Must Read | Corona Virus in Pakistan

کرونا وائرس ہے بھی یا صرف ایک مغربی انتشار ہے؟
تحریر:۔مسعود انور

coronavirus hits pakistan.jpg


جناب مسعود انور صاحب نے کرونا وائرس کے حوالے سے جو معلومات عوام کے ساتھ شیئر کی ہیں وہ کافی غور طلب بھی ہیں، حوصلہ افزا بھی ہیں اور لمحہ فکریہ بھی۔ اس تحریرکی اہمیت کے پیش نظر اس کو معمولی اخذ واختصار کے ساتھ اور صاحب مضمون کے شکریہ کے ساتھ دوبارہ عوام کے ساتھ شیئر کیا جارہا ہے تاکہ عوام اس کورونا وائرس کے سحر سے باہر نکل سکے اور اپنی روز مرہ کی مصروفیات کو بخوبی سرانجام دے سکے۔
(اخذواختصار:۔خوشی محمد انصاری)

پاکستان میں دو شہری کورونا وائرس کا شکار پائے گئے تو پورے ملک میں تھرتھری دوڑ گئی۔سوشل میڈیا پر اس مرض سے بچاؤ کےلئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ٹوٹکے بھی وائرل ہونا شروع ہوگئے اورمفت مشوروں کی بھرمار بھی کہ ہجوم میں نہ جائیں ، باہر کا کھانا نہ کھائیں ، لوگوں سے ہاتھ نہ ملائیں ، ہر تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ دھوتے رہیں ،گلا خشک نہ ہونے دیں بار بار پانی پیتے رہیںوغیرہ وغیرہ۔اس اطلاع کے ساتھ ہی شہریوں نے ماسک خریدنے کےلئے میڈیکل اسٹوروں کا رخ کیا تو وہاں ماسک ختم ہوگئے ، بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں 15 مارچ تک جبکہ کراچی کے تعلیمی ادارے یکم مارچ تک بندکردیئے گئے۔ سعودی عر ب نے بھی فوری طور پر پاکستان سے آنے والے زائرین پر پابندی عائد کردی گئی ۔پاکستانی قوم کےلئے یہ ڈوب مرجانے کا مقام ہے کہ کراچی میں کرونا وائرس کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی دکانداروں نے سرجیکل ماسک کی قیمت 80 روپے سے 400 روپے اور میڈیکیٹڈ ماسک کی قیمت 1200سے3000 روپے تک بڑھا دی گئی۔ایسے دکاندار اور کاروبار کرنے والوں پراللہ کی لعنت ہو۔حالانکہ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ وبا کے دوران ایسی چیزوں پر اپنا کاروبار چلانے والے منافع خور جہنم کی آگ میں جلیں گے۔

