Mera Is Tankha Main Guzaara Nahi Hota by Khalil Naqvi Article

میرا اس تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا
IK.jpg

خلیل نقوی
وزیراعظم پاکستان کی کم از کم تنخواہ 2 لاکھ روپے ماہانہ ہے، ان کا کھانا پینا، آنا جانا، بیرونی سفر اور علاج معالجہ تک کے اخراجات بحق سرکار مفت ہیں، پھر بھی ان کا اس “معمولی” رقم میں گزارہ نہیں ہوتا۔

دوسری جانب حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ایک مزدور کی تنخواہ محض 17500 ہے، دیہاڑی دار 500 روپے کماتا ہے اور اس کی کچھ دیہاڑیاں لگتی بھی نہیں، اس نے کھانا پینا، سفر، دوائی دارو ہر چیز کا انتظام اسی رقم میں سے کرنا ہے۔ پھر آپ خود بتائیں مظلوم کون ہے۔

حیران کن امر یہ ہے یہ کہہ کون رہا ہے کہ میرا گزارہ نہیں ہوتا، جس نے 12 ماہ میں بجلی 12 دفعہ مہنگی کی، پٹرول و ڈیزل 80 سے 120، ایل پی جی 80 سے 160 روپے تک پہنچا دی۔ یہ تو عام آدمی بھی جانتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہو تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آٹا، دال، چینی، چاول اور سبزیاں اب عام آدمی کی قوت خرید سے ہی باہر ہو گئی ہیں مگر، پاکستانیو گھبرانا نہیں ہے۔

غربت ختم کرنے کی بجائے حکمران شاید غریب ختم کرنا چاہتے ہیں، آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے کہنے پر عوام کا بھرکس نکال دیا گیا ہے، پہلے غریب آدمی 2 وقت کی روٹی جیسے تیسے کر کے کھا لیتا تھا، اب تو اشیائے ضروریہ کے جتنے ریٹ بڑھ گئے ہیں، آٹے کا جو حال ہو گیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب انسان روٹی کھانے سے بھی گیا۔

حکومتی وزرا کے کہنے کے مطابق پاکستان بھر میں آٹا فراوان اور سستا دستیاب ہے، کوئی بحران نہیں۔ لیکن جب مارکیٹ میں جائیں تو صورتحال کچھ اور ہی ہے، روٹی کا وزن کم کر دیا گیا، اب روٹی کم اور پاپڑ زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ آٹا تلاش کریں تو دکاندار کہتے ہیں شارٹ ہے، پیچھے سے نہیں آ رہا، آخر جائیں تو کہاں جائیں۔

سرائیکی میں ایک مثال ہے ایک فقیر قرعہ کے ذریعے بادشاہ بنتا ہے، اسکا ایک ریچھ ہوتا ہے، وہ تمام وقت ریچھ پالنے پر لگاتا ہے، نہ ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے کوئی فیصلے کرتا ہے اور نہ مملکت کی حفاظت کیلئے کوئی اقدام اٹھاتا ہے۔ ملک کی مخدوش صورتحال دیکھ کر دشمن کی فوج حملہ کر دیتی ہے تو بادشاہ ریچھ لے کر نکل جاتا ہے، لوگ سوال کرتے ہیں بادشاہ سلامت، دشمن کا مقابلہ کریں، وہ کہتا ہے مجھے تم سے کیا، مجھے اپنا ریچھ پالنا تھا وہ پل گیا، میرا کام ختم۔

لہذا ہمارے نیازی صاحب بھی اپنا ریچھ پال رہے ہیں، جو آٹا، چینی، گھی، دال چاول کا مصنوعی بحران بنا رہے ہیں، ان کو پکڑنا بھی تو ان کی ہی ذمہ داری ہے، یہ کون کرے گا۔ دوسروں کے سر محض الزام تھوپ کر مسئلے حل نہیں ہو جاتے، ملک چاہے تباہ ہوجائے مگر بادشاہ کا ریچھ پل جائے بس۔
 

Back
Top