Millat ka sarmaya... naujawan tabqa islam ki nazar mein By maulana Muhammad Ilyas Ghuman

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ملت کا سرمایہ… نوجوان طبقہ اسلام کی نظر میں

Millat.jpg

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے تین مراحل ذکر فرمائے ہیں:’’اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہاری پیدائش کی ابتداء کمزوری سے کی، پھر کمزوری کے بعد طاقت(جوانی)عطا فرمائی، پھر طاقت کے بعد( دوبارہ ) کمزوری اور بڑھاپا طاری کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہی وہ ذات ہے جس کا علم اور قدرت کامل ہیں‘‘۔ ( سورۃ الروم، آیت نمبر 54)

جوانی، اعتدال کا استعارہ
انسان کی زندگی جن تین حصوں میں تقسیم ہے ان میں جوانی کا زمانہ درمیان میں آتا ہے۔ جس سے اعتدال کا اشارہ ملتا ہے کیونکہ بچپن میں شعور نہیں ہوتا اور بڑھاپے میں قوت نہیں ہوتی جبکہ جوانی ان دونوں وصفوں کا حسین امتزاج ہوتی ہے، شعور اور قوت مل کر ہی علم و عمل کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔
جسم اور شعور کی پختگی
قرآن کریم نے نو جوانوں کے لیے ایسے لفظ کا انتخاب فرمایا ہے جس میں عقل و شعور کی پختگی کے ساتھ جسم و جان کی مضبوطی کا معنی بھی پایا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے : اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اس کے بعد اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں عقل و شعور کی پختگی آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ ( سورۃ النساء، آیت نمبر6)
جوانی کا زمانہ چونکہ ہر اعتبار سے اپنے اندر پختگی اور اعتدال رکھتا ہے جس سے نوجوانوں کو اس بات کی تعلیم ملتی ہے کہ وہ عقائد و نظریات میں پختگی جبکہ اعمال و معاملات میں اعتدال سے کام لیں۔ اس کی طرف علامہ محمد اقبالؒ مرحوم یوں رہنمائی کرتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں میں خودی صورت فولاد
قوم و ملت کا سرمایہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کابڑا حصہ نوجوانوں کے نصیب میں آیا ہے کیونکہ ہر قوم کا سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے حکم کے مطابق دین اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو جوان طبقے کو اس طرف بلایا اور نوجوانوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر لبیک کہا۔
قیامت میں جوانی کا سوال
جوانی …اتنا قیمتی زمانہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے’’غنیمت‘‘ قرار دیا ہے، گناہوں سے حفاظت کی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، قیامت کے دن اس زمانے کی اہمیت کی وجہ سے اس کا سوال ہوگا کہ اسے کیسے خرچ کیا اور جو بندہ اس زمانے میں اللہ کی عبادت کرتا ہے اللہ کریم قیامت والے سخت دن میں اسے’’سایہ رحمت‘‘ نصیب فرمائیں گے۔
جوانی کو غنیمت جانیں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو!نوجوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مال داری کو فقر وتنگدستی سے پہلے،فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ (مستدرک حاکم)
فائدہ:جوانی مستانی اور جوانی دیوانی کا نعرہ لگانے والے نوجوان حدیث مبارک میں غورفرمائیں کہ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جاننا کس لحاظ سے ہے؟ آیا موج مستی، فضول، ناجائز، واہیات اور حرام کاموں میں جوانی کو برباد کرنا اور آخرت میں عذاب سے دوچار ہونا یا پھر اس زمانے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کر کے اللہ کے انعام کا مستحق ہونا۔
جوانی کو گناہوں سے بچائیں
حضرت عبدالرحمن بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں علقمہ اور اسود کے ہمراہ حضرت عبداللہ کے پاس ہوا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نوجوانوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا تو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے نوجو انو ں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کر نے کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ ضرور شادی کرلے، اس سے بدنظری(جیسے کبیرہ گناہ سے)حفاظت ہوتی ہے اورشر مگاہ کی حفاظت ہوتی ہے اور جو شخص شادی کی قدرت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیو نکہ روزے اس کے لیے ڈھال کا کا م دیتے ہیں‘‘۔(صحیح بخاری)
