ہے،جس سے روح تازہ ہوتی ہے۔
رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزوں کا اہتمام سال بھر کے روزوں کے ثواب کو آسان کر دیتا ہے۔
غور کرنے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے متعینہ روزوں میں سے روزہ اجر و ثواب کے اعتبار سے رمضان کے روزوں کی برابری رکھتا ہے ، اس ابہام کی تھوڑی سی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ رمضان کا ہر روزہ دوسرے دس روزوں کے برابر ہے اس طرح تیس روزے تین سو دنوں یعنی پورے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے اور پھر شوال کے چھ روزوں کو ملا لیا جائے تو پورے تین سو ساٹھ دنوں (ایک سال) کے روزوں کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ (ذالک فضل اللہ )
حدیث ثوبان کا مفہوم بھی کچھ اسی طرح ہے ’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک مہینہ کا روزہ دس مہینوں کے برابر ہوا، اور پھر عید الفطر کے بعد کے چھ روزے ملا کر سا ل بھر کے روزوں کے برابر ہوئے‘‘۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی روایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے: (صحیح مسلم: ح: ۱۱۶۴)
شوال کے روزوں کے بارے میں معتدل بات یہ ہے کہ اس مہینہ میں کبھی بھی رکھ لیا جائے ، آغاز ماہ اور ترتیب کو ضروری قرار دینا علمی تجزیہ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔
بعض لوگ یکم شوال کے بعد لگاتار چھ روزے رکھ کر آٹھویں تاریخ کو عید کا دن سمجھ بیٹھتے ہیں پھر اس پورے دن خوب اچھل کود مچاکر لوگوں میں اسے چھوٹی عید کے نام سے متعارف کرواتے ہیں ، یہ ایک غیر شرعی عمل ہے ، جس سے بچنے کی ازحد ضرورت ہے۔ کیونکہ شوال کے چھ روزوں کا رکھنا واقعی ثابت شدہ امر ہے پر اس سے فراغت کے بعد عید کے نام پر خوشیاں منانا ،غیرشرعی مسرتوں کا زبردستی ماحول قائم کرنا شریعت میں زیادتی ہے۔
نبی ؐ کے ایک عظیم ساتھی حضرت اسامہ بن زید حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے نبی ؐ نے شوال کے روزوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: شوال کے روزے رکھو چنانچہ انہوںنے تاحیات شوال کے روزوں کا اہتمام کیا۔امام بوصیری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کے رجال کو ثقات میں شمار کر کے اس کی سند میں محمد بن ابراہیم اور اسامہ بن زید کے درمیان موجود انقطاع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مگر یہی حدیث مسند ابی یعلیٰ موصلی میں محمد بن اسحاق عن ابی محمد بن اسامہ عن جدہ اسامہ کے طریق سے موصولاً موجود ہے۔ اس طرح حدیث متصل و مقبول ہوئی۔
شوال کی اس لحاظ سے بھی بڑی حیثیت ہے کہ یہ اشہر حج میں سے ہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ۔ ۔۔(صحیح بخاری تعلیقاً: کتاب الحج)
حج کے وہ مہینے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیاہے وہ شوال ، ذوالقعدہ و ذوالحجہ ہیں۔
شوال کے چھے روزے اور ان کے متعدد فوائد:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اسکے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مانند ہے۔
(صحیح مسلم :1164 الصوم،سنن ابوداود :2433الصوم، سنن الترمذی:759 الصوم)
رسول اللہؐ نے فرمایا:
جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اسکے بعد شوال میں چھ
۔(6) روزے رکھے تو اس نے گویا زمانہ بھر (ہمیشہ یا سال بھر) روزے رکھے۔
صحیح مسلم2758 کتاب الصوم
تشریح : مسلمانوں کو انکے نیک اعمال پر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کم از کم دس گنا اجر عطا فرماتا ہے ، ’’جو شخص نیک کام کرے گا اسکو اسکے دس گناملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اسکو اسکے برابر ہی سزاملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا‘‘۔
اسی قاعدے کے مطابق ایک مہینے رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اسکے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے جائیں تو یہ دو مہینوں کے برابر ہو گئے ، یوں گویا رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے والا پورے سال روزہ رکھنے کے اجر کا مستحق ٹھہرا ، دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول رہا تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی فرض روزے کے ساتھ گزاری ،اس اعتبار سے یہ چھ روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ،گو ان کی حیثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’رمضان المبارک کے روزے دس ماہ اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے‘‘
صحیح ابن خزیمہ :2115،النسائی الکبری:2873، (صحیح)
یہ چھ روزے متواتر رکھ لئے جائیں یا ناغہ کرکے دونوں طرح جائز ہیں تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں ،اسی طرح جن کے فرض روزے بیماری یاسفر وغیرہ یا کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں انکے لئے اہم یہ ہے کہ پہلے وہ فرض روزوں کی قضا کریں۔
اس بارے میں بعض علما کی رائے یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا پہلے دی جائے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے جائیں۔ لیکن اس بارے میں رائج موقف یہی ہے کہ بہتر تو یہی ہے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ یہ فرض ہیں، البتہ دلائل کی بنیاد پر یہ گنجائش موجود ہے کہ رمضان کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھے جاسکتے ہیں۔ رمضان کے روزوں کی قضاء فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کی جا سکتی ہے۔ نبی اکرم ﷺکے زمانے میں عورتیں حتیٰ کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء عموماََ گیارہ ماہ بعد ماہِ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے۔
