Marham Hai Na Ijaz e Masihaii By Javeria Siddique Column

مرہم ہے نہ ہی اعجازِ مسیحائی ...... جویریہ صدیق

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔طب وہ شعبہ ہے جس کے ہاتھ میں اللہ کے بعد انسان کی زندگی اور موت ہوتی ہے‘ اس کی بروقت مدد کسی مرتے ہوئے شخص کو زندگی کی طرف لیے جاتی ہے تو کبھی غفلت کسی بھی انسان کو موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔طب کے شعبے میں غلطی کی گنجائش نہیں۔طبیب کو مسیحا بھی کہا جاتا ہے‘ مریض اپنی زندگی کی ڈور سونپ کی مطمئن ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر اپنی قابلیت سے بیماری کو جڑ سے اکھاڑ دے گا۔
جس وقت طاقتور لوگ‘ گروہ ‘ملک اپنی طاقت کے نشے میں جنگیں لڑتے ہیں تو وہ بھی جنگوں کے کچھ اصول بنا لیتے ہیں کہ شفا خانوں‘ طبی مراکز اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔پرانے وقتوں میں جب جنگیں ہوتی تھیں تو رضاکار طبیب زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے‘ ان کو پانی پلاتے اور دلاسہ دیتے تھے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔پرانے زمانے میں بے ہوشی کی دوائی نہیں ہوتی تھی‘ نہ ہی آلاتِ جراحی ہوتے تھے۔چاقو کی مدد سے زخم کو کھولا جاتا تھا پھر جڑی بوٹیوں کا لیپ لگا دیا جاتا تھا۔ٹانگ‘ بازو اگر زخم سے خراب ہوجاتا تو کلہاڑی یا تلوار سے اس کو الگ کر دیا جاتا تھا۔جب وبائیں پھیلتی تھی تو ہر طرف خوف اور دہشت کا راج ہوتا تھا‘لوگ درد سے چلاتے تھے‘ موت کی بھیک مانگنے تھے‘ لیکن کوئی ان کے قریب جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ چھوت کی بیماری سے سب ڈرتے تھے۔تقدیری آفت میں انسان تنہا ہوتا ہے اور اس تنہائی کو کوئی ختم نہیں کر پاتا‘ صرف انسان کا حوصلہ اس کو جینے کی اُمنگ دیتا ہے۔جب تیرہویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو بہت سے امیر لوگ تو نقل مکانی کرگئے‘ لیکن غریب لوگ ان علاقوں میں پھنس کر رہ گئے جہاں طاعون کی وبا عروج پر تھی یہاں تک کہ شہروں کے دروازے بند کردئے گئے اور بہت سے طاعون کے مریضوں کو مرنے کے باوجود ان کے گھروں سے نہیں نکالا گیا‘ یوں مرض اور پھیل گیا۔یہ مرض سانس‘ ہاتھ ملانے اور ہوا کے ذریعے پھیل رہا تھا اور لا علاج تھا۔طبیب بھی چھوت کے مریض سے ڈر رہے تھے اور علاج سے انکار کر رہے تھے اور غریبوں کے پاس علاج اورادویات کیلئے پیسے بھی کہاں تھے۔لاکھوں لوگ مر گئے‘ بعد میں اجتماعی قبروں میں بہت سے مرنے والوں کو دفن کردیا گیا۔سولہویں صدی میں لندن میں جب یہ وبابڑے پیمانے پر پھیلی تو اس وقت کا بادشاہ چارلس دوئم خود تو محفوظ مقام پر آکسفورڈ چلا گیا ‘لیکن اس کے سپاہیوں اور مئیر نے لندن شہر کے دروازے بند کردیے اور یوں بیمار لوگ اور ان کی وجہ سے صحت مند لوگ بھی سسک سسک کر اسی جگہ پر مر گئے‘ انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ہر ہفتے سات ہزار لوگ طاعون کی وجہ سے مرنے لگے‘ جس نے لندن کی ایک تہائی آبادی کو ختم کردیا۔
