Online Daketiyan By Ammar Chaudhry

آن لائن ڈکیتیاں ۔۔۔۔۔۔ عمار چوہدری

لاک ڈائون کی وجہ سے جب سے پاکستان میں آن لائن شاپنگ ‘ آن لائن ایجوکیشن اور دیگر پلیٹ فارمز کے رجحان میں تیزی آئی ہے‘ چوروں ڈاکوئوں نے اس پلیٹ فارم کو بھی نہیں بخشا۔ ایف آئی اے کے مطابق عیدکے دنوں میں آن لائن شاپنگ کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کروڑوں روپے کی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ پاکستانی وائرس سے بچنے کے لئے باہر جانے سے گریز کر رہے تھے اور آن لائن آرڈر دے کر اپنے لئے آسانی ڈھونڈ رہے تھے۔ پاکستان میں آن لائن شاپنگ کا رجحان دیگر ممالک کے مقابلے میں اسی وجہ سے پنپ نہیں پایا ورنہ جدید ممالک میں تو سوئی دھاگہ تک لوگ آن لائن سٹورز سے ہی منگواتے ہیں۔فراڈ اور دھوکہ دہی باہر بھی ہوتی ہے لیکن اس کا امکان بہت حد تک کم ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ آن لائن دھوکہ دہی کا شکار اس لئے ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ جس ویب سائٹ سے آرڈر کر رہے ہیں وہ کریڈٹ کارڈ وغیرہ کی معلومات دینے کے لئے محفوظ بھی ہے یا نہیں۔ آن لائن شاپنگ کرنے کے لئے پیسوں کی ادائیگی اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آن لائن ادائیگی کئی طرح سے کی جاتی ہے جس میں کریڈٹ کارڈ‘ ڈیبٹ کارڈ‘ بینک ٹرانسفر یا موبائل سے پیسے ٹرانسفر کئے جا سکتے ہیں۔ کئی ویب سائٹس یا کمپنیاں پے آن ڈلیوری کی سہولت بھی دیتی ہیں۔آن لائن ادائیگی کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ کے پاس ایس ایس ایل سرٹیفکیٹ ہے یا نہیں۔ جو ویب سائٹ محفوظ ہوتی ہے اس میں نیچے ایک چھوٹا سا تالہ لگا ہوتا ہے جس پر کلک کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس ویب سائٹ نے کس کمپنی کا سکیورٹی سرٹیفکیٹ انسٹال کیا ہوا ہے اور یہ کس قدر محفوظ ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر آپ کی معلومات چرائی جاتی ہیں تو پھر یہ آپ کی قسمت ہے کیونکہ ہیکرز مسلسل اپنی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ای کامرس والی ویب سائٹس ان کا خصوصی ہدف ہوتی ہیں کیونکہ وہاں روزانہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر سے لوگ خریداری کے لئے آتے ہیں۔ اسی لئے جتنی بڑی ویب سائٹ ہو گی اتنی ہی محفوظ ہو گی کیونکہ اس نے سکیورٹی کی کئی تہیں اپنائی ہوں گی تاکہ صارف کا ضروری ڈیٹا محفوظ رہے اور اعتماد بھی برقرار رہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ناخواندہ لوگوں کی شرح بہت زیادہ ہے سائبر ڈکیتیاں بہت آسان ہیں۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد خود شکار ہونے کے لئے تیار رہتی ہے۔ انہیں کہیں سے بھی کوئی ایسی آفر نظر آتی جس میں رقم دگنا کرنے کا ذکر ہو‘ یا بڑا انعام نکل سکتا ہو وہ فوری طور پر اپنی اہم معلومات شیئر کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اب انصاف امداد پروگرام کے تحت بھی سائبر ڈاکوئوں نے سادہ لوح افراد کو لوٹنے کی کوشش کی ہے اور کئی مواقع پر وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ کبھی کسی کو ایسا پیغام موصول ہوتا ہے کہ آپ کا پچاس ہزار کا انعام یا لاٹری نکل آئی ہے آپ فوری طور پر فلاں نمبر پر دو ہزار روپے بھیجیں تاکہ آپ کو رجسٹرڈ کر کے آپ کے پیسے آپ کو بھجوائے جائیں۔ کئی لوگ یہ سوچ کر کہ دو ہزار روپے دینے سے اگر پچاس ہزار مل جائیں تو اور کیا چاہیے‘ اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں‘ لیکن دوسری طرف شاطر افراد ایسے سینکڑوں افراد سے دو دو ہزار بٹور کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک جھٹکے میں لاکھوں روپے ہتھیالیتے ہیں ۔ ان کے فون نمبر بھی جعلی ہوتے ہیں حالانکہ آج کل سم رجسٹر کروانے کے لئے بائیو میٹرک اندراج لازمی ہے لیکن یہ لوگ کیا کرتے ہیں کہ انتہائی پسماندہ یا غریب افراد کو پانچ سو یا ہزار روپے دے کر راضی کر لیتے ہیں اور ان کے نام پر پانچ پانچ سمیں نکلوا لیتے ہیں‘ بعد ازاں یہ سمیں دو نمبری کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحقیق کرتا ہے تو قابو یہ لوگ آ جاتے ہیں جو چند سو روپے کے لئے سمیں بیچتے ہیں۔ جب تک لوگ خود محتاط نہیں ہوتے تب تک لٹنے کا سلسلہ نہیں تھم سکتا۔ راتوں رات امیر بننے کا لالچ انسان سے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔
دیہی علاقوں کے لوگ اس بدقسمتی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پھر درمیان میں مڈل مین بھی خوب ہاتھ صاف کرتے ہیں۔حکومت کوئی بھی سکیم لے آئے یہ سادہ لوح افراد کو لوٹنے کے لئے متحرک ہو جاتے ہیں۔ کوئی بڑا ہائوسنگ ادارہ نئی سکیم کا اعلان کر دے تو یہ اس کے فارم جعلی پرنٹ کروا کر فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پرنٹنگ اور ڈیزائننگ کون سا مشکل کام ہے۔ ہر چیز کی اصل سے بہتر نقل تیار ہو جاتی ہے۔آپ نیب کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ہزاروں کیس ایسے ملیں گے جن میں لوگوں کو جعلی فارموں کے ذریعے لوٹا گیا۔ کبھی ڈبل شاہ کے چرچے تھے اب تو ڈیجیٹل اور آن لائن ڈبل شاہ بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غریب ہی غریب کو لوٹتا ہے۔ پہلے وہ اس کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔ اسے کہتا ہے میں نے فلاں لاٹری خریدی‘ میرا اتنا انعام نکلا ‘تم بھی خریدو تم بھی میری طرح امیر ہو جائو گے۔ یوں سلسلہ پھیلتا رہتا ہے لیکن ایک نہ ایک دن انجام کو ضرور پہنچتا ہے؛ تاہم اتنی دیر میں ہزاروں لوگ اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں۔ چند سال قبل میں نے اسلام آباد کے ایک ایسے ہی رہائشی کی روداد لکھی تھی جسے لاہور سے ظہیر نامی شخص کی کال موصول ہوئی۔ اس نے کہا: میں فلاں فوڈ انڈسٹری کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے بات کر رہا ہوں‘ مبارک ہو‘ ہماری کمپنی کی سالانہ قرعہ اندازی میں آپ کیلئے ہزار سی سی گاڑی انعام میں نکلی ہے لہٰذا آپ گاڑی کی وصولی کیلئے ہمارے کمپنی منیجر کمال شاہ سے کراچی رابطہ کر لیں۔ محمد حسین بڑا خوش ہوا کیونکہ ظہیر نے اسے اس کے نام سے مخاطب کیا تھا جس سے اسے یقین ہو گیا کہ واقعی اسی کا انعام نکلا ہے۔ محمد حسین نے اس سے نمبر لیا اور اسی وقت کمال شاہ سے رابطہ کر لیا۔ کمال شاہ نے کہا‘ آپ دس منٹ کے بعد دوبارہ فون کریں‘ میں چیک کرکے بتاتا ہوں۔ دس منٹ بعد اس نے بتایا آپ کو مبارک ہو‘ ہماری کمپنی کی طرف سے آپ کی کار انعام میں نکلی ہے‘ آپ تین دن کے اندر اندر اپنا اصل شناختی کارڈ اور اپنے ضلع کے دو گواہوں کے ساتھ کراچی پہنچیں یا اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو میں آپ کو کوریئر سروس کراچی کا نمبر دیتا ہوں‘ آپ ان سے کرایہ وغیرہ معلوم کرلیں اور مجھے بتادیں میں آپ کی کار بلٹی کروا دیتا ہوں‘ جس کے بعد ہماری کمپنی کا نمائندہ اسلام آباد آکر آپ سے کاغذی کارروائی پوری کر لے گا۔ محمد حسین نے کار کوریئر سروس کے نمبر پر چوہدری بوٹا نامی شخص سے بات کی۔ بوٹا صاحب نے اسے کہا کہ آپ کی گاڑی تو نکلی ہے لیکن گاڑی منگوانے کے اخراجات آپ کو خود ادا کرنا ہوں گے۔ محمد حسین نے سوچا آٹھ دس لاکھ کی کار ہے اس کے لئے چند ہزار لگ جائیں تو کیا حرج ہے۔ اس نے چالیس ہزار بھیج دئیے۔ بعد میں کال آئی کہ گاڑی کو ناکے پر روک لیا گیا ہے کہ یہ رجسٹرڈ نہیں ہے‘ اس لئے پہلے اس کی رجسٹریشن کرانی ہو گی۔ آپ نوے ہزار روپے رجسٹریشن کے بھیج دیں تاکہ آپ کو گاڑی مل سکے۔ محمد حسین نے وہ بھی بھیج دئیے۔ پھر کال آئی کہ انشورنس بھی کروا لیں کہیں گاڑی راستے میں اتارتے چڑھاتے وقت نقصان کا شکار نہ ہو جائے۔ محمد حسین نے چالیس ہزار اور بھیج دئیے۔ یوں دو اڑھائی لاکھ بھیج کر وہ گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ایک دن دو دن کتنے ہی دن گزر گئے لیکن گاڑی نہ پہنچی۔ اس نے ان تمام نمبروں پر کال کی مگر سارے نمبر بند ملے۔یوں وہ پیسوں سے بھی گیا اور گاڑی سے بھی۔کبھی کبھی انسان کی عقل ایسے ماری جاتی ہے کہ لالچ اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔پیسوں کی ادائیگی آن لائن ہو یا آف لائن‘ انسان کو اپنے اوسان بہر حال بحال رکھنے چاہئیں اور کسی جاننے والے کو تو چھوڑیں اپنے سگے بھائی سے بھی لین دین کرتے وقت کاغذ پر تحریر کر لیناچاہیے تاکہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں خود کو محفوظ کیا جا سکے کیونکہ معاہدہ تحریر کر لینے کا حکم قرآن میں بھی آیا ہے اور قرآن کا ایک ایک حرف ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
 
Columnist
Ammar Chaudhry
Column date
Jun 2, 2020
@intelligent086
اس معاشرے کی رگوں میں فراڈ دوڑ رہا ہے
بہت عمدہ انتخاب
 

@intelligent086
اس معاشرے کی رگوں میں فراڈ دوڑ رہا ہے
بہت عمدہ انتخاب
بھوک ، ننگ ، نا انصافی ، بیروزگاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم اجرت ایسے زہنوں کو تیار کرتی ہے دیگر پہلو بھی نظر انداز نہیں کیئے جا سکتے
 
بھوک ، ننگ ، نا انصافی ، بیروزگاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم اجرت ایسے زہنوں کو تیار کرتی ہے دیگر پہلو بھی نظر انداز نہیں کیئے جا سکتے
آپ کی بات درست ہے جی
 
Back
Top