Nashad Music Director By Abdul Hafeez Zafar

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
موسیقارناشاد
nashad.jpg

انہوں نے 60 سے زیادہ فلموں کی موسیقی دی، باکمال فنکار تھے
تحریر : عبدالحفیظ ظفر
تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی اک خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہیں بنتیطلعت محمود کی آواز میں گایا ہوا یہ لافانی گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ 1955ء میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’بارہ دری‘‘ کا یہ نغمہ خمار بارہ بنکوی نے لکھا اور اس کی دھن بنائی تھی ناشاد نے… بہت سے لوگ ناشاد کو نوشاد سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں نوشاد پہلے آئے اور ناشاد ان کے بعد آئے۔ وہ 40 اور 50 کی دہائی کے نامور سنگیت کار تھے۔ بھارت میں انہوں نے 27 فلموں کی موسیقی دی اور پھر وہ 1964ء میں پاکستان آگئے۔ناشاد کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ وہ 11 جولائی 1923ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ایک مقامی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اسی زمانے میں انہوں نے بانسری بجانا سیکھا۔ 40 کی دہائی کے شروع میں وہ ممبئی چلے گئے۔ وہ پہلے مختلف ناموں سے موسیقی دیتے رہے۔ کبھی شوکت دہلوی اور کبھی شوکت حیدری۔ بالآخر ہدایت کار نخشب نے ان کا نام ناشاد رکھا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ نخشب اپنی ایک فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی نوشاد سے دلوانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر نخشب نے شوکت دہلوی کو اپنی فلم کی موسیقی دینے کیلئے کہا اور ان کا نام ناشاد رکھ دیا تاکہ لوگ انہیں نوشاد ہی سمجھتے رہیں۔ لیکن ناشاد ایک ذہین موسیقار تھے اور انہوں نے اپنی الگ شناخت بنائی انہوں نے 1947ء میں ایکشن فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی دی۔ 1948ء میں انہوں نے فلم ’’جینے دو‘‘ کا میوزک دیا۔ 1948ء میں ہی انہوں نے فلم ’’پائل‘‘ اور ’’ٹوٹے تارے‘‘ کا سنگیت دیا۔ ان سب فلموں میں وہ شوکت دہلوی کے نام سے سامنے آئے۔ اس فلم میں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی شہرہ آفاق غزل کو موسیقی کا لباس پہنایا۔ اس غزل کے بول تھے ’’نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں‘‘ یہ غزل بہت مقبول ہوئی۔ 1949ء میں انہوں نے اداکار و ہدایت کار یعقوب خان کی فلم ’’آیئے‘‘ کی موسیقی دی۔ فلم ’’دادا‘‘ کی موسیقی دیتے ہوئے انہوں نے اپنا نام شوکت حیدری استعمال کیا۔ پھر 1953ء میں ہدایت کار نخشب نے ان کا نام ناشاد رکھ دیا جس کی وجوہات اوپر بیان کی جا چکی ہیں۔ یہ سارا قصہ نوشاد نے اپنی خود نوشت ’’نوشاد: ذرہ جو آفتاب بنا‘‘ میں تحریر کیا ہے…بھارت میں انہوں نے جن فلموں کی موسیقی دی، ان میں ’’ٹوٹے تارے، دادا، آیئے، نغمہ، چار چاند، بارہ دری، بڑا بھائی، زندگی یا طوفان، ہتھکڑی، قاتل، پیار کی داستان اور میں ہوں جادوگر‘‘ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ 1964ء میں ناشاد پاکستان آگئے۔ ان کے دوست نخشب یہاں پہلے ہی موجود تھے۔ انہوں نے اپنی فلم ’’میخانہ‘‘ شروع کی اور ناشاد کو اس کی موسیقی ترتیب دینے کیلئے کہا۔ یہ فلم باکس آفس پر تو اتنی کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے گیتوں نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ماسٹر غلام حیدر اور نثاربزی کے معاون کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کا ایک بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے رونا لیلیٰ جیسی گلوکارہ کو متعارف کرایا جنہوں نے اردو اور پنجابی کے بڑے عمدہ گیت گائے۔ ناشاد کے بعد رونا لیلیٰ کو نثاربزی جیسا موسیقار مل گیا جنہوں نے رونا لیلیٰ کی خداداد صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے ان سے بے مثل نغمات گوائے۔نوشاد نے بھارت اور پاکستان میں مجموعی طور پر 60 سے زیادہ فلموں کا سنگیت دیا… ان کی بہترین فلموں میں ’’بارہ دری (1955ء)، زندگی یا طوفان (1958ء)، مے خانہ (1964ء)، عظمت (1973ء)، ایک رات (1972ء)، تم ملے پیار ملا (1969ء)، سالگرہ (1969ء)، چاند سورج (1970ء)، افشاں (1971ء)، رم جھم (1971ء) بہارو پھول برسائو (1972ء)، نیا راستہ (1973ء)، سہرے کے پھول (1973ء) آبرو (1974ء)، دیدار (1974ء) زینت (1975ء)، پالکی (1975ء) اور ملن‘‘ (1978ء) شامل ہیں۔انہوں نے جن نغمہ نگاروں کے نغمات کو اپنی خوبصورت موسیقی سے یادگار بنایا ان میں خمار بارہ بنکوی، تسلیم فاضلی، قتیل شفائی خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ناشاد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ مقبول موسیقی پر یقین رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا وہ اس بات کے آرزومند ہیں کہ ان کے گیت گلی گلی اور گھر گھر گائے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے گیتوں میں پیچیدہ الاپ اور تانیں نہ ہوں۔ فلمی موسیقی کو مقبول بنانے کیلئے ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسیقار اور نغمہ نگار کی انا کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے یونٹ کے ہر فرد کی اچھی تجویز کو ماننا چاہیے۔ اگرچہ فلمساز کوئی پیشہ ور موسیقار نہیں ہوتے لیکن میں نے دو یا تین گیتوں کی موسیقی کو ان کی تجاویز پر رد کر دیا۔ میں موسیقی دیتے ہوئے اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے چاہے مجھے اپنی ترجیحات ہی کیوں نہ ترک کرنی پڑیں۔ ایک دفعہ گانا ریکارڈ ہو جائے تو ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے اب یہ ہدایت کار کا کام ہے کہ وہ اس گیت کو کیسے عکس بند کرتا ہے بعض اوقات ناقص عکس بندی پورے گیت کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔اب ہم ذیل میں ناشاد صاحب کے مشہور ترین گیتوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ویسے تو ان کے سپرہٹ گانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہاں ہم سب کا ذکر نہیں کرسکتے۔ناشاد صاحب کے 8 بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں۔ ان کے موسیقار بیٹے واجد علی ناشاد کا انتقال ہوچکا ہے ایک پوتا امیر علی ناشاد گلوکار ہے اور پوتا نوید ناشاد بھی سائونڈ ٹریک میں اپنا نام بنا چکا ہے۔ 14 جنوری 1981ء کو ناشاد صاحب اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
 

@intelligent086
اللہ تعالٰی مغفرت فرمائے آپ کے توسط سے ان کے بارے میں علم ہوا کسی چیز کا علم نہیں تبصرہ کیا کرنا
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top