بہر حال کورونا وائرس کے بارے میں مختصر طور پر عرض ہے کہ یہ وائرس انسان کے ہاتھوں لیبارٹری میں بنایا گیا جرثومہ ہے جسے خسرہ اور ممز کے دو جرثوموں سے ملا کر بنایا گیا ہے۔ اسے امریکا میں پیٹنٹ کیا گیا تھا جس کا پیٹنٹ نمبر 10,130,701 ہے۔ اس وائرس کا تعلق سارس اور انفلوئنزا کے خاندان سے ہے اور اس کی علامات اور تکلیفات بھی سارس اور فلو جیسی ہی ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی بہت سی بیماریاں موجود ہیںجو کورونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ جاں لیوا ہیں۔اس سلسلے میں فلو ہی کی مثال لے لیجئے کہ صرف امریکا میں ہی فلو سے اب تک 14 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ علاج معالجے کےلئے ڈھائی لاکھ افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا2017 میں امریکا میں فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 80 ہزار تھی۔ اسی طرح ہر سال دنیا بھر میں صرف ملیریا سے مرنے والے افراد کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے مگر ان امراض کے بارے میں نہ تو کبھی ایسا ماحول بنایا گیا اور نہ ہی اس کے بچاؤ کے نام پر ملک کا محاصرہ کرنے جیسی کیفیت سامنے آئی جوکہ اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حالانکہ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ہلاکت کی شرح دو تا تین فیصد ہے جو کہ قابل تشویش نہیں ہے۔قابل تشویش بات یہ ہے کہ کورونا وائرس ہر لحاظ سے منفرد ہتھیار ہے ایک تو یہ جراثیمی ہتھیار ہے جس کا ٹیسٹ کامیابی سے کیا گیا اس کا دوسرا پہلو زیادہ خوفناک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے بچاؤ کے نام پر پورے ملک کا مقاطعہ کردیا گیاہے۔یعنی چین کے اندر پانچ کروڑ سے زائد افرادکو کورونا کے نام پر قید کردیا گیاہے اور پوری دنیا میں چینی باشندوں کو کورونا وائرس کا نعم البدل سمجھ لیا گیاہے۔ امریکا اور یورپ میں مقیم چینی باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہوگئے ہیں حالانکہ یہ چینی باشندے کئی برسوں سے چین گئے بھی نہیں تھے۔ یوکرین میں وہاں کے باشندوں نے ایک ایسی بس پر پتھراؤ¿ کردیا جس میں چین سے واپس آنے والے یوکرین کے باشندوں کو احتیاط کے طور پر قرنطینہ لے جایا جارہا تھا۔ کروز شپ پر موجود تین ہزار افراد کو کوئی ملک اپنی بندرگاہ کورونا وائرس کے خوف سے اترنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کروز شپ پر موجود ہرفرد کے اترتے ہی کورونا وائرس تیزی سے پھیل جائے گا اور سارے مقامی باشندے اس کی لپیٹ میں آکر مرجائیں گے۔
الغرض کورونا وائرس کے نام پربڑی عجیب وغریب تصاویر سامنے آتی ہیں۔ خصوصاً سفید لباس پہنے کئی افراد پراسرار انداز میں کہیں مصروف ہیں اس تصویر کے نیچے کیپشن لگا ہوتا ہے کہ کورونا کے خلاف حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے۔ کیا کوروناوائرس کوئی کتے بلی کی طرح کی مخلوق ہے جو اسے یوں ڈھونڈھاجا رہا ہے۔ کوروناوائرس کے نام کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب تصور یہ بھی پھیلا دیا گیا ہے کہ جیسے وہ ہر طرف فضا میں موجود ہے اور ہر شخص کے تعاقب میں ہے۔یاد رکھئے اس تاثر کو پھیلانے میں شعبہ طب سے وابستہ افراد اور ان کی ایسوسی ایشنیں پیش پیش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی وائرس ہو وہ ہوا میں زندہ رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ فوری طور پر مرجاتا ہے۔ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کےلئے جسمانی رابطہ ضروری ہے یا کم از کم کھانسی اور چھینکنے کے دوران رطوبت براہ راست دوسرے شخص کی سانس کے ذریعے اندر داخل ہونا ضروری ہے۔