صدیاں گزرتی گئیں ‘آہستہ آہستہ صحت کے شعبے میں ترقی ہونے لگی‘ بہت سی لا علاج بیماریوں کا اب علاج موجود ہے‘خسرہ‘ ٹی بی‘ کینسر‘ دل کے امراض‘پیٹ کے امراض اور بہت سی دیگر بیماریوں اب پہلے کی طرح لا علاج نہیں رہیں۔ بغیر درد کے مریض کے اعضا کی پیوندکاری کردی جاتی ہے‘بے اولاد جوڑے آئی وی ایف طریقۂ علاج سے صاحبِ اولاد ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت پوری دنیا کو معتدی‘ہوا سے پھیلنے والی‘ وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں اور چھوت کی بیماریوں سے بچانے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔پولیو‘ ڈینگی‘ایبولا‘ سارس‘ مرس پر قابو پایا اور اس سے بچنے کیلئے اب تک مہمات جاری ہیں‘تاہم 2019ء کے آخر میں کووڈ 19 کورونا وائرس نئی شکل میں سامنے آگیا۔ترقی یافتہ ممالک کا صحت کا شعبہ بہت جدید ہے‘ وہ ہر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ووہان‘ جہاں جنوری سے کورونا وائرس قہر برسا رہا تھا ‘وہاں اب زندگی آہستہ آہستہ لوٹ رہی ہے اور شہر کو جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔اگلے روز وہاں پہلی ٹرین کو داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔جہاں چین میں تین ہزار سے زائد لوگ لقمۂ اجل بن گئے وہاں 74 ہزار صحت یاب ہوکر گھروں کو لوٹ گئے۔جس کا سہرا لاک ڈاؤن ‘چینی حکومت کی بروقت حکمت عملی اور طبی عملے کی جانفشانی کے سر ہے۔
ہمیں چین سے تو کورونا وائرس منتقل نہیں ہوا‘ لیکن ایران بارڈرپر ناقص حکمت عملی اور آمدورفت نے کورونا کا عذاب پاکستانیوں پر مسلط کر دیا۔سندھ حکومت نے بروقت اقدامات کئے‘ لیکن وفاقی حکومت نے فیصلے میں دیر کی اور وائرس پورے ملک میں پھیل گیا۔سچ تو یہ ہے کہ جب ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں اپنے علاج کیلئے لندن جاتے ہیں تو اس ملک کے ہسپتالوں کا جو حال ہوگا‘ وہ کسی سے چھپا نہیں۔سہولیات ہیں نہیں اور ڈاکٹرز کم سہولیات میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں۔ طبی عملہ کم ہے اور مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔خواتین میڈیکل کالجز میں تو میرٹ میں سب سے اوپر ہوتی ہیں‘ لیکن ہسپتال میں گائنی اور سکن کے شعبے کے علاوہ خاتون ڈاکٹر نظر نہیں آتی۔عورتیں سینے میں درد اور بریسٹ میں رسولی چھپائے رکھتی ہیں‘ کیونکہ مرد ڈاکٹر سے چیک کروانے میں وہ شرم محسوس کرتی ہیں۔حکومت اس وقت تمام ان خواتین ڈاکٹرز کو ہسپتالوں میں بلائے جو مرد وں کا حق مار کر میڈیکل کالجز میں نشستیں لیتی ہیں‘ پھر پڑھائی مکمل کرکے‘ شادی کر کے سسرال کے ایما پر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔جب ڈگریاں لے کر خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھ جائیں اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز سرکاری ڈیوٹی سے زیادہ اپنے کلینکس میں پیسے کمانے کو ترجیح دیں‘ محکمہ صحت صرف سوشل میڈیا تک صحت کے انصاف کے نعرے لگائے اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں گالی گلوچ میں مصروف ہوں ‘وبائی صورتحال میں بھی طبی عملے کو حفاظتی کٹس فراہم نہ کی جائیں اور آئیسولیشن وارڈز میں بھی مکمل سہولیات نہ دی جائیں‘سرکاری ہسپتالوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو توسانحات جنم لیتے ہیں اور یہی لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا جہاں 73 سال کے مریض محمد حنیف کورونا سے نہیں اس غفلت سے جاں بحق ہو گیاجو ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کی گئی۔وہ مریض رفع حاجت کیلئے جانا چاہتا تھا‘ لیکن اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے‘وہ منت سماجت کرتا رہا کہ مجھے کھول ‘دو شرمندگی‘ خوف‘ تکلیف نجانے اپنی زندگی کی آخری رات اس بزرگ مریض نے کیا کیا سہا ہوگا۔