Marathon War

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
جنگ ِ میراتھن ۔۔۔۔ اخلاق احمد

Mira.jpg


داریوش اعظم کے عہد میں بحیرہ ایجہ کے کنارے واقع یونانی نو آباد ریاست خصوصاً ایونیہ نے سلطنت فارس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ یہ ریاستیں پہلے سے سلطنت فارس کی باجگزار تھیں۔ داریوش اعظم نے ان باغی ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جس میں یونانی نوآبادیوں کی نااتفاقی کی وجہ سے پانسہ فارس کے موافق رہا۔ ایشیائے کوچک کی یونانی ریاستوں کی تسخیر کے بعد داریوش اعظم نے سرزمین یونان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اورتھریس اور مقدونیہ کے خلاف اپنے داماد مردونیا کی قیادت میں ایک بحری بیڑا روانہ کیا۔ جب یہ بحری بیڑا کوہ آتھوس کا چکر لگا رہا تھا تو اسے ایک طوفان نے آ گھیرا جس میں اس کے 300 جہاز غرقاب ہو گئے اور بے شمار جانی نقصان ہوا۔

۔490 قبل مسیح میں داریوش اعظم نے 600 بحری جہازوں کا ایک اور بیڑا جس پر 60 ہزار پیادہ اور بہت بڑی فوج سوار تھی، اقلیم یونان خصوصاً ایتھنز اور ایریٹریا پر حملے کی غرض سے بھیجا۔ اس مرتبہ کوہ آتھوس والے راستے کی بجائے فارس کے لشکر نے ایک نیا راستہ اختیار کیا اور آبنائے کو عبور کر کے ریاست انیکا (ایتھنز) میں داخل ہوئے۔ ہسیپیاس کے کہنے پر وہ میراتھن کے مقام پر لنگر انداز ہوئے۔

میراتھن یونان کے پہاڑی علاقے میں ایک چھوٹا سا میدان ہے جو صرف 5 میل لمبا اور 2 میل چوڑا ہے۔ اس کے ایک طرف سمندر ہے اور باقی 3 اطراف میں پہاڑ، یہاں سے ایتھنز صرف 24 میل دور ہے۔ جب اہل ایتھنز نے سنا کہ فارس کی ایک بڑی فوج میراتھن میں لنگر انداز ہوئی ہے تو انہوں نے اس فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے 10 سپہ سالاروں کی قیادت میں ایک فوج روانہ کی جو مخالف لشکر سے تعداد میں کم تھی۔ ساتھ ہی اہل ایتھنز نے سپارٹا اور دیگر یونانی ریاستوں سے امداد طلب کی تاکہ اہل یونان کے مشترکہ دشمن سے مقابلہ کیا جا سکے۔ سپارٹا نے اگرچہ مدد بھیجنے کا وعدہ کیا مگر ساتھ ہی معذوری بھی ظاہر کی کہ وہ چودھویں رات کے چاند سے پیشتر کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے لیکن ایک ایسی سمت سے کمک وقت پر پہنچ گئی جہاں سے قطعی امید نہیں تھی۔ یہ کمک ایک چھوٹی ریاست پلاٹیا نے بھیجی تھی۔ بہرحال جو یونانی فوج مقابلے کے لیے آئی مجموعی طور پر اس کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ فارس والے میراتھن کے میدان میں خیمہ زن تھے جبکہ یونانی مختلف پہاڑیوں میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے۔ اہل فارس کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یونانی سپہ سالاروں میں اختلاف رائے ہو گیا۔ 5 سپہ سالار حملے کرنے کے حامی جبکہ 5 مخالف تھے۔ سپہ سالار ملتیاڈیز کی رائے میں ایسا حملہ ناگزیر تھا۔ اس نے اپنی رائے کا اظہار سپہ سالار اعلیٰ پولیمارخ کے سامنے کیا کہ اہل ایتھنز کی فلاح اس میں ہے جنگ میں پہل کی جائے۔

