March Aur Aurat k Huqooq

مارچ اور عورت کے حقوق۔۔​

جویریہ چوہدری​

women.png?resize=410%2C273&ssl=1?ver=1.png

عورت معاشرے کی بنیاد اکائی ہے اور ایک کامیاب گھرانے کی بنیاد ہے،یہی وجہ ہے کہ عورت کے حقوق پر اسی قدر زور دیا گیا ہے جتنا باقی تمام مستحقین کے حقوق پر۔
کسی بھی معاشرے میں اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور پھر ایسے معاشرے میں بالخصوص جہاں اسلامی تعلیمات اور قوانین کا اطلاق مکمل طور پر نہ ہو۔
صرف آٹھ مارچ ہی خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ہر ہر دن عورت کے حقوق کو یقینی بنانے اور حسنِ سلوک سے پیش آنے کا ہے۔
عورت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بھی کہیں کہیں خرابیاں موجود ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت کے ساتھ ساتھ عورت کی بہترین تربیت کی بھی ازحد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے دائرہ کار کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتی ہو اور زندگی کے سفر میں اپنا فعال کردار ادا کرنا جانتی ہو۔
اسلام وہ دین فطرت ہے جس نے ہر اس چیز کو تحفظ اور شیلٹر فراہم کیا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور ہر اس چیز کو ختم کر دیا جو انسانی نفسیات کے لیے نقصان دہ اور خلافِ فطرت ہے۔
ہر جنس پر اس کی طاقت کے مطابق بوجھ ڈالا گیا،کسی کی وسعت سے بڑھ کر کسی کے لیے کوئی آزمائش نہیں رکھی گئی۔وہ وقت کہ جب بیٹی کا وجود ایک طعنہ سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ در گور کر دیا جاتا تھا،اسلام نے آ کر اس دفنائی بنتِ حوّا کو حیاتِ نَو بخشی۔۔۔
تہذیب کا پیراہن پہنا کر عورت کے وجود کو کامیاب معاشرے کی بنیاد بنایا۔
کیونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ مرد کی تربیت ایک فرد کی تربیت ہے اور عورت ایک خاندان کی تربیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
کسی بھی خاندانی فلاح کے پیچھے اس کی عورتوں کا وہ چھپا کردار ہوتا ہے جو اکثر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔
وراثت کی حقدار بنا کر،اپنے ذاتی معاملات میں پسند،نا پسند کے اظہار کا جائز حق فراہم کر کے اسلام نے عورت کو چاروں طرف سے حقوق اور حفاظت کے حصار میں لپیٹ دیا ہے۔
نرمی کا مستحق بنایا۔معاشی جھمیلوں سے مستثنیٰ قرار دے کر اسے ذہنی طور پر پُر سکون کر دیا ہے،کہ اس کے لیے مستقل بنیادوں پر معاشی مسائل کا حل نکالنا اس کے باپ،بھائی،شوہر اور بیٹے جیسے رشتوں کے ذمہ لگایا گیا۔
ہاں مسلمان عورت کا کردار تاریخی طور پر معلمہ،طبیبہ،ادیبہ ،شاعرہ،مجاہدہ کی صورت میں ہر دور میں نظر آتا ہے جس سے کوئی ذی شعور انکار کر سکا ،نہ کر سکے گا۔
اسی طرح صنفِ نازک ہونے کی وجہ سے گھریلو امور میں بھی عورت سے نرمی برتنے کے احکامات قرآن و احادیث کی صورت میں ہمارے راہ نما ہیں۔
عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے،تشدد کی ممانعت اور افہام و تفہیم سے مسائل کا حل نکالنا اسلام ہی کا خاصہ نظر آتا ہے۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ ہر دور میں چند لوگ خواتین کی ہمدردی کے نام پر اوٹ پٹانگ مطالبات کے ساتھ معاشرتی کشیدگی کو ہموار یت دیتے نظر آتے ہیں،
سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس معاشرے کی تربیت اس بنیاد پر کریں جہاں عورت کے احترام سے ہر ایک آشنا ہو،
عزت دینے کا فن جانتا ہو۔۔۔
حقوق کی ادائیگی سے آگاہ ہو۔
عمل سے فارغ ہو کر محض الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر کبھی سکون و اطمینان کی سوداگری نہیں کی جا سکتی ہے۔
صرف بیانات،ٹاک شوز میں مباحثے اور عجیب و غریب قسم کے نعروں سے ہم عورت کو اس کا حق کبھی نہیں دلا سکیں گے،بجز عورت کی اپنے گھر سے بغاوت،نفرت اور عدم سکونی و بے توجہی کے۔
ایک تربیت یافتہ عورت گھر سے باہر تک کی ذمہ داریاں ذہنی سکون کے ساتھ نبھا سکتی ہے نہ کہ باغیانہ افکار کی حامل عورت جو محض اپنے فیشن،لباس،یا شُتر بے مہار آزادی کے جنون میں ہی مبتلا ہو اور اپنے حقیقی معاشرتی کردار سے یکسر لا علم۔
ایک مضبوط (push back) رکھنے والی عورت ہی معاشرتی فلاح کا بیڑہ بھی اٹھا سکتی ہے۔
یہ برابری برابری کی رٹ کسی بھی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔اپنی اپنی ذمہ داری سے غفلت لا تعلقی کا پرچار ہے۔
ہمارے دین نے ہمارے حقوق کے اک ایک مواقع پر کامل رہنمائی فراہم کر کے اس زندگی کو آسان بنایا ہے۔
بہت ساری ایسی بھاری ذمہ داریاں جنہیں عورت سوچ بھی نہیں سکتی،انہیں مرد کے مضبوط کندھے ہی اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ آپ کے گھر میں درجنوں مال،مویشی بندھے ہوں،جنہیں باہر چرانے مرد لے جاتا ہے اگر مرد ایک دن کے لیے میسر نہ ہو تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے دیو ہیکل جانور اپنے آگے ہانکتے ہوئے لے جائے اور پھر کھیت میں بدکتے اور بپھرتے جانوروں کو چاروں طرف سے سنبھال سکے؟