جب اس مریض کی رسی اگلے دن کھولی گئی اور وہ بمشکل غسل خانے تک گیا تو وہیں اس کا دم نکل گیا۔محمد حنیف کی موت کا ذمہ دار کورونا نہیں۔عملے کی طرف سے کہا گیا کہ وہ جنونی کیفیت کا شکار تھا‘اگر ایسا تھا تو ماہر نفسیات سے اسے چیک کیوں نہیں کرایا گیا‘ سکون آور ادویات کیوں نہیں دی گئیں؟رسیوں سے باندھ دینا کون سا طریقۂ علاج ہے؟ہسپتال کے مطابق 73 سال کے بزرگ محمد حنیف دل کے دورے سے غسل خانے میں چل بسے جبکہ اہل خانہ کے مطابق ان کو دل کا عارضہ نہیں تھا۔موت کورونا سے نہیں مشکوک حالات میں ہوئی‘ جس کی ذمہ داری ہسپتال پر عائد ہوتی ہے۔دیگر مریضوں کے مطابق وہ تکلیف میں تھا کیونکہ اس کو باندھ دیا گیا تھا‘ نہ ہی کسی نے چیک کیا اور نہ ہی باتھ روم جانے کی اجازت دی۔بس انسان کو مار کر تحقیقات کا حکم دے دیا جاتا ہے۔
مشیران کی وہ فوج جو وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی ٹیکس پئیرز کے خرچ پر بھرتی کررکھی ہے ‘اس نے وزیر اعظم کے کان اور آنکھیں خوشامد سے بند کردیے ہیں‘ وہ دیکھ ہی نہیں پارہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں سے کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ڈیڑھ سال ہوگئے حکومت صحت کا انصاف نہیں کرسکی۔اللہ بزرگ شہری محمد حنیف کے درجات بلند کرے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ان کی موت کے ذمہ دار خود اپنا محاسبہ کریں اور اللہ سے معافی مانگیں‘ اب بھی وقت ہے عوام کی مدد کریں۔​
 
 

مرہم ہے نہ ہی اعجازِ مسیحائی ...... جویریہ صدیق

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔طب وہ شعبہ ہے جس کے ہاتھ میں اللہ کے بعد انسان کی زندگی اور موت ہوتی ہے‘ اس کی بروقت مدد کسی مرتے ہوئے شخص کو زندگی کی طرف لیے جاتی ہے تو کبھی غفلت کسی بھی انسان کو موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔طب کے شعبے میں غلطی کی گنجائش نہیں۔طبیب کو مسیحا بھی کہا جاتا ہے‘ مریض اپنی زندگی کی ڈور سونپ کی مطمئن ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر اپنی قابلیت سے بیماری کو جڑ سے اکھاڑ دے گا۔
جس وقت طاقتور لوگ‘ گروہ ‘ملک اپنی طاقت کے نشے میں جنگیں لڑتے ہیں تو وہ بھی جنگوں کے کچھ اصول بنا لیتے ہیں کہ شفا خانوں‘ طبی مراکز اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔پرانے وقتوں میں جب جنگیں ہوتی تھیں تو رضاکار طبیب زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے‘ ان کو پانی پلاتے اور دلاسہ دیتے تھے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔پرانے زمانے میں بے ہوشی کی دوائی نہیں ہوتی تھی‘ نہ ہی آلاتِ جراحی ہوتے تھے۔چاقو کی مدد سے زخم کو کھولا جاتا تھا پھر جڑی بوٹیوں کا لیپ لگا دیا جاتا تھا۔ٹانگ‘ بازو اگر زخم سے خراب ہوجاتا تو کلہاڑی یا تلوار سے اس کو الگ کر دیا جاتا تھا۔جب وبائیں پھیلتی تھی تو ہر طرف خوف اور دہشت کا راج ہوتا تھا‘لوگ درد سے چلاتے تھے‘ موت کی بھیک مانگنے تھے‘ لیکن کوئی ان کے قریب جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ چھوت کی بیماری سے سب ڈرتے تھے۔تقدیری آفت میں انسان تنہا ہوتا ہے اور اس تنہائی کو کوئی ختم نہیں کر پاتا‘ صرف انسان کا حوصلہ اس کو جینے کی اُمنگ دیتا ہے۔