intelligent086
Star Pakistani
20
- Messages
- 17,578
- Reaction score
- 26,649
- Points
- 2,231
میرے دکھ کا عہد طویل ہے
میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا
میں جنم جنم سے کسی میں عکسِ مشابہت کی تلاش میں
پھرا اپنے خواب سراب ساتھ لئے ہوئے
گیا شہر شہر، نگر نگر
تھیں عجیب بستیاں راہ میں، میری جیت، میری شکست کی
کسی دوسرے کی صداقتیں۔۔۔۔ مری راہبر، مری رہزن
لئے ساتھ ساتھ، قدم قدم
کبھی پیشِ خلوتِ آئینہ،
کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں،
کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم مجھے کر گئیں
میں دھواں سا آتشِاصل کا
اُڑا اور خود سے بچھڑ گیا
مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں
سفرا آزما ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں
میں حلیف اپنے غنیم کا
ہوں جہاں بھی راہِ زیاں میں ہوں
میں خیال پرورِ شوق، شہرِ مثال کا
مجھے ہر مقام پہ یوں لگا
کہ حقیقتوں کے سگانِ کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں
مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمیں پر
میرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے
میری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر
یہ فرار تھا۔۔۔۔
کہ انا کا سایہ و سائبان
لیا جس نے اپنے بچاؤ میں
میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں
میرا پائے شوقِ سزا کہیں پہ رکا نہیں
یہ نشیبِ شام ہے اور میں ہوں رواں دواں
یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شبِ ابد کے پڑاؤ میں
ذرا انتظار۔۔۔۔ کہ جب وجود کا کوزہ گر مجھے پھر سے خاک بنا چکے
تو یہ دیکھنا
کہ شبیہہ شخصِ دگر میں لوٹ کے آؤں گا۔۔۔۔
اسی شہر میں
میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا
میرے دکھ کا عہد طویل ہے
آفتاب اقبال شمیم
میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا
میں جنم جنم سے کسی میں عکسِ مشابہت کی تلاش میں
پھرا اپنے خواب سراب ساتھ لئے ہوئے
گیا شہر شہر، نگر نگر
تھیں عجیب بستیاں راہ میں، میری جیت، میری شکست کی
کسی دوسرے کی صداقتیں۔۔۔۔ مری راہبر، مری رہزن
لئے ساتھ ساتھ، قدم قدم
کبھی پیشِ خلوتِ آئینہ،
کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں،
کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم مجھے کر گئیں
میں دھواں سا آتشِاصل کا
اُڑا اور خود سے بچھڑ گیا
مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں
سفرا آزما ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں
میں حلیف اپنے غنیم کا
ہوں جہاں بھی راہِ زیاں میں ہوں
میں خیال پرورِ شوق، شہرِ مثال کا
مجھے ہر مقام پہ یوں لگا
کہ حقیقتوں کے سگانِ کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں
مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمیں پر
میرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے
میری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر
یہ فرار تھا۔۔۔۔
کہ انا کا سایہ و سائبان
لیا جس نے اپنے بچاؤ میں
میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں
میرا پائے شوقِ سزا کہیں پہ رکا نہیں
یہ نشیبِ شام ہے اور میں ہوں رواں دواں
یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شبِ ابد کے پڑاؤ میں
ذرا انتظار۔۔۔۔ کہ جب وجود کا کوزہ گر مجھے پھر سے خاک بنا چکے
تو یہ دیکھنا
کہ شبیہہ شخصِ دگر میں لوٹ کے آؤں گا۔۔۔۔
اسی شہر میں
میرا نام لوحِ فراق پر ہے لکھا ہوا
میرے دکھ کا عہد طویل ہے
آفتاب اقبال شمیم