Parinda By Ameen kunjahi (Afsana)

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
پرندہ ....... تحریر : امین کنجاہی

prinda.jpg

پچھلے ہفتے پروگرام بنا رہا تھا گائوں جانے کا کافی عرصہ ہوگیا تھا گائوں کا چکر لگائے ہوئے اور گائو ں کے دوست احبا ب جتنے تھے وہ گلہ بھی کرتے تھے، فون بھی کرتے تھے کہ یار تو آیا نہیں آکے مل جا اور میں اُن کو کہتا کہ میں اس جمعہ کو نہیں اگلے جمعہ کو آئوں گا اور دو دن رہوں گا اور بیٹھ کے گپ شپ لگائیں گے ،ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے، مگر جب جمعہ آتا تو میرا کوئی کا م اور نکل آتا کسی چینل پر کوئی پروگرام کی ریکارڈنگ آجاتی یا کوئی اور ادبی محفل کا دعوت نامہ آجاتا اور میں پھر اپنے گائو ں والوں سے وعدہ خلافی کرتا ، اس وعدہ خلافی کی تصاویروہ میری فیس بک پر دیکھتے ۔اس جمعہ بھی میں نے یہی پروگرام بنایا ہوا تھا کہ میں نے گائوں جانا ہے اچانک مجھے لاہور سے میرے ایک دوست کا فون آگیا ، کہ یار تو صبح دس بجے لاہور میرے چینل پر پروگرام کے لئے آسکتا ہے میں نے کہا یار اب تو دوپہر ہورہی ہے اور جمعہ کی دوپہر میں ، میں نے کہا 2اور ڈھائی کا ٹائم ہے اور راستے بھی کچھ بند ہیں، میرے لئے مشکل ہوگا لیکن اُس نے کہا نہیں تو آجا کسی طرح بھی آجا اور پھر میں نے حامی بھر لی فون بند کرکے میں نے اپنا سفری بیگ اُٹھایا جس میں ہر وقت ایک جوڑا ایک شیمپو کی بوتل ،ایک کنگی، ایک پرفیوم اورمیری روز مرہ کی دوائیاں پڑی رہتی ہیں، میں نے اپنے موبائل سے گاڑی منگوائی اور جب میں نے لوکیشن دیکھی تو گاڑی تین منٹ کے فاصلے پر تھی۔ تین ساڑھے تین منٹ میں گاڑی میرے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ مجھے ڈراپ لوکیشن ڈالنی آتی نہیں تھی ،جب میں گاڑی میں بیٹھا ،تو کیپٹن نے کہا سر ڈراپ کہاں ہونا ہے تو میں نے اُسے کہا یا ر مجھے فیض آباد کے قریب سکائے ویز کے اڈے پر اُتا ر دو ، تو اُس نے پھر اپنے موبائل میں ڈراپ لوکیشن ڈال دی اور چند منٹوں کے بعد میں فیض آباد کے سکا ئے ویز اڈے پر لاہور جانے کے لئے ٹکٹ لے رہا تھا ،میں نے ٹکٹ دینے والے سے پوچھا کہ لاہور جانے والی گاڑی کتنے بجے چلے گی، اُس نے کہا جی ہمارے پاس بزنس کلاس کے ٹکٹ صرف 2رہ گئے ہیں اگر آپ نے لینا ہے تو وہ گاڑی شام ساڑھے چار بجے چلے گی میں نے اُس سے پوچھا کہ بزنس کلا س کا کرایہ کتنا ہے اُس نے کہا کہ 1400روپے مرتا کیا نہ کرتا ،خود پر جبر کرتے ہوئے چارو ں نا چار مجھے یہ 1400روپے کا کڑ وا گھونٹ بھرنا پڑا ٹکٹ لے کر میں کھڑا ہوگیا اُس نے کہا جی گاڑی جانے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی ہے ،آپ یہاں نیچے بیسمنٹ میں ویٹنگ روم بنا ہوا ہے، وہاں چلے جائیں سرخ رنگ کے صوفے لگے ہوئے تھے، آرام دہ کمرہ تھا، میں خاموشی سے اپنا بیگ کندھے پر ڈالے ہوئے بیسمنٹ میں چلا گیا، یہاں کا ماحول بڑا چھا صاف ستھرا تھا، ایل ای ڈی پر ٹی وی پروگرام چل رہے تھے ،ایک ٹک شاپ بھی تھی وہاں پر میں نے جاکر سوفٹ ڈرنک کی ایک بوتل لی جو کہ عام بازار میں 50روپے کی ملتی ہے مگر اُس نے مجھے وہاں 100روپے میں دی۔ مجھے سگریٹ کی طلب ہورہی تھی تو میں نے اُس سے کہا کہ یہاں میں بیٹھ کر سگریٹ پی سکتا ہوں تو اُس نے کہا نہیں یہ No Smokingایریا ہے، میں خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گیا، اور وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگا ،ایک گھنٹہ گزارنا بہت مشکل تھا ،مگر کسی نہ کسی طرح چار بج کے دس منٹ ہوگئے اور میں پھر ویٹنگ روم سے نکلا اور گاڑی نمبر LEE-6772کے دروازے کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا ۔وہاں کھڑے ہوئے ملازم سے پوچھا کہ یار دروازہ گاڑی کا کب کھلے گا اُس نے کہا جی چار بج کر پچیس منٹ پر اتنے میں ایک لڑکا چائے کا ٹرے اُٹھا کر جس میں دو کپ چائے تھی ،گاڑی کے پاس لے آیااور اُس نے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور پھر میں نے ایک دم ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اُس سے کہا سر مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے اور میں کافی تھک گیا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی سیٹ پر بیٹھ جائوں ڈرائیور کوئی اچھا تھا اُس نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ میرا سیٹ نمبر 27تھا پھر خدا خدا کر کے 4بج کے 35منٹ پر گاڑی لاہور کے لئے روانہ ہوگئی اور گاڑی میں موجود میزبان لڑکی نے مائیک آن کرکے ایک مخصوص انداز میں پہلے سفر کی دُعا عربی میں پڑھی اور پھر اُس کا اُردو ترجمہ کیا اور پھر مخصو ص لہجے میں اُس نے بتا یا کہ ہمارا یہ سفر 4گھنٹے اور 45منٹ کا ہوگا ،پھر ہم سب مسافروں نے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھا اور اندازہ لگا یا کہ ہم تقریباً 10بجے رات تک اپنی منز ل مقصود لاہور نیازی اڈے پر پہنچ جائیں گے، مجھے سفر کرنا ہمیشہ ہی مشکل اور دشوار لگا ہے، چونکہ گاڑی میں بیٹھ کر پابند ہوجانا اور ایک لمبی اور سیاہ سڑک پر ایک مخصوص ٹائم کے لئے آپ نے وہ سفر طے کر نا ہے بھلے آپ کی مرضی ہو یا نہ ہو آپ کے سامنے گاڑی کی بڑی سکرین اور سیاہ سڑک کسی سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی نظر آتی ہے اور آپ اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں کبھی دائیں ٹانگ کو بائیں ٹانگ پر رکھتے ہیں ،کبھی بائیں ٹانگ کو دائیں ٹانگ پر رکھتے ہیں ،کم از کم نیند تو مجھے پورے سفر میں نہیں آتی شاید ایکسیڈنٹ کے خوف سے کہیں کوئی ایکسیڈ نٹ نہ ہوجائے ڈرائیور جب گاڑی چلا رہا ہوتا ہے تو میں محسوس کرتا ہو ں شاید میں ڈرائیور کو روحانی طور پر ہدایات دے رہا ہوتا ہوں، کہ گاڑی صحیح چلائو تیز مت کرو آگے ٹرالا آگیا ہے جس کی لائٹس بھی پیچھے نظر نہیں آتیں پھر کوئی چھوٹی گاڑی والا ایک دم سے آگے آجاتا ہے اور ڈرائیور کو پریشر بریک ایک دم سے لگانا پڑ جاتی ہے ،اسی خوف کو کم کرنے کے لئے جب میں سفر کرنے کے لئے سفر کے دوران اپنی اینٹی ڈپسریسو دوائی لے لیتا ہوں تاکہ مجھے زیادہ ذہنی مشقت نہ محسوس ہو ،گاڑی کا سفر اور کالی سڑک مجھے زندگی کی علامت لگتی ہے۔ بالکل ایسی ہی ہماری زندگی بھی ہے جیسے ہم سب ایک بس کے مسافر ہیں اور ایک انجانی منزل کی طرف رواں دواں ہیں مگر کسی مسافر کو اپنے سٹاپ کا پتا نہیں کہ اُس نے کس سٹاپ پر اُتر نا ہے مگر یہ طے ہے کہ اُس نے اپنی سیٹ چھوڑ دینی ہے اور اُس کا سفر تما م ہونا ہے ،یہ باتیں میں سوچ رہا تھا کہ میزبان خاتون جوان لڑکی میرے پاس آئی اور مجھے ہیڈ فونز دئیے مگر میں نے معذرت کر دی کے میں نے نہیں لینے، مجھے الجھن ہوتی ہے سفر کے دوران کوئی فلم دیکھنی یا پانچ پانچ چار چار منٹ کے گانے سننے اُس میں سفر طویل محسوس ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ بس گاڑی میں بیٹھوں اور ایک دم سے چار گھنٹے اور پنتالیس منٹ پلک جھپکنے میں گزر جائیں مگر ایسا ممکن نہیں یہ کہ پل پل گزارنا پڑتا ہے یہی زندگی اور سفر کا اصول ہے میں انھیں سوچوں میں گم تھا کہ وہ میزبان لڑکی دوبارہ پوری بس میں سافٹ ڈرنکس صرف کررہی تھی اور میرے پاس آئی تو اُس نے مجھ سے پوچھا آپ سافٹ ڈرنک لیں گے میں نے کہا نہیں میں سادہ پانی پیوں گا وہ مجھے پانی دے کر چلی گئی مجھے اُس لڑکی پر بڑا ترس آیا کہ یہ بچی جو کہ کسی کی بہن ہے ، بیٹی ہے ، اور پھر شاید بیوی بھی اس نے بننا ہوگا، ماں بھی بننا ہوگا، یہ بسوں میں میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہی ہے شاید اپنی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے اُس کے ساتھ پتا نہیں اس کے ادارے والوں کا کیا رویہ ہوتا ہوگا اور اس جیسی بے شمار دوسری لڑکیا ں بھی اسی طرح مختلف بس کمپنیوں میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں اور کچھ منچلے مسافر انہیں بار بار اپنی سیٹ پر لگی ہوئی بیل بجا کر بلاتے ہیں کبھی پانی کے بہانے کبھی ACنہ چلنے کا بہانہ کرکے کبھی گلاس مانگتے ہیں اور جب وہ گلاس میں پانی ڈال کر انھیں دیتی ہے تو وہ گلاس پکڑتے ہوئے اُس کی انگلیوں کو بھی دباتے ہیں اور اپنی کمینگی کا اظہار کرتے ہیں یہ کیسی زندگی ہے ، یہ کیسے روئیے ہیں میں یہ سب سیٹ نمبر 27پر بیٹھے دیکھ اور سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کی اپنی ماں اور بہنیں نہیں ہیں ، جو کہ ظاہر سے تو اشفاق احمد بننے کی کوشش کرتے ہیں ،مگر اندر سے منٹو کی طرح سوچتے ہیں آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ابھی میری سوچوں کا سلسلہ جاری تھا کہ پھر میزبان خاتون کی آواز مائیک پر گونجی کہ معزز خواتین و حضرات ہم اب کچھ ہی دیر میں نیازی اڈے لاہور میں پہنچ رہے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ آپ کا یہ سفر خوش گوار گزرا ہوگا مائیک بند ہوگیا اور گاڑی کی اند ر کی لائیٹس آن ہونا شروع ہوگئیں ۔میں نے جب پر دہ اُٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو ہم لاہور میں داخل ہورہے تھے چند ہی منٹو ں بعد گاڑی اڈے پر پہنچ گئی اور پھر روایتی پاکستانیوں کی طرح گاڑی ابھی اڈے پر رُکی نہیں تھی کہ تمام مسافر اپنی اپنی سیٹو ں پر کھڑے ہوگئے اور اپنے سفری بیگ اُٹھا کر نیچے اُترنے کی تیاری کرنے لگے تھے ۔ ایک ہٹر بونگ مچ گئی ،مگر میں سب سے آخر میں بیٹھا ہوا تھا اس لئے مجھے کوئی جلدی نہیں تھی رات کے10بج کر 15منٹ ہوچکے تھے جب میں گاڑی سے اُترا اور اڈے پر میرے دوست کا ڈرائیور جو مجھے لینے آیا ہوا تھا وہ میرا منتظر کھڑا تھا اُس نے آگے بڑھ کر میرا سفری بیگ پکڑا اور مجھے کہا سر اس طرف آجائیں گاڑی اس طرف ہے میں نے بیگ اُس کو دیا اور اُس کے پیچھے چل دیا گاڑی قریب ہی تھی میں نے گاڑی کا اگلا دروازہ کھولا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے میں نے اُس سے کہا کہ یار ایم ایم عالم روڈ پر چلو ، راستے میں باتیں ہوتی رہی۔ ڈرائیو ر کے ساتھ جب ہم نور جہاں روڈ پر پہنچے تو میں نے دیکھا چند ’’خوبصورت لڑکیا ں‘‘ فٹ پاتھ پر کھڑی ہیں تو میں نے ڈرائیور سے ا ز راہے مذاق میں پوچھا، حسین یہ کون ہیں ؟تو اُس نے کہا صاحب یہ ’’پرندے ‘‘ہیں ۔



 

Back
Top