Ghazal Mushtaq Ajiz ki Chand Ghazlein

Asad Rehman

Asad Rehman

Super Star Pakistani
16
 
Messages
13,866
Reaction score
33,100
Points
1,451
پکڑ کے ہاتھ مرا صبح دم نکلتا ہے
گلی گلی وہ مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

وہ میرے ساتھ سلگتا ہے سرد راتوں میں
مرے بدن میں وہی بارشوں میں جلتا ہے

جلائے رکھتا ہے غم کا الاؤ سینے میں
اُسی کا درد مرے آنسوؤں میں ڈھلتا ہے

تمام رات مرے ساتھ نرم بستر پر
تھکن سے ُچور وہی کروٹیں بدلتا ہے

کوئی جو ایک نظر ہنس کے دیکھ لے اُس کو
تو میرے من کی طرح بے طرح مچلتا ہے

یہ کون میری طرح ہی کا شخص ہے عاجزؔ
جو گر پڑے تو بہت دیر میں سنبھلتا ہے


@Recently Active Users
 
بے اماں بستی میں کوئی بے خطر جاتا رہا
سر ہتھیلی پر لیے دشمن کے گھر جاتا رہا

اب بھلا اُس کی قدم بوسی گوارا کیوں کریں
سر کے بل جن راستوں پر عمر بھر جاتا رہا

سامنا اِک بار کیا اِک دشمنِ جاں کا ہوا
دو گھڑی میں جان سے جانے کا ڈر جاتا رہا

مرحلہ تھا عظمتِ انسان کی تکریم کا
حرمتِ دستار کے صدقے میں سر جاتا رہا

ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے زندگی آتی رہی
زندگی سے ُچھپ کے دیوانہ جدھر جاتا رہا

اتنی عجلت میں سمیٹا اُس نے سامانِ سفر
گھر میں یادوں کا اثاثہ چھوڑ کر جاتا رہا

خون کی ّحدت گئی ، جذبات کی ّشدت گئی
آ گئی منزل تو سامانِ سفر جاتا رہا

حسرتِ پرواز تھی عاجزؔ قفس کی قید تک
پر کھلے تو اعتبارِ بال و َپر جاتا رہا
 

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں
موسمِ گل میں بھی اندر سے مرے رہتے ہیں

تم کو آنا ہو تو آ جاؤ مگر یاد رہے
ہم ذرا اپنے زمانے سے پرے رہتے ہیں

ہاں کبھی اپنے بھی ہمسائے ہوا کرتے تھے
اب تو ہم اپنے ہی سائے سے ڈرے رہتے ہیں

جیسے دیوار پہ رکھے ہوئے بے ُنور چراغ
ایسے کچھ سر بھی تو شانوں پہ دھرے رہتے ہیں

ہے مگر چاند کی خواہش بھی اُنھی کو زیبا
جن کے کشکول ستاروں سے بھرے رہتے ہیں

اُن کو ُسولی پہ کہ نیزے پہ سجا دو عاجزؔ
جو کھرے ہیں وہ بہ ہر حال کھرے رہتے ہیں
 
غم کا بادل تری زلفوں سے گھنیرا نکلا
سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا

سو گئے چاند ستارے تو اُجالا جاگا
چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا

اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں
ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا

نیند نے لوٹ لیے خواب خزانے میرے
جس کو آنکھوں میں بسایا تھا ُلٹیرا نکلا

ٹوٹ کر ظلم کی دیوار زمیں بوس ہوئی
چاند جب توڑ کے ظلمات کا گھیرا نکلا

میں تو سمجھا تھا کہ ویران ہے دل کی بستی
اس خرابے میں بھی اِک وہم کا ڈیرا نکلا

شہر چھوڑا تھا تجھے دل سے بھلانے کے لیے
قریہ قریہ تری یادوں کا بسیرا نکلا

ایک دشمن جو ملا ہے تو میں کتنا خوش ہوں
شہرِ احباب میں اِک شخص تو میرا نکلا

دل کو ہمدرد سمجھ رکھا تھا عاجزؔ میں نے
کیا قیامت ہے یہ بے درد بھی تیرا نکلا
 
زمیں پہ چاند اُترتا ہے میں نے دیکھا ہے
مری گلی سے گزرتا ہے میں نے دیکھا ہے

نظر کلام بھی کرتی ہے آنکھ والوں سے
پیام دل میں اُترتا ہے میں نے دیکھا ہے

ہوائیں گیت بھی گاتی ہیں تم سنو تو سہی
سحاب رقص بھی کرتا ہے میں نے دیکھا ہے

جو سانس لے تو ہوا میں مہک بکھرتی ہے
وہ پھول آہ بھی بھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

نقاب جب بھی اُلٹتے ہیں ضوفشاں چہرے
فضا میں ُنور بکھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

کسی کو کیسے محبت سے کوئی تکتا ہے
نصیب کیسے سنورتا ہے میں نے دیکھا ہے

زباں پہ حرف نہ آئے تو دل کی باتوں کا
جبیں پہ نقش اُبھرتا ہے میں نے دیکھا ہے

جو میرا ساتھ نبھاتا ہے شام تک عاجزؔ
وہ سایہ رات سے ڈرتا ہے میں نے دیکھا ہے
 
Back
Top