شوال کے چھ روزے رکھنے کے متعدد فوائدعلماء نے ذکر کیا ہے، جیسے :
۔(1) رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پورے سال فرض روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے،
۔(2) رمضان سے قبل وبعد شعبان و شوال کے روزے فرض نماز سے قبل وبعد والی موکدہ سنتوں کے مشابہ ہیں جن کا فائدہ یہ ہے کہ فرض عبادتوں میں جو کمی واقع ہوئی ہے قیامت کے دن سنتوں سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا جیسا کہ بہت سی حدیثوں میں اسکا ذکر وارد ہے ۔دیکھئے سنن الترمذی413)
اور یہ بھی امر واقع ہے کہ ہم میں سے ہر شخص سے روزے کے حقوق میں کوتاہی ہوتی ہے ، کوئی اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرپاتا کسی کو زبان پر قابو نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ۔
۔(3) رمضان کے روزے رکھ لینے کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کرنا رمضان کے روزوں کی قبولیت کی ایک اہم علامت ہے ،کیونکہ جب اللہ تعالیٰ بندے کی کسی نیکی کو قبول فرماتا ہے تو اسے مزید نیکی کی تو فیق بخشتا ہے جس طرح اگر کوئی شخص کسی کے یہاں مہمان ہو پھر اگر رخصتی کے وقت میزبان دوبارہ آنے کی
دعوت دے اور اس پر اصرار کرے تو یہ اسکا مطلب ہے کہ مہمان کی آمد پر اسے خوشی اور اسکی آمد قبول ہے، اسی طرح اگر ایک نیکی کے بعد بندے کو اسی قسم کی یا کسی اور قسم کی نیکی کی توفیق مل جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسکی یہ نیکی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی ہے جسطرح کہ اگر کوئی شخص نیک عمل کرنے کے بعد پھر گناہ کے کام کرنے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسکا یہ نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مردود ہے
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بے حیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے‘‘۔
۔(4) رمضان المبارک سے متعلق یہ ارشاد نبوی ہے کہ :’’ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے‘‘صحیح مسلم (نیز ’’جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھ لیا اسکے تمام سابقہ گناہ معاف کردئے گئے )‘‘صحیح بخاری ومسلم ( اور روزے دار عید کے دن بے حساب اجر سے نوازے جاتے ہیں )انشاء اللہ تعالیٰ( لہٰذا یہ عظیم الٰہی نعمت اس بات کی حقدار ہے کہ اس پر باری تعالیٰ کا شکر اداکیا جائے جس طرح کہ نبی ﷺ کے دونوں قدم جب طول قیام کی وجہ سے سوج جاتے تو عائشہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا :آپؐ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟ آپ ﷺکا جواب تھا :کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟)صحیح بخاری ومسلم (معلوم ہوا کہ گناہوں کی معافی بندے سے شکریہ کا مطالبہ کرتی ہے ، اسی طرح رمضان المبارک کے روزوں کے بعد جنکی وجہ سے بندے کے گناہ معاف ہوئے ہیں شوال کے روزے رکھنا اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ اداکرنا ہے اسکے برخلاف رمضان کا مہینہ گزرتے ہی دوبارہ گناہوں کی طرف پلٹ آنا ان بدبخت لوگوں میں شامل ہونا ہے جن سے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جس میں یہ سب جائیں گے جو بدترین
ٹھکانہ ہے‘‘۔
۔(5)رمضان المبارک کے بعد شوال اور اسکے بعد کے مہینوں میں نیک عمل خاص کر وہ نیک اعمال جن کا رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے جیسے: روزہ ،قیام اللیل ،تلاوت قرآن ، اور صدقہ وغیرہ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بندہ جب تک زندہ ہے اسکے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
’’اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں ،یہاں تک آپ کو موت آجائے ،اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل یہ ہے کہ اس پر مداومت کی جائے‘‘ چنانچہ نبی ﷺسے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے ؟آپ ؐنے فرمایا :جو عمل برابر کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو(صحیح بخاری ومسلم )
لہٰذا رمضان کے بعد شوال کے روزوں کا اہتمام کا معنی یہ ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد بھی بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہے ، کسی عالم نے کیا خوب کہا کہ ’’وہ لوگ بہت ہی برے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حق کو صرف رمضان میں پہچانتے ہیں حلانکہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے پورے سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں‘‘ (لطائف المعارف)
شوال کے 6 روزوں کی فضیلت
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔
فوائد : (ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ہے) کے مطابق ایک مہینے (رمضان) کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں, اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیے جائیں جنہیں شش عید روزے کہا جاتا ہے تو یہ دو مہینے کے برابر ہوگئے یوں گویا پورے سال کے روزوں کا مستحق ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری وہ اللہ کے ہاں ہمیشہ روزہ رکھنے والا شمار ہوگا۔ اس اعتبار سے یہ شش عید روزے بڑی اہمیت رکھتے ہیں گو ان کی حیثیت نفلی روزوں ہی کی ہے۔ یہ روزے متواتر رکھ لیے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں طرح جائز ہیں ، تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں۔ اسی طرح جن کے رمضان کے فرضی روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں ، ان کیلئے ضروری ہے کہ پہلے وہ فرضی روزوں کی قضا دیں اور اس کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھیں۔
(ریاض الصالحین : جلد دوم ، مطبوع دارالسلام ریاض )

 

Back
Top