مگر یہاںہر کچھ دن کے بعد کسی نہ کسی ملک میں کورونا دریافت کرلیا جاتا ہے اور بعدازاں یہ کھیل شروع کردیا جاتا ہے جوکہ اب پاکستان میں کھیلا جارہا ہے۔ جنوبی کوریا اور اٹلی چونکہ طاقتور ہیں اسلئے ان کا مقاطعہ نہیں کیا گیا مگر ایران کے ساتھ دوسری صورتحال ہے۔ اب یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہونے کے اندیشے ظاہر ہورہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں بڑی عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی۔ کراچی کا یحییٰ جعفری اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک گروپ میں بذریعہ ہوائی جہاز ایران کی زیارتوں کےلئے 6 فروری کو تہران پہنچا اور 20 فروری کو واپس کراچی آیا 25 فروری کو اسے نزلہ ، زکام اور بلغم والی کھانسی کی شکایات ہوئی اور 26 فروری کو آغا خان اسپتال میں اسے داخل کیاگیا 27 فروری کی شام کو ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز حکومت سندھ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ یحییٰ جعفری میں کورونا وائرس تشخیص ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی جاری کردہ رپورٹ میں لیبارٹری رپورٹ کے سامنے لکھا ہوا ہے کہ رپورٹ کا انتظار ہے۔اسی طرح اسلام آباد میں دوسرے مریض کا انکشاف ہوا مگر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق مشتبہ مریض کے کم ازکم دو نمونے تشخیص کےلئے لئے جانے چاہئیں۔ یہ نمونہ جات تنفس کی نالی کے بالائی اور زیریں حصے کی رطوبت کے اور بلغم کے ہونے چاہئیں مگر آغا خان اسپتال کراچی میں داخل مریض کا تنفس کی نالی کے بالائی حصے کی رطوبت کا صرف ایک ہی نمونہ لیبارٹری کو بھجوایا گیا جس کی رپورٹ بھی نہیں آئی تھی کہ مریض کا اعلان کردیا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی معیار کے مطابق اگر پہلا ٹیسٹ مثبت آئے تو ملتے جلتے گیارہ وائرسوں کی تشخیص کےلئے مزید ٹیسٹ کرنے چاہئیں کیونکہ فلو HN1اور دیگر بیماریوں کی علامات اور ٹیسٹ کی رپورٹ بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں اس لئے اعلان کرنے سے قبل توقف کرنا چاہیے مگر کراچی کے کیس میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔

دراصل پاکستان میں ایک مافیا ہے جو ہر طریقے سے اور ہر قیمت پر مال بنانے پر یقین رکھتی ہے پاکستان میں کورونا وائرس کے نام پر تواربوں روپے ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔ ماسک ، قرنطینہ ، سرکاری اداروں میں ٹیسٹ وغیرہ تو اس مافیا کےلئے سونے کی کان ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیاہے اس میں بیرونی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت سے ہر برس پاکستان سے زیادہ زائرین ایران جاتے ہیں مگر وہاں پر ایسی کوئی ہڑبونگ ہے اور نہ ہی وہاں پرعمرہ زائرین پر پابندیاں لگنی شروع ہوئی ہیں۔لہٰذااس پر بحیثیت قوم ہمیں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

دنیاپر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے سازشوں سے ہمیں باخبر ہونا چاہئے اور ان کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے خود بھی ہوشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
السلام علیکم...
کل شام سے کرونا وائرس والی خبر کو لے کر پوری قوم پریشان سی ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ تو کرونا وائرس والی خبر کو ایسے بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسے خدا نہ خواستہ قیامت آ گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب الحمد للہ مسلمان ہیں ہمارا ایمان ہے کہ جو بیماری آتی ہے اسکی شفاء پہلے اتاری جاتی ہے
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر ہو ہی نہیں سکتی اس لیے پریشان نہ ہوں مرنا تو اپنے مقررہ وقت پر ہی ہے
تیسری بات یہ ہے کہ دین اسلام پر مکلمل چلنے سے ہر بیماری مصیبت تکلیف پریشانیوں وغیرہ سے بچا جا سکتا ہے
لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور ہاں درود پاک کا ورد کرتے رہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ان شاءاللہ
اگر ان باتوں پر یقین ہے تو پوسٹ کو خوب شئیر کریں
لوگوں کو حوصلہ دیں ڈرائیں نہیں۔۔ جزاک اللہ
Copied #
@Recently Active Users @Recently Joined Users
 

@Angelaa
وعلیکم السلام
اس سے مجرب علاچ نہیں ہو سکتا یہیں پر درود پاک کی برکات کے نام سے ایک فیچر تھا اسے پھر پڑھ لیں
 