جب تیرہویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو بہت سے امیر لوگ تو نقل مکانی کرگئے‘ لیکن غریب لوگ ان علاقوں میں پھنس کر رہ گئے جہاں طاعون کی وبا عروج پر تھی یہاں تک کہ شہروں کے دروازے بند کردئے گئے اور بہت سے طاعون کے مریضوں کو مرنے کے باوجود ان کے گھروں سے نہیں نکالا گیا‘ یوں مرض اور پھیل گیا۔یہ مرض سانس‘ ہاتھ ملانے اور ہوا کے ذریعے پھیل رہا تھا اور لا علاج تھا۔طبیب بھی چھوت کے مریض سے ڈر رہے تھے اور علاج سے انکار کر رہے تھے اور غریبوں کے پاس علاج اورادویات کیلئے پیسے بھی کہاں تھے۔لاکھوں لوگ مر گئے‘ بعد میں اجتماعی قبروں میں بہت سے مرنے والوں کو دفن کردیا گیا۔سولہویں صدی میں لندن میں جب یہ وبابڑے پیمانے پر پھیلی تو اس وقت کا بادشاہ چارلس دوئم خود تو محفوظ مقام پر آکسفورڈ چلا گیا ‘لیکن اس کے سپاہیوں اور مئیر نے لندن شہر کے دروازے بند کردیے اور یوں بیمار لوگ اور ان کی وجہ سے صحت مند لوگ بھی سسک سسک کر اسی جگہ پر مر گئے‘ انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ہر ہفتے سات ہزار لوگ طاعون کی وجہ سے مرنے لگے‘ جس نے لندن کی ایک تہائی آبادی کو ختم کردیا۔
صدیاں گزرتی گئیں ‘آہستہ آہستہ صحت کے شعبے میں ترقی ہونے لگی‘ بہت سی لا علاج بیماریوں کا اب علاج موجود ہے‘خسرہ‘ ٹی بی‘ کینسر‘ دل کے امراض‘پیٹ کے امراض اور بہت سی دیگر بیماریوں اب پہلے کی طرح لا علاج نہیں رہیں۔ بغیر درد کے مریض کے اعضا کی پیوندکاری کردی جاتی ہے‘بے اولاد جوڑے آئی وی ایف طریقۂ علاج سے صاحبِ اولاد ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت پوری دنیا کو معتدی‘ہوا سے پھیلنے والی‘ وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں اور چھوت کی بیماریوں سے بچانے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔پولیو‘ ڈینگی‘ایبولا‘ سارس‘ مرس پر قابو پایا اور اس سے بچنے کیلئے اب تک مہمات جاری ہیں‘تاہم 2019ء کے آخر میں کووڈ 19 کورونا وائرس نئی شکل میں سامنے آگیا۔ترقی یافتہ ممالک کا صحت کا شعبہ بہت جدید ہے‘ وہ ہر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ووہان‘ جہاں جنوری سے کورونا وائرس قہر برسا رہا تھا ‘وہاں اب زندگی آہستہ آہستہ لوٹ رہی ہے اور شہر کو جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔اگلے روز وہاں پہلی ٹرین کو داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔جہاں چین میں تین ہزار سے زائد لوگ لقمۂ اجل بن گئے وہاں 74 ہزار صحت یاب ہوکر گھروں کو لوٹ گئے۔جس کا سہرا لاک ڈاؤن ‘چینی حکومت کی بروقت حکمت عملی اور طبی عملے کی جانفشانی کے سر ہے۔
ہمیں چین سے تو کورونا وائرس منتقل نہیں ہوا‘ لیکن ایران بارڈرپر ناقص حکمت عملی اور آمدورفت نے کورونا کا عذاب پاکستانیوں پر مسلط کر دیا۔سندھ حکومت نے بروقت اقدامات کئے‘ لیکن وفاقی حکومت نے فیصلے میں دیر کی اور وائرس پورے ملک میں پھیل گیا۔سچ تو یہ ہے کہ جب ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں اپنے علاج کیلئے لندن جاتے ہیں تو اس ملک کے ہسپتالوں کا جو حال ہوگا‘ وہ کسی سے چھپا نہیں۔سہولیات ہیں نہیں اور ڈاکٹرز کم سہولیات میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں۔ طبی عملہ کم ہے اور مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔خواتین میڈیکل کالجز میں تو میرٹ میں سب سے اوپر ہوتی ہیں‘ لیکن ہسپتال میں گائنی اور سکن کے شعبے کے علاوہ خاتون ڈاکٹر نظر نہیں آتی۔