فائدہ:انسان جب جوان ہوتا ہے تو اس میں شہوت پیدا ہوتی ہے اگر اس کو جائز طریقے سے پورا نہ کیا جائے تو پھر بدنظری،حرام تعلقات، جنسی گناہ، لواطت اور بدکاری وجود میں آتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عزت و آبرو، حیا و تقدس، پاکدامنی و شرافت اور خاندانی نظام کی چولہیں ہل جاتی ہیں۔ ان گناہوں کا زیادہ تر تعلق چونکہ جوانی کے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں انسانی فطرت کے صحیح استعمال کا حکم دیا ہے۔
قیامت میں سوال
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن کوئی بندہ اس وقت تک اپنا پاؤں نہیں اٹھا سکے گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں خرچ کی، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں ختم کیا، اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم کے بارے میں کہ اس پر کتنی حد تک عمل کیا‘‘۔ (جامع ترمذی)
فائدہ:قیامت کے دن بطور خاص جوانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اگر جوانی کو گناہوں کے بجائے نیکیوں میں خرچ کیا ہوگا اور جوانی میں خوب اللہ کی عبادت کی ہو گی تو اللہ رب العزت ایسے نوجوان کو قیامت والے دن جب ہر طرف گرمی اور تپش ہوگی ایسے وقت میں سایہ نصیب فرمائیں گے۔
عرش الٰہی کا سایہ
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:’’سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی طرف سے سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہو گا: انصاف کرنے والا حکمران، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ہو، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہو، وہ دو آدمی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں محبت کریں، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں، وہ آدمی جسے کوئی بڑے خاندان والی خوبصورت عورت گناہ کی طرف بلائے مگر وہ اس سے کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ آدمی جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کے صدقے کا علم نہیں ہوتا۔ یعنی چھپا کر دے اور وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)
فائدہ:ہمیں کبھی تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچنا چاہیے اور بار بار سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن کی ہولناکی کس قدر ہوگی، اللہ کا جلال، غیظ و غضب اور غصہ ہوگا، تپش، گرمی کی شدت اور ساری انسانیت کے سامنے ذلت و رسوائی۔ اللہ معاف فرمائے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سایہ عطا فرمائیں گے جس نے اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت میں گزارا ہوگا۔
قابل رشک سچا نوجوان
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمام مخلوق میں اللہ کے ہاں سب سے محبوب وہ نوجوان ہے جو سیرت کے اعتبار سے بھی خوبصورت ہو۔ اپنی جوانی اور خوب صورتی کو اللہ کی عبادت میں خرچ کرے ایسے نوجوان پر اللہ تعالیٰ ملائکہ کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور انہیں فرماتے ہیں کہ یہ میرا سچا بندہ ہے‘‘۔(الترغیب فی فضائل الاعمال لابن شاہین)
فرشتہ سیرت نوجوان
یزید بن میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اے وہ نوجوان!جو مجھے راضی کرنے کے لیے شہوت کو چھوڑتے ہو، اپنی جوانی کو میری اطاعت میں خرچ کرتے ہو۔ میرے ہاں تیرا مقام ایسا ہے جیسے میرے بعض فرشتوں کا‘‘۔(کتاب الزھد لابن مبارک)
محمد بن قاسم اور محمد الفاتح
جب ہم تاریخ اسلام میں مسلم نوجوان کے کارنامے دیکھتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ محمد بن قاسم الثقفی رحمہ اللہ نے جب سندھ کو فتح کیا اوریہاں اسلام کی بہاریں لائے اس وقت وہ اسلامی لشکر کے کمانڈر تھے اور ان کی عمر سترہ سال تھی۔ اسی طرح محمد الفاتح رحمہ اللہ نے جب قسطنطنیہ(ترکی)کو فتح کرنے کے لیے فکر مند ہوئے اس وقت ان کی عمر انیس سال تھی اور اپنے والد کے بعد جب وہ والی بنائے گئے تو انہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا اس وقت ان کی عمر تئیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو اسلام اور اہل اسلام کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


 

@intelligent086
انتہائی خوبصورت اور مفید معلومات پر مبنی مضمون
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور جواب کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
@intelligent086
بس اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ ہمارے جوان ایسے ہوں
 
Back
Top