گندم کی بوری اٹھائے اور گدھے یا بائیک پر لاد کر پسوانے کے لیے مشین تک لے جائے؟
یا کہیں سفر کرتے ہوئے برابری کی دعویدار بن کر کسی گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر یا بس کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر سفر طے کرے؟
یا سڑکوں کی تعمیر و مرمت میں روڑی کوٹتی اور بھاری مٹیریل اٹھاتی نظر آئے۔؟
یا گھر کی ذمہ داری کُلی طور پر عورت کے سپرد کر دی جائے کہ خود ہی کمائے اور اولاد بھی پالے،گھر بھی سنبھالے،جیسا کہ مغرب و یورپ کی عورت نظر آتی ہے؟
اور پھر جسمانی تشدد سے بھی محفوظ نہیں ہے۔
یقیناً یہ برابری نہیں،بلکہ فطرت سے کھلی جنگ ہے۔۔۔بلکہ برابری وہ ہے جو اسلام نے ایک مسلمان عورت کو دی ہے جہاں وہ تاجرہ بھی نظر آتی ہے،طبیبہ بھی،معلمہ بھی تو ادیبہ بھی،میدانِ جنگ میں محاذ پر معاون و مددگار بھی،معاشرے کی ماں بھی،بہن بھی،بیٹی بھی۔
اسلام کا دیا ہوا خاندانی نظام دنیا میں مضبوط ترین اور پُر امن ترین نظام ہے۔
ہمیں سیکس فری اور سنگل پیرنٹ معاشرہ ہر گز نہیں چاہیے ہے جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہو،حدود پامال ہو جائیں اور باہمی عزت و احترام نام نہاد آزادی کی بھینٹ چڑھ جائے۔کسی بھی معاشرے کے کمزور اور اخلاقی طور پر کھوکھلا ہونے کا نقطۂ آغاز یہی ہوتا ہے۔
ہم حقوق و فرائض سے لبالب بھرے ہوئے مذہب کے پیروکار ہیں جہاں حق تلفی نہیں،تشنہ لبی نہیں۔مسائل ہیں تو ان کا حل موجود ہے۔مشکلات ہیں تو آسانی کی راہیں موجود ہیں،ہر ایک کو اظہار کی آزادی ضرور ملے مگر پیامِ فطرت کا مذاق اڑانے اور تضحیک کا حق نہیں۔
عورت ماں ہے تو جنت،
بہن ہے تو محبت و دعا،
بیوی ہے تو سکون،
بیٹی ہے تو رحمت و جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ۔
مؤمنات و مسلمات کی شان بہت اونچی ہے کہ جن کا ارفع ترین مقام اللّٰہ نے اپنے قرآن میں بیان کیا ہے۔
اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر سرِ تسلیم خم کر دینے والی،ہر میدان میں حدود و قیود کا پاس رکھنے والی اور کسی بھی معاشرے کی بہترین پہچان بننے والی۔یہ آبگینے کی مثل شفاف و نازک اور اپنی عزت و آبرو کے دفاع میں بڑی سخت جاں اور اسلام کے دیئے حصار میں سکون و آرام بھی محسوس کرتی ہیں۔
لا ریب اسلام عورت کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار اور محافظ ہے اور تا قیامت رہے گا (ان شآ ءاللّٰہ)۔​
 
صرف آٹھ مارچ ہی خواتین کے حقوق کی آگاہی کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ہر ہر دن عورت کے حقوق کو یقینی بنانے اور حسنِ سلوک سے پیش آنے کا ہے۔
سو گز رسہ تے سرے تے گنڈھ​
 

Back
Top