Pakistan Mein Islam aur Liberalism Ki kashmakash By Meem Alf Article


پاکستان میں اسلام اور لبرل ازم کی کشمکش .... میم ۔ الف

لبرل ازم آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے(یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں یعنی کسی مخصوص روکاوٹ سے نجات حاصل کرنا جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے۔ لہذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان خودمختار(اقتدار اعلیٰ) ہے۔لبرل ازم کے بنیادی تصورات سترویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے درمیان برطانیہ میں نمودار ہوئے اور نشونما پائے۔ ان صدیوں میں لبرل ازم کے تصورات اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ لوکی نے لبرل تصورات کو بادشاہت کے خلاف برطانوی تاجروں کی اشرافیہ کی حمائت میں استعمال کیا؛ اور افادیت(Utilitarian) کے نظریات کے حامل فلاسفروں نے لبرل ازم کو برطانوی سرمایہ داروں کی حمائت میں جاگیر داروں کے خلاف استعمال کیا۔اسی دوران انتہاء پسند فرانسیسی انقلابیوں نے خفیہ برطانوی حمائت سے لبرل ازم کو اپنی ریاست اور یورپ کی دوسری ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ امریکی سرمایہ داروں کے ایک گروہ نے اس تصور کو برطانیہ میں ایک گروہ کے خلاف استعمال کیا ۔ لبرل ازم کو بین الاقوامی سطح پر عثمانی خلافت کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس کے خاتمے کے بعد اس تصور کو نئی دشمن آئیڈیالوجیز (نظریہ حیات) فاشزم اور کمیونزم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بل آخر اکیسویں صدی میں ایک بار پھر لبرل ازم کو اسلامی آئیڈیا لوجی کو اُبھرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ لہذا مخلص مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لبرل ازم کے فلسفے کو جانیں اور مغرب کے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر اس کا فہم حاصل کریں
منقتبس​
 

@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top