عورتیں سینے میں درد اور بریسٹ میں رسولی چھپائے رکھتی ہیں‘ کیونکہ مرد ڈاکٹر سے چیک کروانے میں وہ شرم محسوس کرتی ہیں۔حکومت اس وقت تمام ان خواتین ڈاکٹرز کو ہسپتالوں میں بلائے جو مرد وں کا حق مار کر میڈیکل کالجز میں نشستیں لیتی ہیں‘ پھر پڑھائی مکمل کرکے‘ شادی کر کے سسرال کے ایما پر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔جب ڈگریاں لے کر خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھ جائیں اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز سرکاری ڈیوٹی سے زیادہ اپنے کلینکس میں پیسے کمانے کو ترجیح دیں‘ محکمہ صحت صرف سوشل میڈیا تک صحت کے انصاف کے نعرے لگائے اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں گالی گلوچ میں مصروف ہوں ‘وبائی صورتحال میں بھی طبی عملے کو حفاظتی کٹس فراہم نہ کی جائیں اور آئیسولیشن وارڈز میں بھی مکمل سہولیات نہ دی جائیں‘سرکاری ہسپتالوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو توسانحات جنم لیتے ہیں اور یہی لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا جہاں 73 سال کے مریض محمد حنیف کورونا سے نہیں اس غفلت سے جاں بحق ہو گیاجو ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کی گئی۔وہ مریض رفع حاجت کیلئے جانا چاہتا تھا‘ لیکن اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے‘وہ منت سماجت کرتا رہا کہ مجھے کھول ‘دو شرمندگی‘ خوف‘ تکلیف نجانے اپنی زندگی کی آخری رات اس بزرگ مریض نے کیا کیا سہا ہوگا۔جب اس مریض کی رسی اگلے دن کھولی گئی اور وہ بمشکل غسل خانے تک گیا تو وہیں اس کا دم نکل گیا۔محمد حنیف کی موت کا ذمہ دار کورونا نہیں۔عملے کی طرف سے کہا گیا کہ وہ جنونی کیفیت کا شکار تھا‘اگر ایسا تھا تو ماہر نفسیات سے اسے چیک کیوں نہیں کرایا گیا‘ سکون آور ادویات کیوں نہیں دی گئیں؟رسیوں سے باندھ دینا کون سا طریقۂ علاج ہے؟ہسپتال کے مطابق 73 سال کے بزرگ محمد حنیف دل کے دورے سے غسل خانے میں چل بسے جبکہ اہل خانہ کے مطابق ان کو دل کا عارضہ نہیں تھا۔موت کورونا سے نہیں مشکوک حالات میں ہوئی‘ جس کی ذمہ داری ہسپتال پر عائد ہوتی ہے۔دیگر مریضوں کے مطابق وہ تکلیف میں تھا کیونکہ اس کو باندھ دیا گیا تھا‘ نہ ہی کسی نے چیک کیا اور نہ ہی باتھ روم جانے کی اجازت دی۔بس انسان کو مار کر تحقیقات کا حکم دے دیا جاتا ہے۔
مشیران کی وہ فوج جو وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی ٹیکس پئیرز کے خرچ پر بھرتی کررکھی ہے ‘اس نے وزیر اعظم کے کان اور آنکھیں خوشامد سے بند کردیے ہیں‘ وہ دیکھ ہی نہیں پارہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں سے کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ڈیڑھ سال ہوگئے حکومت صحت کا انصاف نہیں کرسکی۔اللہ بزرگ شہری محمد حنیف کے درجات بلند کرے اور ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ان کی موت کے ذمہ دار خود اپنا محاسبہ کریں اور اللہ سے معافی مانگیں‘ اب بھی وقت ہے عوام کی مدد کریں۔​
واہ واہ کھینچ کھینچ کر کالم نگار نے کالم بنا دیا
باقی دنیا میں بھی ایسی لاپرواہی سے وبا پھیلی ہوئی ہے بغض سے بھری تحریر
 
واہ واہ کھینچ کھینچ کر کالم نگار نے کالم بنا دیا
باقی دنیا میں بھی ایسی لاپرواہی سے وبا پھیلی ہوئی ہے بغض سے بھری تحریر
اسکو کس پر بغض؟
 
Back
Top