Ummahatul Momineen Momino ki Maa, Hazrat Ayesha Saddiqa Tahira (RA)

Mem00na

Mem00na

Well-Known Pakistani
5
 
Messages
840
Reaction score
2,435
Points
206
مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہؓ

Hazrat-Aisha.jpg


ام المومنین حضرت عائشہؓ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ماہِ شوال مطابق ماہِ جولائی 614ء بمقام مکہ مکرمہ، حجاز مقدس میں ہوئی،آپ کا بچپن مکہ مکرمہ میں گزرا اور 9سال کی عمر میں مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔

اِس کم سنی اور کم عمری میں یاد داشت اور قوتِ حافظہ اتنا مضبوط تھا کہ ہجرت نبوی کے تمام واقعات اور ان کی جزئیات بھی یاد ہوگئیں تھیں، آپ سے بڑھ کر کسی صحابی نے احوال ہجرت مفصل اورمسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا۔ امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں باب الہجرۃ کے تحت اِن میں بہت سی جزئیات کو درج فرما دیا ہے۔

سیدہ عائشہ کی اولاد نہ تھی،ایک بار حسرت میں نبی کریمؐ سے کہنے لگیں کہ کہ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں کنیت رکھوں،لیکن میری کوئی اولاد نہیں ہے،توآپؐ نے فرمادیا کہ کہ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر کنیت رکھ لو،جس پر انہوں نے اپنے بھانجے سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر کنیت رکھ لی۔

ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ تنہا تھے،اور کوئی غم کسار نہیں تھا،یہ حالت آپؐ کے قریب رہنے والوں سے دیکھی نہ جاتی تھی،اسی دوران سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہا کہ آپ اتنے پریشان رہتے ہو،شادی کیوں نہیں کر لیتے،آپ نے فرمایا کہ مجھ سے کون کریگا،انہوں نے آپؐ کو دو رشتے بتلائے کہ ایک سیدنا ابو بکر کے گھر ہے اور دوسرا رشتہ سیدہ سودہ بنت زمعہ کا ہے۔چنانچہ وقت نے دونوں کو نبی کریمؐ کے گھر میں جمع فرمادیا۔

آپؐ کی طرف سے پیغام نکاح بھی سیدہ خولہ لیکر گئیں،ام رومان نے سنا تو بہت خوش ہوئیں،لیکن اپنے خاوند سیدنا ابو بکرؓ سے مشاورت کیلئے وقت مانگا،وہ تشریف لائے ان کے سامنے بات رکھی،انہوں نے فرمایا،کہ بات تو بڑی سعادت کی ہے لیکن آپ ؐ نے مجھے منہ بھولا بھائی بنایا ہوا ہے،تو میری بیٹی ان کی بھتیجی ہوئی،تو یہ کیسے ممکن ہے،سیدہ خولہ یہ مشکل آپؐ کے پاس لے گئیں،آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے دینی بھائی ہیں،اور دینی بھائی کی بیٹی سے نکاح ہو سکتا ہے،چنانچہ سیدنا ابو بکرؓ نے آپؐ اپنی بیٹی کا رشتہ قبول فرما لیا اور یوں سیدہ عائشہؓ کا نکاح آپؐ سے ہوگیا۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ گرامی کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت حاصل کرتی رہیں اور جلد ہی انھوں نے اپنے خداداد مثالی قوتِ حافظہ اور ذہن کی وجہ سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی۔ جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ گئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس میں آ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بنا ہوا ہے۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ ازواج کے ایک ایک فعل کی نگرانی فرماتے اور کہیں کوئی لغزش نظر آتی تو فوراً اصلاح فرماتے۔اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ ایک مثال رکھتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لینا مقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھا، ناظرہ قرآن پڑھا، علم انساب سے واقفیت حاصل کی، علمِ طب میں مہارت پیدا کی، شریعت کے باریک باریک نکات یاد کیے،خطابت میں عبور حاصل کیا، ضروریاتِ دین اور قرآنی و نبوی علوم میں ملکہ پیدا کیا۔ اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے۔

اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بڑا مرتبہ ہے۔ جب آپ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے بہتان باندھا تو اس وقت اللہ جل شانہٗ نے برأت کے لیے قرآنِ کریم کی سترہ آیتیں اتار دیں۔ جو قرآن مجید کا حصہ ہیں اور ہمیشہ آپ کی عظمت و بزرگی اور عزت و عصمت کا اظہار کرتی رہیں گی۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبریلِ امین علیہ السلام آپ کی شبیہ لائے اور عرض کیا کہ:’’یارسول اللہ! یہ آپ کی دنیا و آخرت میں بیوی ہوں گی۔‘‘ اور تین مرتبہ خواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دکھائی گئی تھیں۔ چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:’’اے عائشہ! تم مجھے تین مرتبہ خواب میں دکھائی گئی تھیں کہ جبریل امین تمہاری تصویر ریشم کے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائے اور مجھ سے کہا یہ تمہاری بیوی ہے، مَیں وہ کپڑا کھول کر دیکھتا اور کہتا کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہو کر رہے گی۔‘‘

ان باتوں کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرما کر امت کے لیے آسانی پیدا فرمائی۔ ان روایتوں سے بارگاہِ خداوندی میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ سمجھ میں آتا ہے، آپ رضی اللہ عنہا کو ایسا رتبہ بلند جو حاصل ہوا وہ سب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے اطاعت و فرماں برداری کی وجہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے سبب سے جو خدمت گزاری کی وہ امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کی حیثیت سے جو اطاعت کی وہ پوری امت کے لیے ایک سبق ہے۔

خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 9 باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔

.خواب میں فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش فرمائی۔7سال میں میرے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا۔

9 برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔امہات المومنین میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی۔امہات المومنین میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا۔

مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میرے حق میں قرآن کریم کی آیات اتریں۔ میں نے جبرئیل امین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گودمیں سر رکھے وفات پائی۔

Hazrat-Aisha-Qabar.jpg


اٹھاون ہجری رمضان المبارک کی سترہ تاریخ کو آپ سخت بیمار ہوئیں۔ نماز وتر کی ادائیگی کے بعد آپ اس جہاں سے اس جہاں کو کوچ فرما گئیں۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابو بکرؓ، عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ، عبداللہؓ بن عتیق، عروہ بن زبیرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ نے نبی کریم ﷺ کی پیاری بیوی اور امت محمدیہ کی ماں کو قبر میں اتار دیا۔​
 

@Veer
آپ دونوں نے کانٹ چھانٹ کر مضمون کو جازب نظر بنا دیا ہے
جزاک اللہ
پاکستان ویب کا موبائل 😅 استعمال ہو رہا ہے
مظلوم کی آہ سے بچ :p موبائل مالکن نے تیرے مزاح کا حشر کر دینا ہے
 
@Mem00na
ان باتوں کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرما کر امت کے لیے آسانی پیدا فرمائی۔ ان روایتوں سے بارگاہِ خداوندی میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ سمجھ میں آتا ہے، آپ رضی اللہ عنہا کو ایسا رتبہ بلند جو حاصل ہوا وہ سب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے اطاعت و فرماں برداری کی وجہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے سبب سے جو خدمت گزاری کی وہ امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کی حیثیت سے جو اطاعت کی وہ پوری امت کے لیے ایک سبق ہے۔

خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 9 باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں۔

.خواب میں فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش فرمائی۔7سال میں میرے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا۔

۔9 برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔امہات المومنین میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی۔امہات المومنین میں سے صرف میرے بستر پر قرآن کریم نازل ہوتا۔


ماشاءاللہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top