Pakistan Main Aaluda Pani 40% Bemariyun ka sabab By Shah Nawaz

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
پاکستان میں آلودہ پانی 40 فیصد بیماریوں کا سبب بن رہا ہے ...... تحریر : محمدشاہنوازخان
Aaluda pani.jpg

طبقات میں تقسیم اس معاشرے میں آج ہم ان کروڑوں پاکستانیوں کی بات کر رہے ہیں جو اس ملک کی اکثریت ہے۔اور ان لوگوں کی زندگیوں میںنا مناسب رہائشی سہولیات اور حالات کی وجہ سے بیماریوں نے ان کی زندگیوں میں ڈیرہ ڈال لیا ہے ۔ ادویات کے اخراجات ان کو کمر سیدھی نہیں کرنے دیتے ۔بیماری کی صورت میں پورا دن سرکاری ہسپتالوں کی لمبی لائنوں میں ذلیل ہو کر گھٹیا اور سستی دوائی انکا مقدر ہے ۔

بڑے بڑے پرائیوٹ ہسپتالوں تک نہ ان کی رسائی ہے اور نہ یہ لوگ اُس کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ کسی بیماری کی صورت میں جب سرکاری ہسپتال کے دھکوں سے علاج نہیں ہو پاتا تو یہ مجبور لوگ گھر کا زیور یا بھینس بیچ کر ان پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کے قابل ہوتے ہیں ۔ورنہ ان کروڑوں لوگوں کے لیے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نہ ڈاکٹر کے پا س پوری طرح دیکھنے کا ٹائم ہیں نہ معیاری ادویات اور سہولیات ہیں ۔

سرکاری ہسپتالوں کے لون پڑے یہ بے بس لوگ 70سالوںہماری حکومتوں کی بے حسی کی تصور ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروںکی عدم توجہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ شام میں ان ڈاکٹروں نے اپنے پرائیوٹ ہسپتالوںکو بھی چلانا ہوتا ہے۔اگر سرکاری ہسپتالوں میں توجہ دے دی تو کلینک کیسے آباد ہونگے۔

علاج کی نام پر جس طرح سے چندپرائیوٹ ہسپتالوں عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔وہ نا قابل بیان ہے۔آج انہی لوگوں کے ذکر کا دن ہے جو علاج سے محروم ہیں۔ صحت ایک مکمل جسمانی ذہنی اورسماجی آسودگی کا نام ہے۔1950 سے اب تک صحت کا عالمی دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے اس دن منانے کا مقصد لوگوں میں صحت کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے ڈبلیو ایچ اوکے ساتھ ملکر کام کر رہا ہے لیکن پاکستان میں دیگر مسائل کی طرح صحت کے بے شمار مسائل ۔صحت کے مسائل کا شکار زیادہ تر پسماندہ علاقے اور پسماندہ طبقات ہیں صحت کی سہولیات سے محروم غریب عورتیں اور بچے ہیں اگر ہم پاکستان کی صورتحال کا ایک سرسری جائزہ لیںتو احساس ہو گا کہ اس صورتحال کو بہتر بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں صحت کا بجٹ 2فیصد سے کم ہے۔اور 1500 سے زیادہ افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر اور وہ بھی کبھی ہڑتال پر اور کبھی چھٹی پر۔

ہمارے ہاں ہر سال تقریباً 2کروڑ لوگ انتقال خون کراتے ہیں جس میں صرف 20 فیصد لوگ ٹسٹ شدہ خون استعمال کرتے ہیں ۔پاکستان میں ایڈز کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔1998 ء میں پاکستانمیں 16000 میں سے ایک شخص ایڈز کا شکار تھا رپورٹ کے مطابق ہر 1400 افراد میں سے ایک شخص ایڈز کا شکار ہے۔اور ایڈز کو پھیلانے میں نشہ اہم کردار ادا کر رہا ہے پاکستان میں 25 سے 30 سال کی عمر کے 60,000 سے زائد نوجوان انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں اور جو بنیادی طور پر ایڈز کا سبب بنتا ہے ٹی بی بھی غریب ممالک کا اہم مسئلہ ہے اور پاکستان میں جو افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں ان کی اکژیت علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو جا تی ہے۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ پشاور میں 2.2 فیصد ،اسلام آباد میں 5.14 فیصد ،لاہور میں 4.97 فیصد اور کراچی میں 6.8 فیصد اور ملتان میں 3.37 فیصد بتایا گیا ہے ۔شوگر کے مریضوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 9 ملین لوگ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اگر یہ شرح اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2025 ء میں 14.3 ملین ہو جائے گی۔

