Mujhe Kyun Nikala Se Main Ne Kyun Nikala Tak By Imran Yaqoob Khan

مجھے کیوں نکالا‘‘ سے ’’میں نے کیوں نکالا‘‘ تک .....عمران یعقوب خان

گزشتہ کالم میں نوازشریف کی لندن روانگی کے کچھ تجزیاتی پہلو عرض کئے تھے کہ یہ معاملہ دراصل حکومت کی مس ہینڈلنگ تھی۔ حکومت اس حوالے سے دبائو برداشت نہ کر سکی اور گھبراہٹ میں وہ تمام اقدامات کر ڈالے جس سے سابق وزیراعظم سزا یافتہ ہونے کے باوجود بغرض علاج ملک سے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت پر اپنے ہی حکومتی وزرا کی جانب سے شکوک و شبہات کا برملا اظہار بھی کیا گیا۔ اب یہی بات ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہی بلکہ اعتراف کیا کہ نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجنا ایک غلطی تھی جو ان سے سرزد ہوئی؛ البتہ انہوں نے اس غلطی کا ذمہ دار میڈیا کو ٹھہرایا۔ بقول وزیراعظم میڈیا نے یہ تاثر دیاکہ شاید نواز شریف مرنے والے ہیں‘ دوسری طرف عدالت بھی ہم سے نواز شریف کی زندگی کی ضمانت مانگ رہی تھی لہٰذا ہمارے پاس راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کو بیرون ملک جانے دیا جائے۔ دوسرا اعتراض ان کا نظام عدل کے دوہرے معیار پر تھا جس میں امیر کے لئے الگ قانون اور غریب کے لئے الگ قانون ہے۔ میرے خیال میں حکومت دراصل ذمہ داری قبول کرنے کا نام ہے جو عمران خان بطور وزیراعظم شاید نہیں کر پا رہے اور پچھلے دو برسوں میں ہونے والے تمام واقعات کو اپوزیشن، میڈیا، مافیا یا پھر عدالتوں سے جوڑ کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اب بھی وہ مستقل مزاجی سے اپنے احتسابی نعرے پر قائم ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔ جناب سب چاہتے ہیں کہ آپ این آر او نہ دیں اور یہ عملاً نظر بھی آنا چاہئے لیکن جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ان کی اس بات کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ اب عوام ان سے پی ٹی آئی کی حکومت کی پرفارمنس کا سوال کررہے ہیں؟ دو سال مکمل ہونے پر اپوزیشن نے حکومتی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے تو حکومتی کارکردگی پر اپنے وائٹ پیپر کو ڈسٹرکشن آف نیشنل پاورکا نام دیا ہے۔ اس وائٹ پیپر میں مسلم لیگ ن کی طرف سے سخت تنقید کرتے ہوئے حکومت پر سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ حکومتی ناقدین وزیر اعظم عمران خان کی سابق وزیر اعظم نوازشریف کے حوالے سے فرسٹریشن کو دیکھ کر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کا سفر ''میں نے کیوں نکالا‘‘ پر پہنچ چکا ہے۔ یہ ناقدین خارجہ امور پر حکومتی کارکردگی سے خوش نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خارجہ امور میں حکومت کی جانب سے کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے کئی بار مقتدر حلقوں کو میدان میں آنا پڑا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے برادر اسلامی ممالک کے دورے کر کے معاملات کو سلجھایا۔
اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے مطابق حکومت غیر معمولی حمایت کے باوجود کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے اور دو برسوں میں تحریک انصاف نے اپنی نااہلی، ناکامیوں اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ نون لیگ کے وائٹ پیپر کے مطابق خارجہ محاذ پر حکومت بری طرح ناکام رہی‘ بھارت کو خوش کرنے کی پالیسی نے مودی کو یہ شہ دی کہ وہ کشمیریوں پر شب خون مارے‘ جو72 برسوں میں نہ ہو سکا وہ اس دور میں ہوا‘ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کے باعث ہم ملائیشیا کے رہے‘ نہ سعودی عرب کے۔ کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو کی سہولت کاری، سی پیک جیسے لائف لائن منصوبے کو نقصان پہنچانا، امریکہ سے بنا فائدے کے تعلقات، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں قومی سلامتی کے معاملے پر سمجھوتہ اور اس ڈیل میں منی لانڈرنگ کو براہ راست ایف اے ٹی ایف کے ساتھ جوڑنا بھی حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے‘ آزادی اظہار رائے سے لے کر عدلیہ کی آزادی، وفاقی نظام، پارلیمانی نظام کی حاکمیت اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق تک کو سلب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ نون لیگ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے خود اور وزرا نے 18ویں ترمیم اور فنانس کمیشن کے خلاف متعدد بار بیانات دیئے جبکہ سندھ میں منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے 'آئینی آپشنز‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے آئین پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی گئی۔ وائٹ پیپر میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کا اپوزیشن کو ہراساں کرنے اور دبانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلوں، یورپی یونین کی آبزرویشن اور ہیومن رائٹس واچ کے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین سے بدلہ لے رہی ہے اور ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔ اس پیپر کے مطابق 2014ء سے لے کر 2018ء تک عام آدمی کی آمدن میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ دو برس میں یہ 16 فیصد تک کم ہو گئی مطلب 1652 ڈالر سے کم ہو کر یہ 1388ڈالر رہ گئی۔ ان دو سالوں میں معیشت کا حجم 315 بلین ڈالر سے کم ہو کر 264 بلین ڈالر رہ گیا۔ اپوزیشن کے مطابق حکومتی ناکام معاشی پالیسیوں نے 2 برسوں میں ملکی خزانے کو 51 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ وائٹ پیپرکی ایک جھلک دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ جتنی محنت مسلم لیگ ن نے یہ حقائق جمع کرنے میں خرچ کی ہے اگر اس سے آدھی اپوزیشن اتحاد پر کرتی تو حکومت پر دبائو ڈال کر اسے کارکردگی دکھانے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بظاہر تو ایک پیج پر نظرآتی ہیں اور دونوں ہی حکومت مخالف جماعتیں ہیں لیکن اندر سے مفاداتی سیاست کی جڑیں دونوں کے لئے کسی ایک ایجنڈے پر اکٹھا ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مولانا فضل الرحمن ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ اپوزیشن کی 10 چھوٹی جماعتوں کا اجلاس 27 اگست کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کی رہائش گاہ پر ہوا، مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ اجلاس میں نیشنل پارٹی اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جے یو پی، قومی وطن پارٹی، جمعیت اہلحدیث، حکومت سے الگ ہونے والی جماعت بی این پی مینگل، بی این پی عوامی کے میر اصراراللہ کو بھی بلایا گیا؛ البتہ جماعت اسلامی نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی جس سے یہ لگ رہا ہے کہ جماعت اسلامی اپنا الگ راستہ بنانا چاہتی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے پاس بھی کمٹڈ کارکن ہیں اور اگر حالات سازگار ہوں تو اچھا پاور شو کر سکتی ہے۔ یوں یہ اپوزیشن کی 9 چھوٹی جماعتوں کا اجلاس تھا جس کی کوئی خبر باہر نہیں آئی‘ نہ ہی کوئی اعلامیہ جاری کیا گیا، لیکن کچھ واقفان حال کے مطابق اجلاس میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے دہرے رویے اور مفاداتی سیاست پر بات چیت کی گئی اور غورکیا گیا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو اپوزیشن کی ان چھوٹی جماعتوں کے پاس کیا لائحہ عمل ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف محرم کے بعد اے پی سی میں شرکت کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن اگر اپوزیشن جماعتوں میں باہمی اعتماد کی کمی برقرار رہی تو یہ اے پی سی بھی ''نشستند‘ گفتند‘ برخاستند‘‘سے زیادہ نتائج نہیں پیدا کرسکے گی؛ تاہم اس سے پہلے رہبر کمیٹی کا اجلاس بڑی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس اجلاس میں 9 چھوٹی جماعتوں کی حکمت عملی اور 2 بڑی جماعتوں سے مطالبات سامنے آئیں گے۔ اسی طرح اگر رہبر کمیٹی میں مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور نہ کئے گئے تو شاید یہ اے پی سی شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو جائے۔ ستمبر کا مہینہ حکومت اور اپوزیشن کیلئے بڑا اہم ہے۔ بازی کون پلٹے گا اس کا انحصار فیصلوں پر ہوگا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف پر قانون سازی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا کردار بہت سی دوررس تبدیلیوں کی راہ متعین کرے گا۔
 
Columnist
Imran Yaqoob Khan
Column date
Aug 31, 2020
@intelligent086
آج تو سب کچھ حیران کن ہے
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

Back
Top