پاکستان میں دو شہری کورونا وائرس کا شکار پائے گئے تو پورے ملک میں تھرتھری دوڑ گئی۔سوشل میڈیا پر اس مرض سے بچاؤ کےلئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ٹوٹکے بھی وائرل ہونا شروع ہوگئے اورمفت مشوروں کی بھرمار بھی کہ ہجوم میں نہ جائیں ، باہر کا کھانا نہ کھائیں ، لوگوں سے ہاتھ نہ ملائیں ، ہر تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ دھوتے رہیں ،گلا خشک نہ ہونے دیں بار بار پانی پیتے رہیںوغیرہ وغیرہ۔اس اطلاع کے ساتھ ہی شہریوں نے ماسک خریدنے کےلئے میڈیکل اسٹوروں کا رخ کیا تو وہاں ماسک ختم ہوگئے ، بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں 15 مارچ تک جبکہ کراچی کے تعلیمی ادارے یکم مارچ تک بندکردیئے گئے۔ سعودی عر ب نے بھی فوری طور پر پاکستان سے آنے والے زائرین پر پابندی عائد کردی گئی ۔پاکستانی قوم کےلئے یہ ڈوب مرجانے کا مقام ہے کہ کراچی میں کرونا وائرس کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی دکانداروں نے سرجیکل ماسک کی قیمت 80 روپے سے 400 روپے اور میڈیکیٹڈ ماسک کی قیمت 1200سے3000 روپے تک بڑھا دی گئی۔ایسے دکاندار اور کاروبار کرنے والوں پراللہ کی لعنت ہو۔حالانکہ قرآن میں صاف صاف لکھا ہے کہ وبا کے دوران ایسی چیزوں پر اپنا کاروبار چلانے والے منافع خور جہنم کی آگ میں جلیں گے۔
سنسنی پیدا کرنا تو ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا پسندیدہ شغل ہے اگر کوئی بھی قدرتی آفت آتی ہے تو اکثریت پوری ایمانداری کے بے ایمانی کرتی ہے۔۔۔۔۔
قرآن پاک کی ہر بات دانائی اور حکمت پر مبنی ہے اسپر تو زرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کل شام سے کرونا وائرس والی خبر کو لے کر پوری قوم پریشان سی ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ تو کرونا وائرس والی خبر کو ایسے بنا کر پیش کر رہے ہیں جیسے خدا نہ خواستہ قیامت آ گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم سب الحمد للہ مسلمان ہیں ہمارا ایمان ہے کہ جو بیماری آتی ہے اسکی شفاء پہلے اتاری جاتی ہے
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر ہو ہی نہیں سکتی اس لیے پریشان نہ ہوں مرنا تو اپنے مقررہ وقت پر ہی ہے
تیسری بات یہ ہے کہ دین اسلام پر مکلمل چلنے سے ہر بیماری مصیبت تکلیف پریشانیوں وغیرہ سے بچا جا سکتا ہے
لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور ہاں درود پاک کا ورد کرتے رہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ان شاءاللہ
اگر ان باتوں پر یقین ہے تو پوسٹ کو خوب شئیر کریں
لوگوں کو حوصلہ دیں ڈرائیں نہیں۔۔ جزاک اللہ
بے شک
اللہ تعالٰی سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔۔۔۔۔۔۔
آمین یا رب العالمین
 
دراصل پاکستان میں ایک مافیا ہے جو ہر طریقے سے اور ہر قیمت پر مال بنانے پر یقین رکھتی ہے پاکستان میں کورونا وائرس کے نام پر تواربوں روپے ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔ ماسک ، قرنطینہ ، سرکاری اداروں میں ٹیسٹ وغیرہ تو اس مافیا کےلئے سونے کی کان ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیاہے اس میں بیرونی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت سے ہر برس پاکستان سے زیادہ زائرین ایران جاتے ہیں مگر وہاں پر ایسی کوئی ہڑبونگ ہے اور نہ ہی وہاں پرعمرہ زائرین پر پابندیاں لگنی شروع ہوئی ہیں۔لہٰذااس پر بحیثیت قوم ہمیں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

دنیاپر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے سازشوں سے ہمیں باخبر ہونا چاہئے اور ان کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے خود بھی ہوشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
@Angelaa
پس پردہ محرکات سے آگاہ کرنے کا شکریہ
اللہ رب العزت سب کو ہر طرح کے مرض سے محفوظ سے رکھے۔۔۔۔
 
Back
Top