Pardy ka hukam

Sibgha Ahmad

Sibgha Ahmad

Popular Pakistani
6
 
Messages
1,231
Reaction score
2,705
Points
251
hijab-abaya-abaya-style.jpg


مدینہ کی گلیوں میں منادی کرنے والے کی صدا گونجتی ہے، کہ پردے کا حکم نازل ہو گیا ہے۔ بازار میں موجود عورتیں، دیواروں کی طرف رخ پھیر لیتی ہیں، کچھ بالوں سے خود کو چھپاتی ہیں۔ کہ اب تو چادر کے بغیر گھر نہیں جائیں گی۔ بچوں کو دوڑاتی ہیں کہ گھر سے چادر لے آؤ۔ مرد حضرات منادی سنتے ہیں۔ گھروں کو لپک کر گھر کی خواتین کو یہ حکم سناتے ہیں انہیں تاکید سے خود کو ڈھانپنے کا کہتے ہیں۔۔ کفار مکہ رات کو پریشان و حیران کہ مسلمانوں کے گھروں میں دیے کیوں نہی بجھ رہے ساری رات عورتیں سلائی میں مصروف رہیں۔ کسی عورت نے سوال نہیں کیا کہ پردہ کس چیز سے کرنا ہے، چادر موٹی ہو یا باریک، آنکھیں کھلی ہوں یا چھپی، اور بس، خود کو ایسے چھپا لیتی ہیں جیسے کہ حق تھا۔ اگلے دن فجر کی نماز میں کوئی بھی خاتون بغیر پردے کے نظر نہیں آتی۔
تاریخ کچھ اوراق الٹاتی ہے اور منظر تبدیل ہوتا ہے۔ شناختی کارڈ ہاتھ میں پکڑے، سکیورٹی گارڈ گردن کو خم دے کر، ڈھیلے سے انداز میں سامنے پردے میں کھڑی لڑکی سے کہتا ہے، ’’یہ آپ کی تصویر تو نہیں ہے، مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ یہ آپ ہی ہیں؟‘‘ لڑکی منت کرتی ہے کہ کسی خاتون سے کہہ دیجیے کہ وہ میری شکل دیکھ لے، مگر ہوس کا مارا گارڈ اپنی اس ذرا سی اتھارٹی کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔۔۔ ’’آپ کو چیک کرنا میری ذمہ داری ہے!‘‘ اور پھر، حوا کی اس باحیا بیٹی کے پاس، اپنا نقاب سرکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔!
ذرا سوچیے تو سہی ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ آدم ؑکے بیٹے اور محمد ِؐعربی کی امت کے مرد کی غیرت کیا ہوئی کہ آج وہ خود بنتِ حوا کے پردے کے اترنے کا منتظر ہے؟ امت کی بیٹیوں میں سے چند نے سوال کیے بغیر حیا کو شعار بنایا تو چاروں جانب کانٹے کھڑے کیوں دیکھے؟ اس زہر کو اپنے اندر انڈیلتے رہنے پر احتجاج کی سکت ہم میں کیوں باقی نہ رہی؟
یہ زہر ایک دم ہمارے وجود کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ ہمیں وقتا فوقتا تھوڑی تھوڑی مقدار میں اس کی خوراک دی جاتی رہی۔ یہ عمل غیر محسوس انداز میں جاری رہا کہ کبھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی۔
¬¬سر پر دوپٹا اوڑھے خبریں سناتی نیوز کاسٹرز کا دوپٹہ سرکتے سرکتے کندھوں تک جا پہنچا، اور ہم نے یہ گولی نگل لی۔
ڈراموں میں کام کرتی خواتین کی آستین گھٹتی گھٹتی کندھوں تک جا پہنچی، اور ہم نے یہ گولی بھی نگل لی۔
چلتے چلتے یہ زہر ہمارے گھر کی دہلیز پار کر گیا، اور ہماری باحیا بہنوں اور بیٹیوں سے حجاب اتار پھینکنے کا تقاضا کرنے لگا۔ بےحسی کے عالم میں آدم کےبیٹے نے اردگرد نظر دوڑائی تو یہ زہر ہر گھر میں فیشن اور ماڈرنزم کا خوبصورت لبادہ اوڑھے نظر آیا۔ ’’اس دور میں جینے کا یہی تقاضا ہے!‘‘ کے نسخے نے اسے اس گولی کو نگلنے پر بھی آمادہ کر لیا۔
