Pakistani Siasat Ke Tiddy Dal By Dr Abdul Wajid Khan

پاکستانی سیاست کے ٹڈی دَل ۔۔ ڈاکٹر عبدالواجد خا ن

آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہوگا کہ “اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی”۔پاکستانی سیاست کے لئے بھی بالکل اس محاورے کے مطابق یہ کہاجاسکتاہے کہ “پاکستانی سیاست ری سیاست تری کون سی کل سیدھی”۔ ہماری سیاست کا ایک کل ہی کیا اس کا حال چال اور کس بل سب کچھ ہی کتے کی دم کی طرح سیدھاہے۔اونٹ کے حوالے سے ہم یہ محاورہ بھی سنتے آر ہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن پاکستانی سیاست کا اونٹ اُسی کروٹ بیٹھتا ہے جس کروٹ اسے اس کا ماسٹر جوکی بٹھانا چاہتا ہے اور اگر اونٹ اس کروٹ بیٹھنے سے انکار کردیتاہے توپھراسے لٹادیاجاتاہے اورماسٹرجوکی اس پر اپنی مرضی کا کوئی اورجوکی سوارکرادیتاہے یاپھر قومی مفادمیں خود سوار ہوجاتاہے۔اور پھر ہماری سیاست کایہ اونٹ ماسٹر جوکی کی مرضی کے مطابق کسی کو گھٹنوں کے بل بیٹھ کے سلامی دیتاہے اور کسی کو اپنے بڑے بڑے دانتوں سے دندی وڈھ لیتاہے۔لیکن ہماری اس سیاست کے اونٹ پر جب مخصوص کیفیت طاری ہوتی ہے تو یہ اپنے ماسٹر جوکی کوبھی کمر سے پچھاڑ کر نیچے پھینک دیتاہے۔لیکن ماسٹر جوکی ماسٹر جو ٹھہرا وہ پھر براہ راست یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح ہماری سیاست کے اونٹ کی لگامیں سنبھال ہی لیتاہے۔

ہماری سیاست ترجمانوں کی فوج ظفر موج پر چلتی ہے۔ترجمان اصل میں ترجمان نہیں “گمراہان” ہوتے ہیں۔جنہیں ساون کے اندھے کی طرح اپنی جماعت میں ہرا ہی ہرا اور مخالف جماعتوں میں بُرا ہی بُرا نظر آ تاہے۔آپ نے وہ اشتہار تو دیکھا ہوگاکہ جس میں انہی سیاسی ترجمانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ وہ کون ہے جو رانگ کو رائٹ،رائٹ کورانگ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر دے گا۔ضدی سے ضدی داغ کو وائٹ کردے گا اور جب داغ صاف نہ ہوسکے تو کہہ دے گا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ویسے ہماری سیاست کے پاس ایسے ایسے ڈٹرجنٹ موجود ہیں جو بڑے سے بڑے اور گندے سے گندے داغ دھبوں کو منٹوں میں صاف کرکے چن ورگا بنادیتے ہیں۔بس اس کیلئے ماسٹر جوکی کی خوشنودی حاصل ہونا ضروری ہے۔
ہماری ملک میں کسی فیکٹری کاپہیہ چلے نہ چلے سیاسی الزامات کی فیکٹری دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہتی ہے۔اور اسکی پروڈکٹس ملک بھر میں بہت مقبول ہیں۔الزامات کی ان فیکٹریوں کے مینیجرز بلاناغہ ملک کے مختلف حصوں میں مجمع لگا کرسانڈوں کا تیل بیچنے والوں کی طرح انتہائی اعتماد اور فخر سے اپنی اصلی، جعلی پروڈکٹس میڈیا کے کیمروں کے سامنے آن ریکارڈ پیش کرتے ہیں اور میڈیااپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے اس میں مرچ مصالحہ لگا کر اپنا چورن بیچتارہتاہے۔دنیا میں سیاست ہاٹ کیک ہے پاکستان میں یہ ویری ہاٹ کیک ہے۔بس اس کو ٹھنڈاکرکے اورمل جل کے کھانے کا طریقہ آنا چاہیے۔لڑائی کی صورت میں کیا ہوتا ہے پاکستانی سیاست اس سے سبق سیکھنے کو تیارنہیں۔ پاکستانی سیاست کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔پاکستانی سیاست کے ہیرو پنجابی ولن کے اس ڈائیلاگ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں “اوئے ٹبر کھاجاں تے ڈکار وی نہ ماراں “۔یہ وہ ٹڈی دل ہے جو ہرپانچ سالوں کے بعد نئے چہروں کے ساتھ آ تا ہے اورملک کا صفایا کرکے چلا جاتا ہے۔پاکستانی سیاست انتہائی مہارت سے ہرمعاملے میں گھسنے کا فن جانتی ہے۔چاہے عیدکاچانددیکھنا ہو یاکسی کی بیماری یازنانی کامعاملہ،سیلاب ہو یا زلزلہ،کروناہویادہشت گردی،انڈیا ہو یا امریکہ،چینی ہو یا آٹا۔۔ہرجگہ عوام کے نام پر اپنی اپنی سیاست سیاست کھیلا جانا ضروری ہے۔ویسے ہماری سیاست کے پیر جناب مدظلہ وتعالی رئیس بخش رئیسانی کی پیش کردہ معرکتہ الاآراتھیوری کے مطابق سیاست تو سیاست ہوتی ہے چاہے صداقت پر مبنی ہو یا منافقت پر۔

ہماری موجودہ سیاست اور امریکی سیاست میں ایک قدرمشترک ہے کہ دونوں جگہ پر یوٹرن لینا بڑے لیڈرکی نشانی سمجھاجاتاہے اور یہ یاد رہے کہ یہ یوٹرن اپنی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے نہیں بلکہ” قومی مفادات” میں لئے جاتے ہیں۔ہماری سیاست میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے بھرے چوک میں دھونے کے لئے دھرنادھرناکھیلناعام ہے۔اوراگر اس طرح سے معاملہ نہ بنے تو ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔ہماری سیاست اس فارمولے پر بھرپور عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ اہل سیاست کی روایت ہے پرانی
دعوی جوکیاکرتے ہیں پورا نہیں کرتے​
 
Column date
Jun 6, 2020

Back
Top