Quran Hadith Na'kaami ke Asbaab By Mufti Muhammad Yusuf Kasmiri

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ناکامی کے اسباب ...... تحریر : مفتی محمد یوسف کشمیری

na'kaami.jpg

مسلمان اپنے ہر مسئلے کا حل کتاب و سنت میں تلاش کرتا ہے۔ ہماری پریشانیوں کے اسباب بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتلائے ہیں

دنیا میں وسائل یا صلاحیتوں کے اعتبار سے اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ اس کے باوجود ہر طرف پریشانی ہے، غم ہے، عزتیں پامال ہو رہی ہیں، مسلمان قتل ہو رہے ہیں، ملکوں کو تخت و تاراج کیا جا رہا ہے۔ کہیں بھی سکون نہیں۔ اخلاقیات کے اعتبار سے امت مسلمہ پستی کا شکار ہے۔ آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ آپ میڈیا پر مختلف قسم کے تجزئیے، تبصرے پڑھتے ہوں گے۔ ہر انسان اپنے علم اور اپنی معلومات کے دائرے میں لکھ رہا ہے۔ کوئی اس زوال کے اسباب کو غربت قرار دے رہا ہے۔ بعض لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہنے کو زوال کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
مسلمان اپنے ہر مسئلے کا حل کتاب و سنت میں تلاش کرتا ہے۔ ہماری پریشانیوں کے اسباب بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتلائے ہیں۔ یقیناً انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اس کی شکل و صورت اللہ نے بنائی ہے۔ اس کرہ ٔارض کا نظام اللہ نے بنایا اور چلا رہا ہے۔ اس کے لیے دستور، منشور اور عروج و زوال کے اسباب بھی اللہ نے ہی بیان فرمائے ہیں۔ اگرچہ جہالت بھی ایک اہم سبب ہے۔ غربت اور مہنگائی بھی ہے اور اسی طرح جدید اسباب اور وسائل کے اعتبار سے بھی مسلمان قدرے پیچھے ہیں۔ لیکن یہ ہماری پستی اور زوال کے اسباب نہیں ہیں، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم ؑ سے لے آخری رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اللہ نے قرآنِ حکیم میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان، ان کے قصے اور واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ نے بھی اس پر اپنی امت کی رہنمائی کی ہے۔ ہر دور میں حق والے، دین پر استقامت اختیار کرنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے رہے ہیں۔ وسائل بھی ان کے پاس کم ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کسی بھی دور میں مسلمان ان اسباب کی وجہ سے پستی کا شکار نہیں ہوئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ فرماتے ہیں'' کتنی کمزور جماعتیں (قلیل تعداد میںاور قلیل وسائل کے با وجود) اللہ کے حکم سے مضبوط اور کثرت والی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ: 249) غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کے مقابلے میں 1000 مشرکین تھے۔ اُدھر کیل کانٹے سے لیس لشکر تھا اور اِدھر فولادی تلواروں کے مقابلے میں کئی صحابہ کرام ؓکے ہاتھ میں کھجور کی چھڑیاں تھیں۔ اسی طرح احد میں دیکھ لیجیے، خندق میں دیکھ لیجیے، مشکل حالات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود کامیابی و کامرانی مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔
آپ مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں اور اس کا اچھی طرح جائزہ لیں اور مطالعہ کریں۔ حقائق پر نظر رکھیں، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ وسائل کی کمی مسلمانوں کی پستی کے اسباب میں سے نہیں ہے۔ دراصل سب سے بڑی کمزوری ہمارے عقیدے اور ایمان کی کمزوری ہے۔ قرآنِ کریم میں کتنی آیتیں ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ ان کو غلبہ ملے گا، عزت ملے گی، حکومتیں ملیں گی، زمین میں اقتدار ملے گا، اِن کا سکہ چلے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان عقائد میں پختہ اور ایمان میں مضبوط ہوں۔ شرک اور بدعات و خرافات کا مسلمانوں میں آ جانا، مسلمانوں کی ذلت اور رسوائی کا بڑا سبب ہے، جس پر آج ہم غور و فکر نہیں کرتے۔ نبی کریمﷺ کی نافرمانی اور ان کی احادیث سے روگردانی، اللہ کے نبیﷺ کی سیرت سے دوری، یہ تمام زوال کے بڑے اسباب ہیں۔ قرآنِ کریم میں بالکل واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے:ترجمہ '' ڈرجائیں، باز آجائیں وہ لوگ جو احادیث کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر نہیں باز آئیںگے تو پھر یہ سن لیں کہ ان کو فتنے میں مبتلا کردیا جائے گا۔‘‘(سورۃ النور: 63) آج امت مسلمہ فتنوں میں مبتلا ہے۔
آپ اس واقعے پر غور کریں کہ غزوہ احد میں اللہ کے نبیﷺ نے 50 آدمی ایک مورچے پر بٹھائے اور فرمایا '' جب تک میرا حکم نہ آجائے آپ نے یہ مورچہ نہیں چھوڑنا۔ جب آپ یہ دیکھیں کہ دشمن بھاگ گیا تب بھی آپ نے میرے حکم کا انتظار کرنا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی دی، فتح نصیب ہوئی، مالِ غنیمت سمیٹا جانے لگا تو مورچے پر جو لوگ تھے وہ پہاڑی سے دیکھ رہے تھے کہ دشمن بھاگ رہاہے، میدان خالی ہو گیا ہے اور مالِ غنیمت سمیٹا جا رہا ہے، لہٰذا اب یہاں رہنے کا فائدہ نہیں، چلیں نیچے اترتے ہیں۔ امیر نے سختی سے منع کیا کہ نہیں یہ اللہ کے نبیﷺ کی مخالفت ہے۔ آپؐ کے حکم کا ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن بعض افراد نے اختلاف کیا اور کہا کہ دشمن بھاگ گیا ہے، لہٰذا نیچے اترتے ہیں۔ 40 آدمی نیچے اترگئے۔ خالد بن ولید، جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، نے دیکھا کہ مورچہ خالی ہو گیا ہے تو انہوں نے موقع پاکر حملہ کردیا۔ 10 صحابہؓ پہلے ہی وار میں شہید ہو گئے چنانچہ ایک طرف جبلِ احد ہے اور دوسری طرف جبلِ رماۃ۔ آگے سے ابو سفیان کے پیدل لشکر نے حملہ کیا اور جبلِ رماۃ کے پیچھے سے خالد بن ولید نے شہ سواروں سمیت حملہ کر دیا جس سے مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہو گئیں۔ اللہ کے نبیﷺ زخمی ہو گئے۔ 70صحابہ کرام ؓ شہید ہو گئے بے شمار لہولہان اور زخمی ہو گئے۔ یہ کیوں ہوا؟ یہی سوال صحابہ کرام ؓ کے ذہن میں آیا کہ فتح شکست میں کیسے بدل گئی؟ یہ کیوں ہوا اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا اللہ کے نبیﷺ ہماری صفوں میں موجود نہیں؟ اللہ نے فرمایا:'' اے نبیﷺ انہیں بتا دیجیے کہ یہ تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔‘‘(سورۃ العمران: 165) نبی کریمﷺ کے حکم کی، ان کے فرامین کی مخالفت اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں۔
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا'' مرد کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے۔(ابو دائود: 4090) تکبر اللہ کی شان ہے، اللہ کی صفت ہے، اللہ کی خوبی ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ''یہ میری چادر ہے۔‘‘ (ابو دائود: 4081) کیونکہ اللہ سے بڑا کوئی نہیںلیکن آج ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم یہ تہیہ کر لیں کہ نبی کریمﷺ کی احادیث کی مخالفت نہیں کرنی۔ نبی کریمﷺ کی سنت کو، آپ ؐکی احادیث کو سینے سے لگا کر رکھنا ہے۔ امت مسلمہ مجموعی طور پر احادیث کو اختیار کرکے اس پر عمل کرنا شروع کردے تو ان کی صفوں میں انتشار اور ناکامی کی جگہ اللہ کی مدد شامل حال ہوجائے گی۔ جیسے سابقہ مسلمانوں کو غلبہ ملا باوجود اس کے کہ ان کے پاس وسائل نہیں تھے، صرف دین اسلام کے احکامات پر عمل کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ مضبوط تھا اور وہ نبی کریمﷺ کی احادیث پر عمل کرنے والے لوگ تھے۔ اللہ ہمیں اعمال صالحہ کو اپنانے اور ایمان و عقائد کی حفاظت کرنے والا مسلمان بنائے تاکہ ناکامیوں کے بجائے کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر بنے۔​
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ
اہم اور مفید دینی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top