بہرحال یونانیوں نے اپنا لشکر ترتیب دے کر حملے میں پہل کی۔ فارسی اسے یونانیوں کا خلل دماغ سمجھے کہ جس لشکر کے پاس نہ سوار ہوں، نہ تیر انداز ہوں اور وہ اپنی قلیل تعداد کے باوجود حملے میں پہل کرے۔ ادھر اس قلیل تعداد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فارس کے سپہ سالار نے جب یہ دیکھا کہ اس کی سوار فوج کا اس پہاڑی راستے سے ایتھنز پہنچنا دشوار ہو گا تو وہ 20 ہزار سپاہ کو میراتھن میں چھوڑ کر باقی کو جہاز پر سوار کر کے ایک اور بندرگاہ کی طرف روانہ ہو گیا جو ایتھنز کے بالکل قریب تھی۔ اس طرح فارسیوں کی تعداد ایک حد تک کم ہو گئی۔ ملتیاڈیز نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے یونانی فوج کے دائیں اور بائیں بازو کو خوب مضبوط رکھا جبکہ قلب کو خصوصاً نرم رکھ دیا۔ دوران جنگ جب فارسیوں نے قلب پر حملہ کیا تو وہ پیچھے ہٹا اور فارس کی فوج آگے بڑھی۔ اس اثنا میںیونانی فوج کے دونوں بازوؤں نے فارس کی پوری فوج کو نرغے میں لے لیا۔ اس طرح قلب میں یونانیوں اور بازوؤں میں فارسیوں کو شکست ہوئی۔ فتح مند یونانیوں نے دشمن کے بہت سے دستوں کو دلدلی علاقے اور ساحل کی طرف پسپا کر دیا۔ وہ خود گھوم کر قلب میں آ گئے اور فارسیوں کے قلب کو بھی شکست دی۔ 6ہزار 4 سو فارسی میدان جنگ میں کام آئے اور بالآخر انہیں اپنے جہازوں پر پناہ لینی پڑی۔ جنگ میراتھن میں یونانیوں نے بہادری کے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ایڈولف ہولم اپنی ''تاریخ یونان قدیم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یوفوریان کے بیٹے کیونے گیروس نے فارس کی ایک کشتی کو اتنی مضبوطی سے پکڑ لیا کہ جب تک اس کا ہاتھ نہ کاٹ ڈالا گیا اس وقت تک اس نے کشتی کو نہ چھوڑا۔ جن بہادر یونانیوں نے معرکہ میراتھن میں حصہ لیا انہیں ''میراتھونو ماشیس‘‘ (نبرد آزمائے میراتھن) کا معزز خطاب دیا گیا۔

اس جنگ میں ایک چھوٹی سی ریاست کا ایک بڑی سلطنت کے مقابلے میں بڑی کامیابی حاصل کرنا تاریخ عالم کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جنگ میراتھن کے ساتھ اہل یونان کی بہت سی ولولہ انگیز یادیں بھی وابستہ ہیں۔ جنگ میراتھن میں مخالف کی شکست کے بعد ایک یونانی بہادر اہل ایتھنز کو فتح کی خوش خبری دینے لیے دوڑا اور 24 میل کے فاصلے کو بغیر کہیں رکے طے کر کے ایتھنز تک پہنچا۔ کہتے ہیں کہ وہ بے چارہ شہر کے دروازے پر گر پڑا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ اپنے اہل وطن کو وہ یہ پیغام دے گیا کہ ''جشن مناؤ، ہمیں فتح حاصل ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ گئی۔

یونانیوں نے اس بہادر سپاہی کی یاد میں اولمپیائی کھیلوں میں اس کی آخری دوڑ کو شامل کر لیا۔ آج بھی لمبی دوڑ کے مقابلے کو میراتھن دوڑ کہا جاتا ہے اور یہ دوڑ 1896ء میں اولمپیائی کھیلوں کے دوبارہ احیا کے موقع پر ایک یونانی کسان نے جیتی تھی۔

(''تاریخ عالم‘‘ سے اقتباس)​
 

Back
Top