Pakistani Mehmandari ke Bemisaal 40 Saal By Andleeb Abbas Column

پاکستانی مہمانداری کے بے مثال چالیس سال ۔۔۔۔۔۔ عندلیب عباس

بن بلائے مہمانوں کو خوش آمدید کہنا اور بے گھر ہونے والوں کو پناہ دینا ایک نایاب جذبہ ہے ۔ غریب الدیار ‘ بے گھر ہونے والوں‘ اجنبیوں‘ بے شناخت اوربے سروسامان مسافروں کی طرف دیکھیے کہ اُن کی دنیا میں کیا شناخت ہے؟ اُنہیں صرف ''پناہ گزین ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ گھر‘ خاندان‘ ہمسائے‘ سکول ‘ کھیل کے میدان‘ عبادت گاہیں او ر قبرستان جہاں آبائو اجداد مدفون ہیں اور وہ فضا جس میں آپ سانس لے کر جوان ہوئے‘ سے دور ہونے سے کٹھن تنہائی کوئی اورنہیں ہو سکتی ۔ اس ماحول سے دور ہونے کا تصور کریں تو مہاجرین کا کرب سمجھ میں آجاتا ہے ۔
حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی ''پناہ گزین کانفرنس 2020 ‘‘ جہاں پناہ گزینوں کی ابتلا کی یاد دلاتی تھی‘ وہیں اس بات کا بھی احساس اجاگر کرتی تھی کہ اس ضمن میں پاکستان کے منفرد کردار کو نظر انداز کیا گیا۔ خوشحال ممالک نے اس اہم انسانی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی ۔احساس اور ہمدردی جیسی خوبیاں انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں ‘ تاہم آج کی دنیا میں یہ اعلیٰ اقدارعملی طور پر معدوم ہوچکی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں کبھی ان اقدار کی اتنی تبلیغ نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی اتنی زیادہ پامالی دیکھنے میں آئی ۔ اس وقت ‘ جب دنیا پہلے سے کہیں زیادہ جنگوں اور تنازعات کی تمازت سے سلگ رہی ہے‘ پناہ گزین ایک عالمی حقیقت کے طور پر اپنی جگہ پر موجود ہیں‘ تاہم دنیا کی زیادہ تر اقوام اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اس دنیا میں جہاں آزاد تجارت اور کھلی منڈیوں کی بات کی جاتی ہے‘ بے گھر ہونے والے افراد پر تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں میں جو کچھ کیا ہے‘ اُس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔
۔1979 ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں افغان طورخم کے راستے پاکستان میں پناہ لینے آگئے۔ عالمی برادری نے شروع میں پاکستان کی طرف دست ِ تعاون بڑھایا‘ لیکن نائن الیون کے بعد آنکھیں پھیر لیں۔ پاکستان یواین ایچ سی آر اور کچھ دیگر اداروں کی مدد سے مسلسل آنے والے مہاجرین کی میزبانی کرتا رہا۔ پاکستان کو جس منفرد صورتحال کا سامنا ہے وہ پناہ گزینوں کی تعداد اور اس کا دورانیہ ہے۔ پناہ دینے کا مطلب بے گھر ہونے والے افراد کے لیے عارضی طور پر رہائشی بندوبست کرنا ہوتا ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے آبائی وطن میں حالات بہتر ہونے پر وہ واپس چلے جائیں گے ‘ لیکن افغان پناہ گزینوں میں زیادہ تر پاکستان سے جانے کے لیے تیار نہیں‘مگر اُن کے مستقل قیام نے بہت سی پیچیدگیاں بھی پیدا کردی ہیں‘جن سے نمٹنا ضروری ہے ۔ پشاور میں پاکستان اور افغانستان کی ثقافتی سرحدیں‘ یکساں زبان ‘ خوراک اور روایات کی صورت میں مدغم ہیں۔ شمال مغربی پشاور ''منی کابل‘‘ کہلاتا ہے ۔یہاں پانچ ہزار کے قریب دکانیں افغان مہاجرین چلا رہے ہیں۔ افغان لڑکے یہاں ریڑھیوں پر پھل اور کباب فروخت کرتے ہیں۔ دکانوں کے نا م پشتو یا دری زبان میں تحریر ہیں۔ ریستورانوں پر افغان کھانے جیسا کہ کابلی پلائو پیش کیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ملاپ دیگر مقامات پر بھی دکھائی دیتا ہے ‘ لیکن مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ زیادہ تر نوجوان افغان پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں‘ لیکن اُن کے لیے مستقل شہریت حاصل کرنا مشکل ہے ۔کچھ عرصہ پہلے تک افغان مہاجرین کو بینک اکائونٹس کھولنے کی اجازت نہیں تھی؛چنانچہ وہ غیر قانونی طریقوں سے رقوم کی ترسیل کرتے تھے ‘ تاہم بینک اکائونٹ کھولنے کی سہولت سے افغان مہاجرین کے لیے رقوم کی ترسیل بہت آسان ہوگئی ہے ۔ پاکستانی مشن افغانوں کو روزانہ چار ہزارویزے جاری کرتا ہے تاکہ وہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کے علاوہ پاکستان میں علاج معالجہ‘ تعلیم اور کاروباری سرگرمیاں بھی سرانجام دے سکیں۔پاکستانی افسران کا کہنا ہے کہ اُن کے افغانستان میں سفارتی مشنز نے 2018 ء میں ساڑھے سات لاکھ ویزے جاری کیے۔ لیکن پاکستان کو افغانوں کی میزبانی کی صرف مالیاتی قیمت ہی نہیں چکانی پڑتی‘ کیمپوں کی موجودگی سرحد سے آرپار دہشتگردی میں بھی سہولت فراہم کرتی ہے ۔ سرحد پار کرکے آنے والے لاکھوں افراد پر نظر رکھنا اور اُن کے میزبانوں یا سہولت کاروں کی شناخت آسان کام نہیں۔پاکستان میں دہشت گرد حملوں کے لیے بھارت کی طرف سے افغان سرزمین کا استعمال ایک کھلا راز ہے ۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرنے والوں کو بھی افغانستان سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔
مہاجرین کی واپسی کا عمل سست اور مشکل ہے ۔ پاکستان نے اُن کی واپسی کے لیے درخواست کی ہے ‘لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ افغان حکومت نے اپنے لوگوں کو واپس لینے کے لیے کچھ پیش کش کی تھی‘ لیکن یہ غیر مؤثر رہی ۔ جولائی 2016 ء میں صدر اشرف غنی کی حکومت نے ایک مہم شروع کی''کھپل و طن‘ گل وطن‘‘(میری سرزمین کی گھاس سرسبز ہے)‘ تاکہ افغان مہاجرین کو واپس آنے کی ترغیب دی جاسکے ۔ یہ 1996 ء کے بعد کسی بھی افغان حکومت کا پہلا قدم تھا‘تاہم بہت کم افغان مہاجرین نے اس نعرے کو سنجیدگی سے لیا۔ درحقیقت پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق افغانستان 2014 ء کی قومی پالیسی کے نفاذ میں ناکام رہا۔ مذکورہ پالیسی داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کا بنیادی معیار ِ زندگی طے کرتی ہے ۔افغانستان کی ایسا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے یہ لوگ اب بمشکل ہی جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
افغان امن معاہدہ اس وقت بھرپور توجہ کا مرکز ہے‘ اور امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات اگرچہ معاہدے کی صورت میں سرخرو ہو چکے ہیں‘ لیکن ان مذاکرات میں افغان مہاجرین کی واپسی کا کوئی ذکر موجود نہ تھا ۔ اس پیچیدہ معاہدے میں ابھی بہت سے الجھائو موجود ہیں۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ امریکی فورسز کب اورکتنی تعداد میں افغانستان سے واپس جاتی ہیں؟ جب سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری افغان فورسز پر ہوگی تو پھر کیا صورتحال ہوگی؟ افغان حکومت طالبان کے ساتھ شراکت ِ اقتدار کا کیا فارمولہ طے کرے گی؟ ان تمام اہم سوالوں کے حوصلہ افزا جواب موجود نہیں۔ پاکستان افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے بہت اہم کردار ادا کررہا ہے‘ لیکن افغان حکومت کے علاوہ افغان آبادی کے بہت سے دھڑے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ماضی میں بھی یہ دھڑے پاکستان سے آنکھیں پھیرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں 17 اور 18 جنوری کو ہونے والی پناہ گزین کانفرنس میں پاکستان کی پناہ گزینوں کی چالیس سالہ میزبانی کی یاد منائی گئی ‘ تاہم دنیا نے اس کے کردار کا کھل کراعتراف نہیں کیا ہے ۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی قوم نے اتنی فیاضی سے ‘ اتنے طویل عرصے تک کسی اور ملک کے بے گھر ہونے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد کو پناہ دی ہو ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا ہاتھ اُن کی اپنی حکومت نے بھی جھٹک دیا تھا اور پاکستان نے ان کے لیے اپنے دروازے کھولے ۔ شامی پناہ گزینوں سے یورپی ممالک کی سرد مہری اور امریکہ کی طرف سے میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کرنے کی کوشش سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان نے لاکھوں پناہ گزینوں کی اتنے طویل عرصے تک خدمت کرکے کیسی تاریخ رقم کی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی اُفق پر فیاضی اور ہمدردی کی کوئی جھلک ظاہر نہیں ہوئی‘ یہ گزرے وقتوں کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اس تاریخ ساز کردار کو دنیا اور افغان عوام کے سامنے پیش کرے ۔ افسوس یہ ہے کہ افغان عوام طویل عرصے سے پاکستان کے بارے عدم اعتماد رکھتے ہیں۔ جس دوران پاکستان کو خطے میں امن کے سفیر کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے‘ یہی وقت ہے جب عالمی برداری سے تقاضا کیا جائے کہ بے گھر اور بے سروسامان انسانیت کی میزبانی کرنے پر اس کے کردار کو سراہا جائے ۔
 

Back
Top