پاکستان میں صحت کے گرتے ہوئے اعشاریوں کووہ کیسے بہتر بناتی ہے کیونکہ ہمارے بجٹ میں جو رقم صحت کے لئے مختص کی جاتی ہے وہ انتہائی کم ہے۔صحت کے بجٹ میں اضافہ بہت ضروری ہے ۔دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں ۔20 کروڑ کی آبادی کے لئے تقریباً 1167 ہسپتال 5695 ڈسپنسریاں اور صرف پانچ ہزار تین بنیادی مراکز صحت کام کر رہے ہیںاور 556 رورل ہیلتھ سنٹر میں تقریبا1500 افراد کے لئے ایک ڈاکٹرہے۔40فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں ہر 38 میں سے ایک خاتون زچگی کے دوران فوت ہو رہی ہے، جنکی عمر 16 سے 30 سال ہوتی ہے۔بچوں کی صورتحال بھی کچھ بہتر نظر نہیں آتی۔

ہر 1000 میں 93 بچے زچگی کے دوران اپنی زندگی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے اور نومولود اور 10 سال تک بچوں کی شرح اموات کی زیادہ وجہ آلودہ پانی ہے پاکستان میں ہر سال 1000 میں سے 106 بچے دستوں کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح انتہائی کم ہے اب ذرا غریبوں کی حالت کا جائزہ لیں تو حقائق کچھ یوں سامنے آتے ہیں عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دنیا میں 85 افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور پاکستان میں تین کروڑ پچاس لاکھ سے زائد افراد خوراک کی کمی یعنی دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں جن میں 19 لاکھ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔

گزشتہ دنوں میں صحت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم اس کے اثرات سامنے نہیں آئے۔ حکومت کی جانب سے گھروں کی سطح پرخواتین کی صحت کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکر تعینات کی ہیں اسی طرح بی ایچ یو اور آر ایچ سی کی حالت بہتربنانے کے لئے مختلف اضلاع میں پرائیویٹ مانٹرنگ کا تجربہ کیا گیا تھا جہاں پر NRSP اور PRSP کے ذریعے سے سرکاری ہسپتالوں کی مانیٹرنگ شامل ہیں اسی طرح کچھ بنیادی مراکز صحت کو 24/7کا تجربہ بھی کیا گیا۔ہیلتھ موبائل یونٹ کا تجربہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ۔

اسی طرح 40 ملین کی لاگت سے ایڈز کنٹرول پروگرام بھی گزکچھ اضلاع میں ملیریا کنٹرول مہم چلائی گئی ہے اسی طرح بچوں کی صحت کے حوالے سے EPI پروگرام کئی سالوں سے جاری ہے 1979 ء میں یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا اب اس میں ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں سے بچائو اور وٹامن کے قطروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اسی طرح دیگر کئی منصوبہ جات شروع ہیں جس میں زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے پروگرام بھی شامل ہیں ۔یاد رہے کہ پاکستان نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز2015ء میں دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے ملک میں بچوں اور عورتوں کی صحت ملیریا اور ٹی بی کو کنٹرول کریں گے اور اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر مستقبل فراہم کریں گے۔میلنم ڈویلپمنٹ گولز کی حالیہ رپورٹس میں ہم ان اہداف کو حاصل کرنے میں کافی پیچھے نظر آئے۔اب 2015سے SDGsکو 2030ء تک طے کرنے کا ہدف ہمارے سامنے ہے ۔

جس کے حصول کے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ہماری موجودہ حکومت کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے ابھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔تاکہ ہم 2030تک اپنے ملک سے ٹی بی ،ملیریا اور پولیوکا خاتمہ کرسکیں اور بنیادی صحت کی سہولیات عام آدمی تک پہنچا سکیں۔ ہمارے ملک میںدیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے میں بھی دوہرا معیارہے ،غریب عام آدمی کے لئے سہولتوں کا فقدان ہے۔جبکہ امیر اور سرمایہ دار جاگیرداروں کے لئے پیسہ کی بنیاد صحت کی اعلی سہولیات میسر ہیںاگر ہم دنیا کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں اور اپنی غریب محروم طبقات ، کسانوں، مزدوروں ،عورتوں اور بچوں کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں۔تو ہمیں سرکاری سطح کے اداروں کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا۔تاکہ غریب حالت بہتر ہوسکے۔
 
@intelligent086
افسوسناک بات ہے
باقی جو حکومتی سطح کی بات ہے تو حکومت کی جانب سے جواب ای سمجھو ان کے اتحادیوں کے بہت سے مسائل ہیں :) اللَّهُ
 

Back
Top