اور نوبت یہاں تک پہنچی، کہ آج جب کوئی سوال نہ کرنے والی اپنے حجاب کی تقدیم کا سوال کر بیٹھے، تو ایک ساتھ کئی انجیکشن اس کے جسم میں بھی اتار دیے جاتے ہیں۔۔
’’منع بھی کیا تھا تمھیں کہ اس ٹینٹ جیسے پردے میں نہ چھپاؤ خود کو!‘‘
’’یہ تو سب کے ساتھ ہو رہا ہے!‘‘
’’لوگوں کے ساتھ اس سے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں!‘‘
’’تم کیا کر سکتی ہو اس حال میں۔ کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا!‘‘
’’آئندہ کے لیے اس پردے سے جان چھڑا لو، کہ اب تو یہی ذریعہ ہے بچاؤ کا!‘‘
اور پھر وہ سوال نہ کرنے والی، حجاب کے اترنے پر بھی سوال کرنے کی جرات کھو بیٹھتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یا تو حجاب کو اتار پھینکتی ہے یا ہمیشہ کے لیے اپنا اعتماد کھو دیتی ہے! سارے کا سارا ملبہ نسخہ بنانے والے پر ڈالنا عدل نہ ہوگا۔ دوا کو اپنے اندر انڈیلنے والا کیا آنکھیں اور دل نہ رکھتا تھا؟ رکھتا ہے دل، مگر ضمیر کو سلا بیٹھا ہے۔گھر سے باہر حوا کی کوئی بیٹی نظر آئے تو سورۃ النور کا سبق بھول جاتا ہےجس میں اس کو پہلے نظر جھکانے کا حکم دیا گیا ہے:
’’مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔‘‘
اس حکم کا ادراک اسے اس وقت ہوتا ہے جب ویسی ہی ایک نظر اس کے اپنے گھر تک کسی کے تعاقب میں آ پہنچتی ہے۔ مگر افسوس کہ تب بھی مصلحت آ کر اس کے پاؤں پکڑ لیتی ہے اور وہ سسکتی بلکتی باکرہ کو اس مصلحت کا انجیکشن لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسی سوال نہ کرنے والی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور وہ سوتی قوم کی غیرت کو جگانے کے لیے خود اٹھ کھڑی ہو تو انگلیاں اسی کے کردار پر اٹھانے کا رواج بھی اسی قوم کا طرّہ امتیاز ہے۔ احتجاج کرنے والے کو عبرت کا نشان بنانے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔آواز بلند ہونے پر دبا دیے جانے کے ڈر سے خاموشی میں ہی عافیت جاننے سے انقلاب آیا کرتے ہیں نہ زندگی کے آثار باقی رہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ غیرت کا جنازہ اٹھ جانا حیا کی موت کی ہی طرف ایک قدم ہے۔ اس سے اگلا سبق تو ہمیں اکثر یاد دلایا جاتا ہی ہے:
’’حیا اور ایمان ہمیشہ اکھٹے رہتے ہیں،جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھالیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘
(حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)
 

Kis sachchai ko bayan kardia @Sibgha Ahmad .............................karwi sachchai...................but you know I have seen here once three American young girls, not muslims, in a mall. They were wearing head scarf...................amazing. I give this as example time and again when people raise objection. You can't think when Nature comes to rescue its naturality.

Thanks for sharing.
 
Sahi kaha ap ny kbhi kbhi me sochti houn k parda bhi hr kisi ko naseeb nI hota aur jinhy hota hai un k lye wo al naimat ki trh hota hai...... pasand krny ka shukrya @Mishaikh sir
 
Back
Top