Mujh Ko Ehsas Ki Shidat Ney Jala Rakha Hai By Dr Hussain Ahmed Paracha

مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

Tariq Aziz.jpg

جناب طارق عزیز زندگی کے سٹیج پر کئی دہائیوں تک اپنا رنگ جماتے اور اپنا لوہا منواتے رہے اور بالآخر دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو الوداعی سلام کہہ کر اس دنیا سے نہایت باوقار انداز میں رخصت ہو گئے۔ اگر مجھے صرف دو لفظوں میں اُن کی پرجوش، ولولہ انگیز اور بھرپور زندگی کو عنوان دینا ہو تو میں اسے ''شدتِ احساس‘‘ کا عنوان دوں گا۔ اسلم انصاری نے شاید طارق عزیز کے لیے ہی کہا تھا؎
میری لو دیتی جوانی کی کہانی مت پوچھ
مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے
دنیا نے سب سے پہلے 23 مارچ 1970ء کو اس شدتِ احساس کا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھرپور مظاہرہ دیکھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا عبدالحمید بھاشانی اور بعض دیگر قائدین کی موجودگی میں طارق عزیز نے نہایت جوشیلی انقلابی تقریر کی۔ اس تقریر پر انہیں بہت داد ملی۔ انہوں نے اس تقریر میں استحصالی قوتوں کو للکارا تھا۔ پاکستانی عوام کو پہلی بار معلوم ہوا کہ طارق عزیز محض ایک انائونسر اور ٹی وی کمپیئر نہیں بلکہ ایک انقلابی جوالامکھی ہے۔ بوسٹن امریکہ میں مقیم میرے سندھی دوست قاضی خالد احمد نے آج صبح ہی مجھے فون کرکے بتایا کہ 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا جشن منانے کیلئے کراچی میں جلوس نکالا جو شارع فیصل اور بندر روڈ سے ہوتا ہوا لیاری کے وسیع و عریض میدان میں جاکر ختم ہوا تھا۔ قاضی صاحب ایک نوجوان کی حیثیت سے اس جلوس میں شامل تھے۔ ٹرک پر بھٹو صاحب کے ساتھ دیگر قائدین کے علاوہ طارق عزیز بھی تھے۔ قاضی صاحب کے بقول اپنی تقریر سے پہلے بھٹو صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں طارق عزیز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اٹھو طارق! پہلے تم تقریر کرو۔
طارق عزیز صاحب نے اس جلسے میں اپنی شعلہ بیانی کے کمالات دکھائے اور ایک سماں باندھ دیا۔ وہ غریب کا دکھ درد دکھاوے کے طور پر نہیں دل کی اتھاہ گہرائی سے محسوس کرتے تھے۔ اور جب وہ کسی دکھی، کسی مظلوم، کسی فریادی اور کسی مجبور کی کوئی مدد نہ کر پاتے تو بہت آزردہ خاطر ہوتے تھے۔ ایک بار خود طارق عزیز ایک بے تکلف دوست کو بتا رہے تھے کہ لوگ انہیں اپنے مسائل بتاتے اور دُکھڑے سناتے ہیں تو انہیں بہت دکھ ہوتا ہے کہ وہ سب پریشان حال لوگوں کی مدد نہیں کر پاتے۔ پھر انہوں نے خود صابر ظفر کا یہ شعر سنایا؎
بے سہارا کوئی ملتا ہے تو دکھ ہوتا ہے
میں بھی کیا ہوں کہ کسی کام نہیں آ سکتا
اس لیے جب پیپلز پارٹی غریبوں کی دادرسی نہ کرسکی تو طارق عزیز پارٹی سے مستعفی ہو گئے۔ طارق عزیز بے سروسامانی کے عالم میں ساہیوال سے 1960ء کے اوائل میں لاہور آئے اور یہاں کسی سفارش یا تعلق واسطے سے نہیں بلکہ اپنے ہنر اور اپنے فن خطابت سے پہلے ریڈیو پاکستان سے ملازمت کا آغاز کیا اور پھر قسمت نے یاوری کی اور 1964ء میں جب لاہور سے ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو وہ اس کے پہلے ٹی وی انائونسر تھے۔ وہ ایک باکمال کمپیئر، آرٹسٹ، شاعر اور ادیب تھے؛ تاہم معلوماتِ عامہ کے بارے میں اُن کے نیلام گھر میں اُن کے کمالِ فن نے ایسی بلندیوں کو چھوا جو اس سے پہلے شاید ہی کسی کمپیئر یا صداکار کے حصے میں آئی ہوں گی۔ آغاز میں تو صرف پاکستان ٹیلی ویژن ہی ہوتا تھا اس لیے لوگ ''دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘‘ سننے کے منتظر ہوتے اور نہایت ذوق و شوق سے اُن کا دلچسپ پروگرام دیکھتے۔ پروگرام میں طارق عزیز برجستہ اور برمحل اشعار کے استعمال اور بیت بازی کے مقابلوں کے دوران اپنی خوب صورت کمپیئرنگ سے اس میں رنگ بھر دیتے تھے۔ جناب طارق عزیز نے کم از کم تین نسلوں کو علم و آگہی کی روشنی سے اپنے پروگراموں میں منور کیا۔ ''نیلام گھر‘‘ کو بعد میں ''طارق عزیز شو‘‘ اور پھر ''بزم طارق عزیز‘‘ کا نام دیا گیا۔ واقعی یہ اُن کا حق بھی بنتا تھا؛ اگرچہ بظاہر یہ اسلامی معلومات، عالمی معلومات، پاکستانی معلومات اور سائنسی معلومات وغیرہ کا ایک صحت مندانہ مقابلہ تھا مگر دراصل اس پروگرام کی کمپیئرنگ کے دوران جناب طارق عزیز پاکستان کی محبت سے سرشار نظر آتے۔ وہ خود پاکستان سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتے تھے اور وہ یہی سرشاری اور دیوانگی پروگرام میں شرکت کرنے والوں اور پروگرام دیکھنے والوں کے دلوں میں بھر دینا چاہتے تھے۔ طارق عزیز نے ٹیلی ویژن کی میزبانی اور کمپیئرنگ کے علاوہ کئی فلموں میں جاندار کردار بھی ادا کیے۔ ان فلموں میں انسانیت، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔
وہ 1997ء سے 1999ء تک پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے رکن قومی اسمبلی بھی رہے۔ اس دوران جب مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے چیف جسٹس، جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ پر چڑھائی کی تو اُن میں طارق عزیز کا نام بھی آیا۔ بعدازاں انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
دراصل فلم اور سیاست اُن کے میدان نہ تھے۔ اُن کی حقیقی شخصیت اور اُن کی پرجوش حب الوطنی کا اظہار اُن کی ٹیلی ویژن میزبانی اور بزم طارق عزیز کے پروگراموں میں ہوتا تھا۔ نوجوانوں کیلئے طارق عزیز کی زندگی میں زبردست اسباق ہیں۔ پہلا سبق یہ ہے کہ وہ خصوصی ٹیلنٹ دریافت کرو جو اللہ نے ہر انسان کو دے رکھا ہوتا ہے۔ اللہ نے طارق عزیز کو جو بارعب اور دبنگ آواز عطا کی تھی اور انہیں جس فن خطابت سے نوازا تھا اس کی انہوں نے بہت قدر کی اور انہیں اوائل زندگی سے ہی یہ ادراک ہو گیا تھا کہ یہی وہ خصوصی عطیہ خداوندی ہے۔ اس عطیے کو انہوں نے کثرتِ مطالعہ اور وسعتِ مشاہدہ سے مزید صیقل کیا۔ دوسرا سبق ہے جہدِ مسلسل۔ نہ کبھی تھکنا ہے اور نہ کبھی حوصلہ ہارنا ہے۔ اُن کی زندگی کا تیسرا سبق ہے سچی اور بے لوث حب الوطنی۔ اور آخری اور سب سے اہم سبق ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے دوسروں کا دکھ درد محسوس کرو اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش کرو۔
جیسا کہ کالم کے آغاز میں لکھا‘ اُن کی زندگی کا عنوان ''شدتِ احساس‘‘ ہے۔ یہ شدتِ احساس پختگی کی منازل طے کرتے ہوئے آخری سانس تک اُن کے ساتھ رہی۔ اپنی وفات سے دو ہفتے قبل طارق عزیز نے فرنٹ لائن پر کورونا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے پُرجوش روایتی طنطنہ کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کیا۔ اُنہوں نے ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل سٹاف کیلئے ایک ولولہ انگیز آزاد نظم بھی لکھی‘ کہا کہ ان کی محنت‘ ان کے رت جگے اور ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور ہمیں کورونا سے نجات مل جائے گی۔
اپنی وفات سے صرف ایک روز پہلے طارق عزیز نے سوشل میڈیا پر بڑی دردمندی سے لکھا: یوں لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے، رواں دواں زندگی رک گئی ہے، کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی، نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے، ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی (16 جون 2020ء شام)۔ دیکھئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کی حقیقت کو کتنے دلکش پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو... جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ اللہ مرحوم کی حسنات قبول فرمائے، اُن کی سیئات سے درگزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین!

 
Columnist
Dr. Hussain Ahmed Paracha
Column date
Jun 20, 2020

Back
Top